یکشنبه, اکتوبر 6, 2024
Homeآرٹیکلزساڑھے چھ دہائیوں کی بے جھنڈا تنظیم۔ دانش بشیر

ساڑھے چھ دہائیوں کی بے جھنڈا تنظیم۔ دانش بشیر

سلسلہ وار مضمون گذشتہ سے پیوستہ (چھٹا قسط)

ایک اور رائے جو کثرت سے مانی جا رہی تھی کہ انضمام محض افادی بنیادوں پہ لازم ہے، اس سے سوا کچھ سوچنا بے جا ہوگا۔
اس خیال کے مطابق، اتحاد بذاتہ ایک اھم سیاسی حربہ نہیں ہے۔ اتحاد ایک سیاسی عمل ہے جس میں تنظیم کا مظہر منظم، سنجیدہ اور ایک سماجی ضرورت لگے۔ یعنی متحد دکھنا متحد ہونے سے زیادہ اھم سے، اس طرز کے اتحاد کی صورت گری بی ایس او (متحدہ) میں نظر آئی تھی۔

بلوچ سیاست میں ایک سیاسی تنظیم کی خلا موجود تھی (بقولِ شمس الدین شمس) اور بی ایس او واقعتاً اکیلی اور پہلی منظم بلوچ تنظیم تھی۔

حقیقی معنوں میں اب تک ایک مکمل منظم تنظیم جو بلوچ قایم کر سکے ہیں، وہ بی ایس او ہی ہے۔ بی ایس او ایک خام حالت سے باقاعدہ سیاسی تحریک بننے تک، ایک خالص بلوچ سیاسی تحریک رہی ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ بی ایس او ہی ایک ایسی تنظیم تھی جو جمہوری تھی، جہاں رائے دی جاسکتی تھی، جس میں سننے سنانے کی روایت اور صلاحیت تھی۔ اگرچہ وہ آزادانہ تنقید کے اتنے دلدادہ نہیں تھے۔ پر جس معیار پہ بی ایس او تنظیم کاری کر پائی ہے ویسی نقد اور نظم کوئی اور بلوچ تنظیم شاید ہی کر سکی ہے۔ بی ایس او کا انارکک رویہ ہی بی ایس او کی جان تھی۔ اور ستر کی دہائی میں وہ ایک ماس پارٹی کی صورت اختیار کر چکی تھی۔ گوکہ وہ ماس پارٹی تھی نہیں اور نہ ہو سکتی تھی اپنی طلبہ تنظیم ہونے کے سبب۔

ان حالات میں انضمام ایک جائز عوامی نعرہ ہوسکتا تھا۔ انضمام کا مطلب ایک سیاسی علامت کا قیام تھا۔ کبھی کبھی تحریکیں علامتوں میں کشادہ روی برتتی ہے، نہ کہ محض نظریات میں۔ علامتیں بھی سیاسی حکمتِ عملی ہی کے ذرایعے اور طریق ہیں۔ پر دوسری حکمت ہائے عملیوں کی نسبت یہ دیکھنا بھی ہوتا ہے کہ کیا ان علامات سے ملتا کیا ہے۔ توڑا آگے جاکے بی ایس او کا اپنا ذاتی ایک علامت ابھرتا ہے جسے حمید شہید کہتے ہیں وہاں ہم مفصل ذکر کریں گے کہ حمید کو بحیثیت سیاسی علامت کیسے استعمال کیا گیا اور ان طریقوں سے کیا نتائج نکل سکتے تھے اور کیا نکلے۔ پر یہاں ذکر اس کا کرتے ہیں کہ سیاسی علامتیں ہیں کیا اور ان سے ملنا کیا ہے۔

