{"remix_data":[],"remix_entry_point":"challenges","source_tags":["local"],"origin":"unknown","total_draw_time":0,"total_draw_actions":0,"layers_used":0,"brushes_used":0,"photos_added":0,"total_editor_actions":{},"tools_used":{},"is_sticker":false,"edited_since_last_sticker_save":false,"containsFTESticker":false}

تحریر ۔ حفیظ حسن آبادی

بابا مری نے ایک بار ایک صحافی کے سوال پر مشرقی،مغربی وگریٹربلوچستان کے عنوانوں پر حیرت کا اظہار کرتے ہوئے کچھ ایسے ہی کہا تھا  کہ “مجھے نہیں لگتا کہ یہ لوگ کیوں ایسا کہتے ہیں جبکہ میں بلوچستان کو ایک کامل جسم کی طرح سمجھتا ہوں اورمیرے خیال میں اُسے اسی تناظر میں دیکھا جانا چائیے بلوچستان مشرقی مغربی شمالی جنوبی چھوٹا بڑا نہیں بلکہ ایک بلوچستان ہے اور اسے ایک ہونا چائیے جس طرح اگرکسی جسم کے ٹکڑے کئے جائیں تو وہ بقا سے محروم ہوجائے گابلوچستان کے بارے میں بھی ایسا ہی کہا جاسکتا ہے “۔

13 نومبر 1839کو بلوچستان میں انگریز کے وارد ہونے کے بعد بلوچستان کی وحدت پر شاطرانہ طریقے سے حملہ کیاگیا اُس کے داخلی چھوٹے چھوٹے ثانوی مسائل کو اُبھار کر اُنکی توسط سے لاامتناعی خانہ جنگی کے حالات پیدا کئے گئے جس سے جو جغرافیائی جدائیاں اورسیاسی نفسانفسی پیدا ہوئی اس نے اس قوم و وطن کو تقسیم در تقسیم کرنے کے کام کو آسان کردیا۔بظاہر انگریز کیساتھ بلوچ ریاست کے برابری کی بنیاد پر معاہدات تھے مگر انگریز نے اپنی لومڑی جیسی چالوں سے بلوچ حکمرانوں سے اپنی وہ ساری فرمائشیں پوری کروائیں جو بلوچ کے بحیثیت قوم ناتواں اور انگریز کو قدرتمند بننے کا سبب بنے۔اس دؤراں جہاں سردار خیربخش مری(اول)،سردارآزاد خان نوشروانی،نورا مینگل جیسے لوگ پیدا ہوئے جنہوں نے انگریزوں کے خلاف مزاحمت کی وہاں رحیم خان شاہی زی مینگل،عیدو ریکی اور شکرخان جمالدینی(انگریز نے وفاداری کے عوض خان بہادر کا خطاب دیا) جیسے لوگ بھی پیدا ہوئے جنہوں نے قدم قدم پر انگریز کا ہاتھ مضبوط کر کے معاونت کی اور بلوچ مزاحمت کو کچلنے شریک کار رہے۔

1947 کو جب انگریز یہاں سے گئے اس وقت تو بلوچستان بحیثیت جسم گزشتہ ایک سو دس برسوں میں بارہا تقسیمات کے مراحل سے گزارنے کیساتھ نچوڑا بھی جا چکا تھااور اُس میں اپنی بقا کی جنگ لڑنے کی صلاحیت ہی نہیں رہی تھی اسی لئے جس طرح انگریز نے چاہا اسی طرح اُسے کیک کی مانند کاٹ کر تقسیم کا آخری مرحلہ پایہ تکمیل تک پہنچایا۔

مگر اس ناتوانی اور کمزوری کے باوجود بلوچستان نے آغاعبدالکریم خان کی سربراہی میں مزاحمت کرنے کی کوشش کی جو کامیاب نہ ہوئی مگر اُس کے اس عمل نے جاری سلسلے کوٹوٹنے سے محفوظ رکھکراسے ایک کڑی سے ضرور جوڑ دیا جوآج بلوچستان کے طول و عرض میں دیکھا جارہا ہے۔

بلوچ پاکستان میں ہو کہ ایران یا افغانستان میں وہ ہر جگہ اپنی زمین پر مقیم ہے لیکن اُس کے باوجودوہ ہر جگہ مسافروں جیسی زیست میں رہ کر تمام تر سہولتوں سے محروم زندگی کے نام پر روز و شب گھسیٹ رہا ہے۔اس غیرفطری تقسیم نے ایرانی مقبوضہ بلوچستان کو پاکستان و افغانستان میں مقیم بلوچ سے بیگانہ کردیا ہے اور پاکستان و افغانستان میں مقیم بلوچ کو یہ احساس دلایا گیاہے کہ وہ الگ تھے الگ ہیں اور الگ ہی رہیں گے گو کہ موجودہ دنیا کے عالمی قوانین کی رو سے انھیں ایک ساتھ رہنے اور ایک ساتھ ترقی کرنے کا پورا پورا حق حاصل ہے مگر یہ حق انھیں فراہم نہیں۔

