تاریخ کے اوراق کو اگر پلٹ کر دیکھا جائے تو ہمیشہ سے تاریخ یہی گواہی دیتی رہی ہے کہ ظالمانہ معاشرے کے ہر دور میں کچھ ایسی شخصیات نے بھی جنم لیا ہے جو عام زندگی کے دائرے سے علیحدہ ہو کر کسی خواب کی تعبیر کے لیے اپنی ہر خوشی،شوق، خواہش ،تمنا اور سکون کی قربانی دیتے رہے ہیں۔ یہاں تک کہ اپنے مقصد کی تکمیل کے لیے اپنی جان کا نذرانہ پیش کرنے سے بھی نہیں ہچکچائے ۔ ایسے عظیم اشخاص،لوگوں کی نظر میں باغی یا تو صوفی کہلائے جاتے ہیں۔ لیکن حقیقت تو یہ ہے کہ ایسے لوگ انقلابی ہوتے ہیں اور انقلابی رہنما، دشمنوں کی تنقید اور بربریت کے نذر ہوتے ہیں۔ مگر یہی وہ رہنما اور رہشون ہیں جن کے بغیر ہم سیدھے راستے میں تو ہرگز نہیں چل سکتے۔ اور میری نظر میں ایسے لوگ اپنی قوم کے مستقبل اور راہِ آزادی میں چراغ کی حیثیت رکھتے ہیں۔ چونکہ ایک جابر ریاست اور غلام سماج میں ان آزاد خیال لوگوں کے نظریے سے وابستہ لوگوں کو ہمیشہ اذیتناک زندگی بھگتنی پڑتی ہے لیکن ایک وقت ایسا بھی ہے جب لوگ ان کے اقوال کو بطور دلیل پیش کرتے ہیں۔ تاریخ ایسے اشخاص کو عظیم رہنماؤں کے نام سے یاد کرتی ہے۔

ایسے ہی ایک عظیم اور اعلیٰ شخصیت بلوچ رہنما نواب خیر بخش مری نے 28 فروری 1928 کو کاہان کوہلو کے علاقے میں نواب مہراللہ کہ ہاں جنم لیا۔ آپ کا نام آپ کے دادا خیر بخش کے نام کے مناسبت سے خیر بخش رکھا گیا۔ بابا خیر بخش مری نے ابتدائی تعلیم اپنے آبائی علاقے کاہان کے ایک مقامی اسکول سے حاصل کرنے کے بعد سینٹ فرانسز گرائمر اسکول کوئٹہ سے حاصل کی۔

بابا خیر بخش مری ایک ایسے عظیم رہنما تھے جو زندگی کے ہر محاذ پر لڑنا جانتے تھے۔ اگر نرمی دیکھی جائے تو بابا مری سے زیادہ نرم اور خوش مزاج کوئی نہ تھا، اور اگر سختی دیکھی جائے تو بعض اوقات آپ سے سخت مزاج بھی کوئی نہ تھا، آپ کی سخت مزاجی اور آزاد خیالی کا یہ عالم ہے کہ آپ نے 2009 کے ایک انٹرویو میں کہا کہ “ہم سور کے ساتھ رہ سکتے ہیں لیکن پنجابی کے ساتھ نہیں” اس بات سے صاف واضح ہوتا ہے کہ بابا خیر بخش مری بلوچستان کو پاکستان کا حصہ بنانے میں ہرگز راضی نہ تھے اور نہ ہی آپ بلوچستان کو پاکستان کا حصہ سمجھتے تھے۔ آپ نے ہمیشہ بلوچ قوم کو یہی پیغام دیا ہے کہ ہم آزاد تھے اور ہم غلامی کے چنگل سے آزادی لے کر رہیں گے چاہے ہمیں صدیاں ہی کیوں نہ لگے۔

بابا خیر بخش مری نے اپنی پوری زندگی بلوچستان کی آزادی اور بلوچ قوم کو غلامی کے خلاف لڑنے کا درس دیتے ہوئے گزاری۔ لیکن ہر گز قبضہ گیر ریاست حکمرانوں کے ساتھ سمجھوتہ نہیں کیا کیونکہ حقِ آزادی میں کبھی سمجھوتہ نہیں کیا جاتا بلکہ کہ جابر اور قبضہ گیر ریاست کا ڈٹ کر مقابلہ کیا جاتا ہے۔ظالم کے ساتھ سمجھوتہ مظلوم قوم کی حق تلفی کرنا ہے۔

بابا خیر بخش مری ایک ایسے عظیم بلوچ قوم پرست اور انقلابی رہنما تھے ، جو نہ کبھی رُکے اور نہ ہی کبھی جھکے۔ کامریڈ مری بلوچ تحریک کے خالق ہیں، جو ہمیشہ اس بات پر ڈٹے رہے کہ یہ جنگ ہماری آزادی کی جنگ ہے اور اس کے علاوہ کوئی راستہ نہیں۔ آپ ایک عظیم اور سچے رہنما ہیں جنہوں نے کبھی بھی اپنے مفاد کے لیے بلوچستان کا سودا نہیں کیا۔

بابا خیر بخش مری نے 1970 میں پاکستان کے انتخابات میں حصہ لیا اور قومی نشست پر کامیابی حاصل کی ۔ اس وقت ون یونٹ کا خاتمہ کر کے بلوچستان کو صوبے کا نام دیا گیا۔

بابا خیر بخش مری ایک ایسے عظیم بلوچ رہنما ہیںجو ہمیشہ اپنے کام میں ایماندار اور مخلص پائے گئے، چاہے وہ اپنی جدوجہد ، اپنا کام یا بلوچستان کی آزادی کی جدوجہد ہی کیوں نہ ہو۔ بابا خیر بخش مری اپنے نظم و ضبط کے بڑے پابند تھے۔

آج ہم بلوچ تحریک اور بلوچ میں بدلاؤ اور انقلاب دیکھ رہے ہیں اس میں بابا مری کا بہت بڑا کردار ہے اور ہمیشہ رہے گا ۔ یہاں تک کہ آپ نے بلوچ قوم کو تعلیم کی طرف راغب کرایا اور آپ بلوچ نوجوانوں کو تجویز دیتے کہ خون بہاؤ،ظلم و ستم سہو، اپنی اور اپنوں کی قربانی دو،اپنی جان کا نذرانہ تک پیش کرو پر غلامی کا پھندا ہر گز اپنے گلے میں نہ باندھو،غلامی کی زنجیریں نہ پہنو۔تم آزاد تھے اور آزاد رہو۔ نواب خیر بخش مری بلوچ قوم کے لیے صرف رہنما اور رہبر نہیں تھے بلکہ وہ بلوچ قوم کے لیے ایک پیغمبر کی مانند ہے بلے ہی بابا ہمارے درمیان نہیں مگر اسکی ہر سوچ، ہر خیال اور ہر نظریہ بلوچ قومی آزادی سے منسلک ہے۔