بلوچ قومی سیاست چونکہ کئی اندرونی وجوہات کے سبب ایک حساس موضوع رہی ہے جہاں کھل کے کچھ بھی کہنا کبھی کبھار جائز نہیں ہوتا تو کبھی خاموشی دور اندیشی اور صبر کا سبب ہوتی ہے۔ اس حساسیت میں جب سیاسی نقاد میدان مارنے کے لیے عوام میں تنظیم کاری پہ چٹکلوں کی حد تک محض اپنا الو سیدھا کرنے کے لیے دوسرے ہمراہ حواریوں پہ ایسے تنقید کرتے ہیں جیسے وہ ان کے دشمن ہوں اور اس کے پس پشت جو عمل کار فرماں ہوتی ہے وہ محض یہ ثابت کرنا ہوتا ہے کہ ہم نے بہت دیکھا ہے، ہم بہت پہلےسمجھ چکے تھے کہ حالات یوں ہی ہونگے اگر آپ ہماری نہیں سنو گے تو۔ ایک ہٹ دھرمی، ایک کھرود ہوتی ہےان کے لہجے میں۔ تنظیمی رویوں میں بہت سی طبیعتیں ایسی ہیں جو انتہائی سادہ لوح اور وقتی مفاد کے لیے طے ہوتی ہیں اور ہوتی رہیں گی۔ پر انہیں دکھایا ایسے جاتا ہے کہ جیسے اگر یوں نہ کیا گیا تو ہماری تحریک تہہ و بالا ہوجانی ہے۔

ایسی صورت میں کبھی ایک حکمتِ عملی طے پاتی ہے جس کو اگر کھلے عام سچائی کے ساتھ پیش کیا جائے تو زمانہ حال کے مفکر اسے “سائنسی انقلابی” عمل کے بجائے مہم جوئی مانتے۔ مہم جوئی بی ایس او کے مفکر لغت میں ایک سیاسی گالی تھی۔ مہم جوئی سادہ لفظوں میں ایسی سیاسی عمل کو کہا جاتا ہے جس کا معقول طریقے سے اظہار نہ کیا جاسکے، اور اس سے انقلاب کو جائز بڑھوتری نہ مل سکے۔ لیکن مہم جوئی ہر اس عمل کو بھی کہا جاتا رہا ہے جسے بی ایس او یا کوئی بھی انقلابی تنظیم سائنسی نہ مانتی ہو۔ آج کے لحاظ سے مہم جوئی ہر وہ سیاسی عمل ہے جو ہمیں آزادی تک جانے میں مددگار ثابت نہ ہو یا آزادی پسند تنظیموں کی طرزِ عمل سے ہٹ کر سیاست کرنے کو، چاہے وہ آزادی کے ہی مقصد سے کیوں نہ ہو، مہم جوئی کہا جائے گا۔

صرف افادی بنیادوں پہ اتحاد یعنی صرف ہیرو پنتی دکھانے کی خاطر انضمام، جس میں اصل میں اتحاد نہ ہو پر لوگوں کو لگے کہ وہ اتحاد ہے۔ یعنی عمل سے جو نتیجہ نکلنا تھا وہ شروع سے غیر ممکن ہو۔ ایسے اعمال سیاسی شعبدہ بازیاں یا مہم جوئیاں کہی جائیں گی۔ لیکن اس میں یاد رکھنے والی بات یہ ہے کہ کیا اگر ایک مہم جوئی کا ماحصل مثبت ہو تو وہ اسے صحیح مانا جائے گا کہ نہیں!

مہم جوئی کو مزید غور سے دیکھنے کی یہاں ضرورت ہے۔ عمل بلا نظریہ مہم جوئی ہے۔ مسلح جہد: سیاسی، انسانی، یا انقلابی اقدار یا نظریات کے بغیر جبراً اپنا لوہا منوانا ہوتا ہے نہ کہ مثبت عوامی انقلاب۔ ایسی مسلح تحریکیں قتال گری کی راہ پہ گامزن ہوتی ہیں نہ انقلاب کے۔ لیکن چند مسلح دستے یہ طے کرتے ہیں کہ اگر کچھ عرصے مہم جوئی کو قائم رکھا جائے، جو کے ابتداء میں بچگانہ پن ہی لگے گا لیکن آہستہ آہستہ روش پکڑ کے بہتر ہوتا جائے گا۔