اسی حق کی حصول کیلئے ایک جدو جہد جاری ہے جس میں بلوچستان کا ہر باشعور بلوچ شامل ہے پاکستان اور ایران میں اس حق طلبی کی جرم میں بلوچ بدتریں اذیتوں سے دوچار ہے۔اِس طرف لوگوں کے گمشدگی اور مسخ شدہ لاشوں کا سلسلہ نہیں رُکتا اُس طر ف ایران بلوچ کے قتل کو منشیات یا کسی اور جرم سے منسوب کرکے انجام دیتا ہے یا اُنھیں کئی ایک سُنی مذہب اسلامی ممالک کا آلہ کارکہہ کردشمن کے ایجنٹ کا فرضی لیبل لگا کرتختہ ِدار پر لٹکاتا ہے۔یوں شومئی قسمت سے بلوچ قوم کیلئے دونوں طرف موت ہی موت ہے چاہے وہ منشیات کے کسی جھوٹے کیس کے نتیجے میں ہو یا کسی مذہبی لبادے میں اُڑھاہوا ہو۔

پاکستان میں بلوچ کی نسل کُشی کیلئے انڈیا اور افغانستان کو بلوچوں کو گمراہ کرنے کا الزام لگا کراپنی بربریت کو جواز فراہم کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔انہی الزامات کے تناظر میں میں نے ایک باربلوچوں کے سفید ریش واجہ ستار پُردلی کی موجودگی میں افغانستان کے سابق صدر محترم حامد کرزئی کو بتایا تھا ” جس طرح پاکستان افغانستان اور انڈیا پر ہم بلوچوں کی مدد کا الزام لگاتا ہے اگر آپ لوگ ان الزامات کے دس فیصد کے برابربھی بلوچ قوم کی مدد کرتے تو نتیجہ یقیناًکچھ اور ہوتا۔”

 یہ سُننے کے بعد آپ چند لمحے سوچتے رہے بعد میں اثبات میں سر ہلایا پھر کہا “واقعی ہم نے بلوچوں کی وہ مدد نہیں کی ہے جس کی اُنکو ضرورت ہوئی ہے ہاں البتہ جو لوگ یہاں مہاجر کے طور پر آئے ہیں ہم نے کوشش کی ہے کہ اُنھیں کوئی تنگ نہ کرے کیونکہ ہم صدیوں سے ایک دوسرے کے ساتھ رہے ہیں اور سنگین حالات میں ایک دوسرے کے درد شریک رہے ہیں “

پاکستانی ارباب اختیار بجائے اپنی ناکامیوں کا اسباب ڈھونڈنے وہ بلوچوں کی تنگ آمد بہ جنگ آمد والی کیفیت کو ہمیشہ دوسروں اور خاص کر بھارت کی سازشوں کا نتیجہ کہتے آرہے ہیں۔حقیقت کیا ہے اسے پاکستانی حکام کسی سے بھی بہترجانتے ہیں کہ اگر انڈیا کو پاکستان میں مداخلت کرنا اور حالات بگاڑنا ہوتا تو وہ وہاں قریب لاہور اور پنجاب سے شروع کرتا۔ وہاں پاکستان کے اسٹیک بھی بہت ہیں اور جسکی وہ سب سے زیادہ پروا ہ بھی کرتے ہیں۔وہاں بھارت کو زبان،شبہات،رہن سہن،لباس،خوراک وغیرہ کسی چیز کا بھی مسلہ نہیں لیکن نہیں وہ شرارت کرنے پورے پاکستان کو روندتا ہوا دنیا کے “بہترین ” خفیہ ادارے کے ناک کے نیچے سے گزرتا ہوا پشتونوں اور بلوچوں کے پاس آتا ہے جہاں اُسے طویل مسافت کیساتھ مذکورہ بالا تمام مسائل کا سامنا بھی ہوگا۔

