شال (ہمگام نیوز ) بی این ایم نے پاکستان کے نام نہاد عزم استحکام آپریشن پر اپنے تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے پاکستان کے نام نہاد عزم استحکام آپریشن سے بلوچستان اور پشتونخوا میں قتل و غارت گری، جبری گمشدگیوں اور ماورائے عدالت قتل میں اضافہ ہوگا۔ اس متوقع خون خرابے اور فوجی جارحیت کو روکنے کے لیے محکوم اقوام کے درمیان اتحاد ، ہمسایہ ممالک اور عالمی طاقتوں کی مداخلت ضروری ہے۔

بی این ایم کے ترجمان نے کہا پاکستان ایک ناکام ریاست ہے جہاں بالا دست فوج اپنے قبضے کو دوام بخشنے کے لیے نت نئے تجربات کر رہی ہے۔ یہ سب محض فوجی لوٹ مار اور قبضہ کو طول دینے کی ناکام کوشش ہے۔ اس کا نتیجہ مزید اموات ، انسانی حقوق کی پامالیوں اور جبری گمشدگیوں جیسے سنگین جرائم میں اضافے کی صورت نکلے گا۔

ترجمان نے کہا بلوچستان پر قبضے کے بعد سے روزانہ کی بنیاد پر پاکستانی فوج ریاست کے تمام تر وسائل اور طاقت کو استعمال کرتے ہوئے بلوچ قوم سے نبرد آزما ہے۔ یہاں تک کہ 28 مئی 1998 کو بلوچستان میں چاغی کے مقام پر ایٹمی دھماکے کیے گئے جس کے تابکاری اثرات سے ایک وسیع علاقہ متاثر ہے۔ سی پیک روٹ پر واقع درجنوں گاؤں کے مکین مسلسل فوج کشیوں سے تنگ آکر نقل مکانی کرچکے ہیں۔ ڈیرہ بگٹی ، کوھلو اور کاھان سے ہزاروں افراد اندرون اور بیرون وطن دربدری کی زندگی گزار رہے ہیں۔ یہاں تک کہ ڈرون ہتھیار بھی بلوچ قوم کے خلاف استعمال کیے جا رہے ہیں اور بین الاقوامی سرحدوں کے باہر بھی بلوچ پاکستانی شر سے محفوظ نہیں ہیں۔ ان سب کے ہوتے ہوئے ’عزم استحکام ‘ کے نام سے فوج کشی مزید تباہی اور بلوچ قوم کے مہاجرت کا باعث ہوگا۔

انہوں نے کہا ریاست پاکستان بلوچستان کی ڈیموگرافی کو تبدیل کرکے ساحل اور وسائل پر قبضہ کرنا چاہتی ہے۔ جب بھی پاکستان میں پیپلز پارٹی اقتدار میں شریک ہوئی تو بلوچ قوم پر ریاستی جارحیت میں اضافہ ہوا۔ اب بھی بلوچستان پر فوج کشی کی حمایت میں پہلا بیان آصف علی زرداری نے دیا ہے۔ ذوالفقار علی بھٹو اور محترمہ بینظیر بھٹو کے دردناک انجام کے باوجود بھٹو کی پارٹی فوج کی سہولت کاری کرکے اپنی تاریخ دہرا رہی ہے جو ایک سیاسی پارٹی کے لیے شرمناک ہے۔

 بی این ایم کے ترجمان نے محکوم اقوام اور قومی سیاسی جماعتوں کے درمیان اتحاد و یکجہتی پر زور دیتے ہوئے کہا بلوچ اور پشتون قوم و وطن دوست طاقتیں دشمن کے خلاف چھوٹے اختلافات کو بالائے طاق رکھ کر متحد ہوں تاکہ دشمن کا ہر محاذ پر ڈٹ کر مقابلہ کیا جاسکے۔ ایک وسیع سیاسی اتحاد سے پہلے قومی مفادات پر متفق اور یک زبان ہونا اور سیاسی کارکنان کے درمیان قومی بیانیہ کی تشکیل و تشہیر میں ہم آہنگی کے ساتھ ذہن سازی ضروری ہے۔ ہم ایک دوسرے پر اپنے شرائط تھوپے بغیر اتحاد کے لیے سازگار ماحول پیدا کریں۔

انہوں نے کہا خدشات ہیں کہ نئی پالیسی کے تحت پاکستان ہمسایہ ممالک میں بلوچ مہاجرین کے خلاف مزید گھیرا تنگ کرئے گا۔ پاکستان اپنے معاملات اور ناکامیوں کو ہمسایہ ممالک کے سر تھوپ کر انہیں دباؤ میں لانے کی کوشش کرئے گا کیونکہ پاکستان کی فوجی طاقت بلوچ مزاحمت کے سامنے ناکام ہوچکی ہے اور سی پیک کا اصل مالک چین پاکستان کے سیکورٹی اقدامات سے مکمل مایوس ہے۔ چین کے دورے سے واپسی کے بعد یہ سب چین کو خوش کرنے کی کوشش ہے ، جس کے ہمارے خطے پر دور رس منفی نتائج ہوں گے۔

ترجمان نے آخر میں کہا ہمسایہ ممالک اس پر خاموش تماشائی کی بجائے واضح موقف کے ساتھ مخالفت کریں اور عالمی سطح پر پاکستان کو جوابدہ بنانے کے لیے سفارتکاری کریں تاکہ پاکستانی فوج کو انسانیت کے خلاف جرائم سے روکا جاسکے۔ بلوچستان اور پشتونخوا کا امن خطے کے استحکام اور خوشحالی کا ضامن ہیں اور یہ تبھی ممکن ہے جب محکوم اقوام اپنی سرزمین کا مالک ہوں گے۔ پاکستان اپنی ناکام پالیسیوں کا خمیازہ بھگت رہا ہے اور ہمسایہ ممالک پر اپنا بوجھ ڈال کر بیرونی امداد کی توقع کر رہا ہے تاکہ ٹوٹتی ریاست کو مزید کچھ دنوں کا سہارہ ملے اور پاکستان کی فوجی اشرافیہ اور اس کے سہولت کار سیاستدان مزید لوٹ کا مال اکھٹا کرسکیں۔