ایک نظریاتی عمل اور مہم جوئی میں فرق یہ ہوتا ہے کہ مہم جوئی میں ماحصل کچھ بھی ہوسکتا ہے۔ کیونکہ نظریاتی عمل میں ایک ماحصل پیش ہوتا ہے، اور وہاں تک پہنچنے کے تمام راستوں کا بغور جائز اور ان کے تمام پہلوؤں پہ ہمہ وقت نظر جمائے محتاط ہوکے عمل ہوتا ہے کہ کہیں کبھی بھی کوئی اونچ نیچ ہو تو اس میں بر وقت ترمیم کی جائے۔ مہم جوئی محض ماحصل کے متعلق سوچ کے عمل کرنے کو کہتے ہیں۔ انہیں موجود اور ماحصل کے بیچ میں جو اونچ نیچ ہے ان سے کوئی واستہ نہیں۔ نظریاتی عمل دور اندیش ہوتی ہے اور مہم جوئی جلد نتائج حاصل کرنے کی بنیاد پہ قائم ہوتی ہے۔ نظریاتی عمل میں ہر کردار ماحصل تک جانے کے لیے اپنا حصہ ڈالتا جاتا ہے اور اسی کوشش سے وہ اس مقام تک پہنچتے ہیں۔ مہم جوئی اکثر ایک الوالامر لیڈر سے کے حکم ناموں سے لکھے جاتے ہیں اور جب ایسے لیڈراں بیچ راستے میں پلٹ جائیں یا جان گنوادیں تو تمام مہم یا ڈھیر ہوجاتی ہے یا پھر بے تجربہ کار ہاتھوں میں چلی جاتی ہے۔ مہم جوئیت کی ناکامی آج نہیں تو کل طے ہے۔ نظریاتی میں عمل میں اگرچہ ماحصل تک نہ بھی پہنچا جائے تو تحریک ایک سیاسی، نظریاتی راہ میں چند قدم آگے بڑھا ہی دیتی ہےجہد کو۔ یہ سبب ہے کہ مہم جوئی ہمیشہ سے کمزور اور قنوطی سیاسی طرز عمل سمجھی گئی ہے۔ اس میں ہاو ہو اور آہ بکاں تو ہو سکتی ہے پر کچھ نتیجہ برآمد نہیں ہو سکتا۔

بی ایس او کے وہ گروہ جو یہ مان رہے تھے کہ انضمام محض کاغذی شیر کی مانند ہو تو ان پہ تنقید یہ ابھری تھی کہ اگر دکھاوے کیلئے ہی اتحاد ہونی ہے تو اس سے حاصل کچھ بھی نہیں ہونا۔ ایک ہنگامہ جس کا کل کو آپ کو خود نہیں اندازہ کہ ہونا کیا ہے جسے آپ شاید سنبھال بھی نہ سکو تو ایسے عمل سے نقصان کے سوا اور ہونے کی کوئی گنجائش نہیں۔ اور خمیازہ ہمیشہ کی طرح کیڈر کو بھگتنا پڑے گا۔

