دزاپ(ہمگام نیوز ) بلوچ عالم دین مولوی عبدالحمید اسماعیل زہی نے زاہدان کی نماز جمعہ کی تقریب کے دوران اپنی تقریر کے ایک حصے میں ملک میں ایرانی اخلاقی پولیس (ارشاد گشت) کے مسئلہ پر خطاب کرتے ہوئے کہا جو مسئلہ ان دنوں ہم سب کے لیے انتہائی تکلیف دہ اور تشویشناک ہے وہ اخلاقی پولیس “ارشاد گشت” اور خواتین کے ساتھ تنازعات کا مسئلہ ہے اور یہ شرعی حکم ہے، لیکن اس مسئلے کو تشدد کی طرف لانا درست نہیں ہے۔

 مولوی عبدالحمید نے مزید کہا: ہم سمجھتے ہیں کہ ارشاد گشت کو اپنا فرض پورا کرنا چاہیے جو کہ ہدایت ہے۔ ایران میں مذہب کے بعض ستونوں کو ترک کر دیا گیا ہے۔ نماز، زکوٰۃ اور روزہ دین کے ستونوں اور اسکارف سے زیادہ اہم ہیں، لیکن حجاب کے معاملے میں اتنی حساسیت ہے کہ مرد بھی لڑکیوں میں گھس کر دھکے دیتے ہیں اور نامناسب الفاظ کہتے ہیں اور خواتین کے ہاتھ پاؤں پکڑ کر پھینک دیتے ہیں۔ یہ مرد حضرات خواتین کے ساتھ بد سلوکی کرکے انہیں تشدد کے بعد گھسیٹ کر اپنی گاڑی میں پھینک کر لے جاتے ہیں ۔ یہ کونسی شریعت ہے؟ وہی شریعت جس نے حجاب کو فرض کیا، یہ شریعت نے کسی غیر شادی شدہ مرد کو عورت کا ہاتھ پکڑ کر اسے گھسیٹ کر لے جانے کی اجازت نہیں دی ہے ۔

بلوچ عالم دین اور خطیب جمعہ زاہدان نے کہا: یہی ایرانی خواتین ماضی میں حجاب پہنتی تھیں۔ ماضی میں تمام ایرانی مرد و خواتین نماز اور روزہ رکھتے تھے، لیکن ہمیں اس بات کا جائزہ لینا چاہیے کہ کچھ خواتین نے حجاب کیوں رد کر دیا ہے؟ اس طرح دشمنی اور نفرت پیدا ہوجاتی ہے ہمیں ان خواتین کے ساتھ بیٹھ کر ان کی باتیں سننے کی ضرورت ہے ۔ خواتین کا خیال ہے کہ وہ اسلامی نظام میں اپنے مقام تک نہیں پہنچی ہیں اور ان کے ساتھ امتیازی سلوک کیا گیا ہے۔ ہم یہ بھی مانتے ہیں کہ خواتین کے حقوق کو نظر انداز کیا گیا ہے۔ ان سالوں کے دوران خواتین اور نسلی گروہوں میں سے ایک بھی صدر یا وزیر منتخب نہیں ہوا۔ آپ خواتین کے ساتھ بیٹھ کر ان کی بات سنیں اور انہیں قائل کریں یا ان کا حقوق ادا کریں ۔

 نسلی گروہوں اور مذاہب کے بھی مسائل ہوتے ہیں۔ ان سب کے ساتھ بیٹھ کر ان کے مسائل کا حل تلاش کیا جاتا ہے۔