اس ضمن میں افسوس ناک بات یہ ہے کہ پاکستان کے تمام الزامات کے باوجود کبھی بھی افغانستان اور انڈیا نے پاکستان کے ساتھ معاملات میں بلوچ مسلے کو اپنے کسی ایجنڈے کا حصہ نہیں بنایا اور نہ کبھی اپنے ترجیحات میں اسے شامل کیا مگر بلوچ قوم نے کبھی بھی اُن سے مایوس ہو کر اُمید رکھنا بند نہیں کیا کیونکہ خطے میں بلوچ قوم افغانستان اور بھارت کا فطری اتحادی ہے افغانستان کیساتھ ہمارے تاریخی باہمی احترام پر مبنیٰ آحمدشاہ ابدالی اور نصیر خان نوری کے معاہدات ہیں جبکہ بھارت کیساتھ غیرجانبداری و جمہوری اقدار پر مشتمل سوچ،مذہب کو حکومتی معاملات سے الگ رکھ کرتمام مذاہب کیلئے یکساں احترام و سیکولر ازم کے اصول ہیں۔ان سے بھی ایک اہم بات جو انڈین،افغان اور بلوچوں کو جوڑتی ہے وہ یہ کہ یہ تینوں پاکستان کی وجہ سے بہت تکلیفیں کاٹ چکے ہیں اور پاکستان نے تقریباً پونے صدی سے انھیں ایک عذاب و ہیجانی کیفیت سے دوچار کئے رکھا ہے۔

بلوچ قوم چین سے بھی یہ اُمید نہیں رکھتی کہ وہ پاکستان کے استحصالی منصوبوں کا باگیدار بنے مگر وہ چین کو بلوچ کے پیٹھ پیچھے پاکستان سے معاہدات نہ کرنے پر قائل نہیں کرسکا ہے اور نہ ہی تاحال مکمل طور پر اسے روکنے کامیاب ہوا ہے مگر اس میں کوئی شک نہیں کہ وہ پاک چین معاہدات کو نہ ماننے کا بارہا اعلان کرچکا ہے اور اپنے تئیں مزاحمت بھی کررہا ہے۔گوکہ چین کیساتھ بلوچ کا کوئی براہ راست تضاد نہیں بجز اس کے پاکستان نے بلوچ وسائل کے لوٹ کو آسان کرنے ایک خاص منصوبے کے تحت اُسے سامنے لاکر کھڑا کیا ہے اس سلسلے میں ایک بار فری بلوچستان موومنٹ کے سربراہ حیربیار مری نے اپنے ایک بیان میں چین کو کہا تھا کہ وہ مقبوضہ بلوچستان کے وسائل کے لوٹ کھسوٹ میں پاکستان کا حصہ دار نہ بنے کیونکہ بلوچ قوم کسی ایسے معاہدے کو تسلیم نہیں کرے گی جو اُسکی مرضی کے خلاف پاکستان نے کی ہے۔

پچھلے دنوں ایف بی ایم کے سربراہ حیربیار مری کا ایک ایسا ہی بیان انڈیا کی ایران میں چاھبار پورٹ میں Indian Ports Global Limited (IPGL)اور ایران کے Port & Maritime Organisation درمیان معاہدات کی روشنی میں آیا جسمیں آپ نے انڈیا سے شکایت کی ہے کہ آپ بلوچوں سے ہمدردی رکھنے اور اُنکے دکھوں کو سمجھنے کی بات کرتے ہیں اور آپ یہ بھی جانتے ہیں کہ بلوچ پاکستان اور ایران دونوں ملکوں میں اپنی بقا کی جنگ لڑ رہی ہے جسے کچلنے ایران اور پاکستان اُسکی نسل کررہے ہیں ایسے میں ہندوستان ایران کے ساتھ ایسے معاہدات سے اجتناب کرے جو بلوچ قوم کے قومی اجتماعی مفادات کے خلاف ہوں۔

اس بیان پر ہندوستان اور ایران کے معاہدے پر شاید اثر نہ پڑے کیونکہ ہندوستان اس سے پہلے بھی ایران کیساتھ اربوں ڈالر کے درجنوں معاہدات کرچکا ہے مگر اس سے ایک بات واضع ہو جاتی ہے کہ بلوچ قیادت کسی کے بھی سامنے اپنا واضع موقف رکھنے کی صلاحیت رکھتا ہے ہو سکتا ہے انڈیا آج کے دن اس بیان کو اہمیت نہ دے مگر کل جب بلوچ اُن تمام ایرانی منصوبوں کے خلاف اقدامات اُٹھانے کی پوزیشن میں ہو گی تو ہندوستان کم از کم یہ گلہ نہیں کرسکتا کہ ان منصوبوں میں تو ہم بھی شامل تھے بلوچ ہمارے دوست ہیں وہ کیسے ایسا کرسکتے ہیں؟ توبلوچ کو یہ یاددہانی کرانے میں کوئی دقت نہیں ہوگی کہ ہم نے آپ کو شروع دن سے ایسے منصوبوں سے دور رہنے کا کہا تھا کہ جن سے بلوچ قوم کو نقصان پہنچتی ہواور اُن تمام منصوبوں کے خلاف اقدامات اُٹھانے کا حق محفوظ رکھتی ہے جو ایران یا پاکستان نے اُسکے مرضی کے خلاف بنائے ہیں۔