پر دوسری جانب کی رائے یہ تھی کہ مہم جوئی ہمیشہ غلط نہیں ہوتی۔ جو گروہ یہ مانتے ہیں کہ صورت حال کچھ بھی ہوں مہم جوئی کی ہمیشہ تردید ہونی چاہیئے ایسے لوگ اصل میں یا تحریک کی موجودہ تسلسل سے واقف نہیں۔ تحریک کے متعلق ٹھنڈک زدہ ماحول میں کافی ٹیبل پہ بحث کرنا اور بابت ہے اور اصل میں اس میں کام کرنا اور ہے۔ ارِک ہابس بام سچ جھوٹ جو بھی بکھے لاتینی امریکہ کی تاریخ کے حوالے سے موقع واردات میں جو فیصلے ہوئے ہیں ان کے اوپر اس کی رائے کوئی اہمیت نہیں رکھتی۔ کیوں کہ عمل میں کے دوران ہر عمل اصل میں مہم جوئی ہی ہے کوئی سیاسی عمل ایسا نہیں جو مہم جوئی نہ ہو۔ نقاد کا کہنا ہے کہ آزادی کی لڑائی میں مہم جوئی جان لیوا ہے۔ پر کیا خود آزادی لڑائی ایک مہم جوئی نہیں! اس سے بڑی اور پاپولر بیانیہ اور مہم جوئی کیا ہے! اور جب رد انقلابی انقلاب میں کوئی ایسی رکاوٹ لائیں جہاں فیصلے عین اسی وقت کرنے ہوں تو مہم جوئی کے علاوہ اور طریقہ کار گر ثابت نہیں ہوتا۔ تیسری بات یہ کہ انقلاب میں جسے نام نہاد مارکسی جسد کہتے ہیں۔ یعنی کایا کلپ کے لیے ایک چلانگ کی ضرورت ہوتی ہے وہ چلانگ مہم جوئی ہی ہے۔ ان تین اشاروں سے یہ ثابت ہوا کہ مہم جوئی بذاتہ غلط نہیں، انقلابی عمل میں ضروری ہے اور لیکھک نقاد کا منہ کھولنے پیشتر اس مہم کو اور حالات سمجھنے کی ضرورت ہے۔ گراؤنڈ میں فیصلہ کی نوعیت کو وہ جھانچ سکتا ہے جو گراؤنڈ میں ہو۔

اب آتے ہیں کہ انضمام جیسی مہم جوئی سے فائدہ کیا ہوسکتا ہے۔
بی ایس او کی یہ گروہ کو بطور سیاسی علامت استعمال کرنا چاہتی تھی۔ سیاسی علامت ایک ایسا تصور ہے جس کی معروضی یا موضوعی صور موجود ہو جو خود شبیہاً سادی اور معنوی لحاظ سے قوی تاریخیت رکھتی ہو، جس سے مزید معنی برآمد کرنے کا کام لیا جاسکے اور ان تمام موون معنیوں میں سیاسی مقاصد کا نکالنے کا کام لیا جاسکنے کی گنجائش ہو۔

مثال کے طور پہ جمہوریت کہ ایک سیاسی علامت ہے جو صور موضوعی رکھتی ہے۔ جس کی ظاہر شبیہ کچھ نہیں پر تصور کے لحاظ سے وہ علامت ہے، جس سے کئی سیاسی فعل سرانجام دئے جاسکتے ہیں۔ جمہوریت بحیثیت علامت ایک جمہوری نظام سے کئی گنا زیادہ وسیع تصور ہے۔ امریکہ کو جمہوریت کا مبلغ ماننا یا باوا کی حد تک تقدس دینا علامتی جمہوریت میں آتا ہے نہ کہ اس کے نظام میں۔ اسی علامت کو امریکہ سرد جنگ میں ایک ڈھال کے طور پہ استعمال کرتا ہے، گوئیٹے مالا میں چھڑائی، لاطینی امریکہ، افغانستان، اور انگنت لڑائیوں میں خود کی موجودگی لازم ثابت کرنے اور استعماریت پہ پردہ ڈالتے ہوئے اسی سیاسی علامت کو استعمال کیا گیا۔ اسی طرح شاؤنسٹ قوم پرستی اور تصور آریہ نے ہٹلر کے جرمن کو علامتی اسباب سے نوازا۔ پر وہاں اور علامت کی صور معروضہ بھی موجود تھی۔ یہ دونوں علامت ایک اور فکری علامت سے ابھرتی ہیں جسے جدیدیت کہتے ہیں۔ آریہ پن کا تصور یہ ہے کہ اہمیت نسبیت کو حاصل ہے اصل جو نسبیت میں ہم جیسا ہے وہ جائز اس کے سوا کچھ جائز نہیں۔ ان کا یعنی اصل یورپی نسب کا مخزن آریہ سے ہے جو اصل اور قدیم ہے۔ اس کے بر عکس امریکی یا جمہوری تصور یہ ہے کہ اصل حق حقیقی تصور کے اپنانے سے جو یونان الاصل سے ہوتا ہوا تمام مغربی کے ذریعے امریکہ پہنچا اور وہ جمہوریت ہی ہے۔ دو ایک خاص مبداء افکار اور نسب مغربی یورپ کا پرچار کرتے ہوئے ابھرتے ہیں۔ دونوں علامتیں جائز سیاست کے نعرے پہ کھڑے ہیں پر انہی سے استعماریت کا جواز یا اپنے دیگر سیاسی مقاصد نکالتے ہیں۔ تیسری مغربی یورپی سیاسی علامت اشتراکیت کی ہے۔ جسے بعد ازاں سویتی اپنا لیتے ہیں۔ اور وہ اس علامت سے اپنے سیاسی مقاصد پہ کارگر ہوتے ہیں۔

