سلسلہ وار مضمون

گذشتہ سے پیوستہ (تیسری قسط)

جب عوامی والا گروہ (جو ابھی تک عوامی نہیں بنا تھا) کو ۷۰ء کے بعد منہ کی کھانی پڑی، تو انکا عقل ٹھکانے لگ گیا۔ یہی وہ دور تھا جب انہوں نے برملا خود کو بڑی سیاست سے الگ ہونے کا دعویٰ کیا۔ بی ایس او سے بی ایس او عوامی بن گیا۔ زون کی ان سے کچھ بہتر حال تھی، کیونکہ ان کا سابقہ صدر اب MNA بن چکا تھا ۔ آخر کو ان کی راج بھی ‘مور ءِ بادشاہی’ کی مصداق ایک سال بھی پوری نہ کر پائی، کہ حکومت ہی چل بسی۔

یہاں سے۷۳ء کے تاریخی المیے کی داغ بیل ڈالتی ہے۔ جو آج ایک دیومالائی حیثیت اختیار کر چکی ہے۔جس کا یہ حال ہے کہ جب بھی کسی کو اس بات کا علم ہوتا ہے کہ اسکا فلاں جاننے والا بھی اس جنگ میں شامل تھا تو انکا سینا چھوڑا ہوجاتا ہے اور چہرۂ مبارک پہ نور کے آثار نمایاں ہوجاتے ہیں۔ پھر یکدم منہ سے نکل پڑتا ہے۔۔۔ ‘اچھا! وہ بھی تھے۔۔۔!’ ایک طویل مسکان چھائی رہتی ہے۔ گوکہ کے وہ خود اسی قوم بربریت کے دلدل میں دھنس رہے ہیں۔

اسی المیہ کو اب ۷۳ء کی انسرجنسی کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ اس بغاوت کی وجوہات کے متعلق اتنا کچھ لوگوں نے لکھا اور کہا ہے کہ اب ہمارے لئے کہنے کو کچھ رہ ہی نہیں جاتا۔ تو بہتر ہوگا کہ ہم بی ایس او تک خود کو محدود رکھیں۔ مگر اگلی کسی قسط میں اس تحریک کے ایک جریدے کی سیاسی اور تصورات پہ بات ضرور ہوگی جس میں ایک خاص سرخ کا رنگ نظر آئے گا۔

۷۳ء تک دونوں بی ایس او کی سیاسی سوچ واضح ہوچکی تھی۔ زون درپردہ کسی نہ کسی صورت NAP کی حکومت کے حق میں تھی اور عوامی نے ہر طرح کی بائیں بازو سے یاریاں نبھانی شروع کی تھیں۔ جب جنگ شروع ہوئی تو زون نے NAP کے گرفتار شدہ لیڈران کے حق میں آواز بلند کی اور عوامی نے شیرو مری کے حق میں۔

دونوں بی ایس او نے ان حالات کو اتنی دلچسپ اندازمیں کیش کیا کہ کچھ ہی عرصے بعد انہیں کشف ہوا کہ وہ میدان میں اکیلے رہ گئے ہیں۔ انہوں نے دھڑا دھڑ جلسے، جلوس، مناظرے، سرکل، وغیرہ منعقد کئے۔ انہی شعلہ بیانیوں نے انہیں احساس دیا کہ وہ بھی اوروں کی طرح ایک ماس پارٹی ہیں۔ یہ سوچ بالکل اسی طرح کی تھی جیسے گھر میں مرد حاضر نہ ہوں تو چھوٹے لڑکے خود کو گھر کا ذمہ دار ماننا شروع کردیں۔ ان پہ طرّہ یہ کہ عوامی کے چیئرمین اور دوسرے کئی کامریڈ مریوں کے علاقوں میں میدانِ جنگ میں اپنا لوہا منوا رہے تھے۔ زون کے کارکنوں نے وڈھ کومرکز بنا رکھا تھا۔ اس سے انہوں نے خود کو عوامی اور نام نہاد گوریلا جنگ کا لیڈر مان لیا تھا۔ یہیں سے واحد کمبر، چیئر مین عبدالنبی بنگلزئی، خیر جان رخت دل باندھ کے کے پہاڑوں کو چل دیے۔ بی ایس او کے اور بھی بہت سے کارندے اسی راہ میں نکل پڑے۔ یہ سیاسی تنظیموں میں پہلے چیئرمین تھے، بلوچستان میں، جس کے بیانات پہاڑوں سے آتے تھے۔ پر تب بی ایس او اپنے ممبران کے حوالے سے عاجزی سے پیش آتی تھی، کسی حد تک کم از کم۔ پر وہ بے جھنڈہ مت اس مقام تک واضح ہو چکی تھی کس کی نگاہ کس جھنڈے پہ تھا۔

