کوئٹہ (ہمگام نیوز ) بلوچ یکجہتی کمیٹی کراچی کے ترجمان نے اپنے جاری کردہ بیان میں کہا کہ ۲۰ مئی ۲۰۲۰ میں شہید ملک ناز نے ڈیتھ اسکواڈ کے خلاف مزاحمت کرتے ہوئے شہادت نوش کر کے بلوچوں کو ایک نئی تحریک بخشی جس نے برمش یکجہتی کمیٹی سے لے کر بلوچ یکجہتی کمیٹی تک کا سفر طے کیا۔

ڈیتھ اسکواڈ کے لوگوں نے جب ملک ناز کے گھر پر ڈاکہ مارنے کے لیے حملہ کیا تو وہ مزاحمت کی مانند کھڑی رہے۔ ملک ناز چاہتی تو خاموش بیٹھ کر سرنڈر کر سکتی تھی لیکن اس نے بہادری سے اپنے گھر اور بچوں کو بچانے کی انتھک کوشش کی جس پر انہوں نے جام شہادت نوش کی لیکن یہی ہمت ہے، مزاحمت ہے جو آج بلوچ یکجہتی کمیٹی کی تمام عورتوں میں نظر آتی ہے۔

بلوچ یکجہتی کمیٹی (کراچی) کے ترجمان نے مزید کہا کہ پاکستان میں تمام تر اقوام عوامی بے شعوری یا ریاستی جبر کے تلے دبے ہوئے ہیں۔ عوامی بے شعوری قانون کو اپنے ہاتھ میں لینا ہے جو کل پنجاب میں ایک مسیحی برادری کے شخص کو جان سے مار دیا اور لاش کی بھی بے حرمتی کی۔ ہم بارہا ریاستی اداروں سمیت عوام کو بھی کہتے آرہے ہیں کہ کوئی بھی مسئلہ ہو پولیس کے ہاتھوں دیں خود نہ خدا اور نہ ہی پولیس بنیں۔

سندھ میں جاری ریاستی جارہیت تیزی سے بڑھ رہی ہے جس کا نقصان ریاست کو ہی ہوگا۔ کچھ دنوں پہلے سوشیالوجی ڈیپارٹمنٹ، سندھ یونیورسٹی کے اسٹوڈنٹ علی رضا بروہی کو ایجنسی کے اہلکاروں نے اٹھایا اور تب سے ان کے بارے میں کوئی اطلاع نہیں ہے۔ کل شام جب اسٹوڈنٹس نے ان کی اغوا نما گرفتاری پر احتجاج کیا تو نہ صرف پولیس نے ان پر فائرنگ کی بلکہ کچھ اسٹوڈنٹس کو بھی اٹھا کر لے گئے جن کے بارے میں اب تک کوئی اطلاع نہیں۔

ترجمان نے اپنے بیان کے آخر میں کہا کہ ریاست ایک ایسا کھڈا اپنے لئے کھود رہی ہے جس میں وہ دھنس کر رہ جائیں گے کیوں کہ آپ نے تمام تر اقوام کے لئے ہوا تنگ کردی ہے اور جب سانس تنگ ہوجائے تو مزاحمت فرض ہوجاتی ہے ۔