نوآبادیاتی ہندوستان میں ان تین سیاسی اندازہائے افکار کو مختلف زاویوں سے بہت سے سیاسی پارٹیوں نے استعمال کیا۔ جیسے ہندو بنیاد پرستوں نے آریائی پن کو چنا، سبھاش چندر بوس اور نہرو جیسوں نے شاونزم کو اٹھایا، کانگریسی اور لیگیوں عدلیائی جمہوریت کو اپنایا، غدر پارٹی سے بعد کے اشتراکی تحریک نے اشتراکیت کو۔ اور سب نے اسے نہ ہی محض سیاسی نظریہ کے طور پہ لیا بلکہ انکے لئے یہ ایک متھ یا علامت جیسے تصورات تھے۔ جیسے کہ یہی وہ راہ ہو جہاں سے انہیں تہذیب ہاتھ آنی ہے وغیرہ۔ یہ سیاسی علامتیں ہیں، جیسے وائٹ مینز برڈن ایک سیاسی علامت ہے، ریاست بذاتہی خود سیاسی علامت، ملاؤں کا اسلام: سیاسی علامت ہے۔ ان سب علامتوں کے پرچار سے چند سیاسی مقاصد کی تکمیل کا کام لیا جاتا ہے۔ انضمام کو بی ایس او کے وہ لوگ چھوٹے پیمانے پہ چھوٹی سی سیاسی علامت بنانا چاہ رہی تھی۔ جیسے 2002 کے بعد کی سیاست نے 73 کے جنگ کو علامت بنا لیا ہے۔

اس علامت سے کچھ مقاصد بہ آسانی ہاتھ آ سکنے کی گنجائش تھی۔ جس میں سب افضل پاپولر بیانیہ ہے کہ ہم وہ جو یہ بہتر انداز میں کرکے دکھا چکے ہیں۔ پر اس بار میں اور پچھلی انضمام میں فرق یہ تھا کہ پچھلا انضمام بلکہ تفریق تا انضمام اور پھر تفریق کلی طور پہ خارجی اثرات سے ممکن ہو پائی تھی۔ پر اس بار بی ایس او کے کابینہ، خارجی بی ایس او اور خارجی قوتیں تینوں نے مل کر اپنے کارکنان کو ایک خاص ساخت میں ڈھالنے کی جتن کی تھی۔ اور اسے قوی حد تک یوں بھی دیکھا جاسکتا ہے کہ بلوچ سیاست میں یہ ایک باقاعدہ بی ایس او کی سب سے بڑی کامیابی تھی۔ جسے بعد میں استعمال کیا جاسکتا تھا اور ایسا ہی ہوا کہ اسی کی داہائی کی بلوچ سیاست کو جب ہم آج بیٹھ کے دیکھتے ہیں تو وہ بی ایس او سے اور کچھ بھی نہیں۔

مزید براں اس مہم جوئی سے ایک اہم فایدہ ہوسکنے کی گنجایش تھی۔ وہ یہ کہ بی ایس او کو عوام میں ایک مقام مل گیا تھا۔ بی ایس او ایک کیڈر ساز تنظیم بن چکی تھی۔ اب تمام بزرگ لیڈران جو کبھی نہ کر سکے نہ انہوں نے کرنے کی کوشش کی تھی۔ وہ بی ایس او نے کر کے دکھا دی۔ سو اب وقت تھا یہ دکھانے کی وہ کیا کر سکتے ہیں۔ ابتداً انکے لیے اور بعد ازاں انہوں نے کئی کچھ اپنے لیے کیا۔