ان زمانوں میں نواب اکبر خان بگٹی غدار کے طور پہ جانے جاتے تھے۔ کیا خوب مذاق ہے۔حقیقی لیڈران ڈاکٹر تاج، فدا بلوچ، عبدالنبی بنگلزئی، رازق، جالب، جتک، مالک، مولابخش ،واجہ ابوالحسن، اور دوسرے پسِ پردہ تھنک ٹینک تھے(جن میں سے زیادہ تر لوگ خاموشی کی زنداں کے قیدی ہیں، یہی وہ لوگ ہیں جو کافی سیاسی حقائق اپنے بطون میں چھپائے بیٹھے ہیں۔ مگر خود کی اور اپنے یاروں کی پردہ نشینی کی خاطر نہ وہ تب بولے جب انکی آواز کی عوام کو اشد ضرورت تھی اور نہ ہی اب بول رہے ہیں۔ ہماری سیاست ان ایسے کاہل و ڈرپوک لوگوں سے بھری پڑی ہے)۔

اسی عشرے کے آخری سالوں میں ان دونوں گروہوں کو احساس ہوا کہ انکے مفادات تو ایک ہی ہیں، تو کیوں نہ ضم ہوجایا جائے ۔ مگر انہی میں ایک گروہ ایسے لوگوں کی تھی جو اس سوچ کی مخالف تھا، جن میں کہا جاتا ہے کہ مولابخش دشتی بھی شامل تھا، واللہ اَعلم۔البتہ ان میں تربت کا ایک پاگل شخص ضرور تھا جو کہتا پھرتا تھا کہ “ان دونوں میں ذہنی ہم آہنگی صرف ظاہری ہے، یہ انضمام اگر ہو بھی گئی تو بہت جلد یہ بہت بڑی انتشار کا شکار ہوجائے گی۔ جس کو یہ اناڑی کبھی سنبھال نہ پائیں گے”۔ وہ ایک ماس پارٹی تھے ، اس پاگل کی بات کو کیوں سنتے؟ وہ اور بات ہے کہ اسی پاگل کو آج کل لوگ Genius مانتے ہیں، جسے ہم خان صابرکے نام سے جانتے ہیں۔

عوامی میں ایک چھوٹی سی گروہ ماؤسٹوں کی بھی تھی ۔جنہیں کوئی منہ تک نہ لگاتا تھا، وہ بھی اس انضمام کے خلاف تھے(ان کے متعلق کہا جاتا ہے کہ انہوں نے ماؤ کی نظریۂ تضاد کی ڈور خاصی سنجیدگی سے تھام رکھی تھی، اور اتنی مضبوطی سے کہ اضداد جمع ہوں کہ رفع انکے لیے اہم بات صرف یہی ہے کہ وہ تضاد پہ ایمان رکھے رہیں)۔ مگر اکثریت انضمام کے حق میں ہی تھے، جن میں سب سے بڑی تعداد بی ایس او کے سابقہ کارکنان کی تھی جنہوں نے ان بے جھنڈا گروہوں کو آشیرواد دینے کی کھٹن ذمہ داری اپنے کھندوں پہ اٹھا رکھی تھی۔ ایک خوب حقیقت ہے کہ انضمام کی خواہش اور فیصلہ دونوں تنظیم کے باہر سے آئی تھی۔ اس سے بھی دلچسپ یہ بات ہے کہ آج بھی جو لوگ بی ایس او کی تقسیم پہ بات کرتے ہیں ان کا گلہ یہ ہوتا ہے کہ کیوں بزرگ سیاسی کارکنان نے انہیں روکھا نہیں۔ اور کسی کو اس بات سے واضح تضاد محسوس تک نہیں ہوتا۔ اور یہ عمومی لیڈرشپ ہے جو بعد جب عاجزی کی عمر میں پہنچے تو انہیں خیال آیا کہ انارکی اصل میں انکے بس کی چیز ہی نہیں تھی۔ اور یہ سچ بھی ہے، کسی لیڈر نے بی ایس او کی انارکک طبیعت پہ کام ہی نہیں کیا۔ وہ باکونین کو گالیاں دیتے رہے، ایک باکونینی آئین ہاتھ میں تھامے۔

جب بڑوں نے کہا کہ انضمام ہوگی، تو ہوگئی۔ شاید یہ کم ہی لوگوں کو علم ہو، کہ ان سب بڑوں کی سیاسی جڑیں کہیں نہ کہیں یا کسی نہ کسی سیاسی ماس پارٹی سے وابستہ تھیں ۔ کچھ کی تو جڑیں ماسکو تک جاتی تھیں، اور کچھ کی اپنے پہاڑوں تک ہی محدود تھیں۔

(جاری ہے )