اس سے قبل بھی ایران کو لے کرحیر بیار مری ایک شخص سے اُلجھے تھے جو اُنھوں نے آپ کو مشورہ دیا تھاکہ بلوچ اپنی آزادی کی جدوجہد کو صرف پاکستان کے زیر قبضہ بلوچستان تک محدود رکھیں ایران اپنے زیر انتظام بلوچستان میں جو کچھ کرتا ہے آپ اُس سے سروکار نہ رکھیں  کیونکہ ایران ہندوستان کا اتحادی ہے اور ہندوستان بلوچوں کے جدوجہد کا حمایتی ہے تو حیربیار مری نے ایک تاریخی جواب دیا تھا “ہندوستان کے تعلقا ت بیک وقت ایران،اسرائیل اور سعودی عرب سے ہیں ایران اور اسرائیل دشمن ہیں سعودی اور ایران،ایران اور اسرائیل اور سعودی کے تعلقات بھی سب کے سامنے ہیں درمیان میں ہندوستان کے سب سے اچھے روابط ہیں کیا  ان میں سے کوئی بھی ملک ہندوستان کواپنے مخالف ملک سے تعلقات ختم کرنے کا کہتا ہے؟ یقیناًنہیں کہتا ہے! کیونکہ یہ ہندوستان کا حق ہے جس سے چاہے جیسے چاہے تعلقات رکھے۔تو پھر کوئی ہم کو کیوں اپنے قومی مفادات کے پیش نظر اپنی پالیسی بنانے سے اجتناب کا مشورہ دیتا ہے۔ہمارے لئے بلوچستان ایک ہے اور ہم کسی کی دباؤ یا خوف سے اپنی سرزمین کی ایک انچ سے دستبردار نہیں ہوں گے”

حرف آخر : جب آپ کمزور ہوتے ہیں تو آپ کی اہمیت رکھنے والی بات کی بھی کوئی اہمیت نہیں ہوتی اور جب توانائی آتی ہے توآپ کی ہر بات میں وزن آجاتی ہے۔یہ اصولِ گردون قوموں اور ملکوں پر بھی صادق آتا ہے آج جب بلوچ قوم کمزور ہے اُن کی طرف سے بلوچستان کے ٹکڑوں کو جوڑنے کا مطالبہ غیر یقینی اور غیرمنطقی لگتا ہے مگر تاریخ بتاتی ہے جب قوم خود میں اعتماد پیدا کرکے تدبیریں ڈھونڈتی ہے اُسے اسرائیل کی طرح دوہزار سال بعد بھی اپنی ریاست بنانے سے کوئی نہیں روک سکتا بلوچ تو پھربھی ہر جگہ اپنی زمین پر اپنی زبان،تاریخ اور زندہ ثقافت کیساتھ زندہ و سلامت ہے اُسے اپنے حق سے دستبردار ہونے کا مشورہ دینے کے بجائے یہ تدبیر بتائی جائے کہ وہ اپنے بکھری قوت کو کیسے سمیٹ لے کیسے کراچی سے لیکر نیمروز تک گوادر سے لیکر گمباراں (بندرعباس) تک بلوچ قوم میں یکجہتی پیدا کرے۔بلوچ آج اپنے غم میں تنہا سہی مگر یہ بات بالکل یقینی ہے کہ جب اُس نے اپنے اندر قیادت کی صلاحیت پیدا کرکے ڈپلومیسی کے گُر سیکھ لیئے (میری نظر میں ڈپلومیسی ایک پیشہ نہیں بلکہ ایک فن ہے)اور دنیا کو یہ باور کرانے کامیاب ہوا کہ وہ اپنے ساتھ ساتھ دنیا کے مفادات کو سمجھنے اور اُنھیں تحفظ دینے،اُن میں توازن برقرار رکھنے کی صلاحیت رکھتا ہے تب کوئی وجہ نہیں کہ اُس کے اجتماعی مفادات کے بارے میں دنیا کی بے رُخی نتیجہ خیز توجہ میں بدل جائے اور جو آج بلوچستان کو ایک سالم جسم کی طرح دیکھنے کی حسرت محض خواب لگتاہو کل عین ممکن اور زمانے کے تمام تقاضوں کے مطابق لگے۔

(ختم شُد)