اگر آپ بی ایس او اور پارلیمانیوں کے اعمال پہ غور کرو تو نیپ بی ایس او سے عمر میں چند سال بعد ہی معرض وجود میں آئی تھی لیکن نیپ کے کارندوں کا الیکشنوں میں انہی کا سہارا تھا۔ 75 تک خیر جان اور خیر بخش کی بیچ میں جو فرق تھا وہ بی ایس او کی محنت اور نیپ کی آلسی مصالحت پسندی کے سبب مٹ چکی تھی۔ نیپ کے کارندوں کا سیاسی کردار صفر کے برابر ہے اگر اس کا مقابلہ بی ایس او سے کیا جائے۔ اگر ہم محض عوامی شہرت پہ غور کریں۔
یہ ایک دلچسپ امر ہے کہ بلوچ طلبہ، ہمیشہ فکری لحاظ سے مسلح اور غیر مسلح دونوں سیاسی تنظیموں سے زیادہ معقول رہی ہے۔ پر جب جب بالائی تنظیمیں اپنی پکڑ بی ایس او پہ سخت کرتے ہیں اور اپنے فکری گماشتے چلانے نکل پڑتے ہیں تو بی ایس او کو اپنے بنائےمسائل میں دھونس دیتے ہیں۔

اسی لیے جہاں بی ایس او کھڑی تھی وہ وہی مقام تھا کہ وہ ایک منظم ماس پارٹی بنا سکتی تھی۔ بی ایس او ایک اُلٹی سیاسی تاریخ پہ چلی تھی۔ کیڈر ساز تنظیم، ماس پارٹی سے پیشتر تشکیل پا چکی تھی۔ اب اگر وہ چاہیں ایک ماس پارٹی کی تشکیل کا تو ان کے لیے باقیوں سے زیادہ یہ آسان کام ہے۔ اور اتحاد و انضمام ان لونڈوں کو سنجیدہ دکھانے کا قوی حربہ تھا۔

بی ایس او کے مورخوں کی دلچسپیاں ہمیشہ شخصیات کی تشخیص پہ رہی ہے بہت کم ہی لوگ ہیں جنہوں بی ایس او کی فکری ماحول پہ ٹھوس طریقے سے بات کی ہو۔ بی ایس او خود میں انقلابی کا پروگرام اگر نہیں تو ان کے پاس یہ واضح بحث اور اس پہ عمل و طریق تھی کہ انقلاب کن بنیادوں پہ لائی جائے، کن کے ساتھ تعلقات رکھنے ہوں گے۔ تحریک چلنی کیسی ہے۔ سرخ نظریہ انقلاب اب تو خام خیالی مانی جاتی ہے پر جن زمانوں میں سرخ انقلابوں کا دور تھا اس میں ساینسی انداز میں انقلابات کے محرکات کی پہچان اور بحث۔ پاکستانی نظامِ سیاست کو کیسے دیکھا جائے۔ مذہب کی سماج میں حیثیت۔ اور کئی معاملات تھے جو عام کیڈر کے مباحثے کا حصہ تھے۔ بزرگ سیاسی کارندوں کی نسبت یہ نوجوان کئی حد کھلے ذہن اور ذمہ دار تھے۔ اور چونکہ نوجوان تھے تو کچھ نہ کچھ کر ہی لیتے تھے۔ جن کے برعکس 1948 سے 1970 غوث بخش کے حواری محض اپنے قبلتین درست کرنے میں لگے رہے جو کراچی سے اسلام آباد کو پہنچ گئی تھی۔

ان تمام مضمرات دیکھ کے انضمام ایک لازم اگلا قدم ٹھہرا اور وہ محض ایک جمہوری اکثریت کی بنا پہ اس فیصلے کو کرنا چاہ رہے تھے۔ باقی رہی اختلاف کی تو اگر تنظیم ایک ہوئی تو تنظیم کاری بھی آہستگی کے ساتھ ایک سی ہو ہی جائے گی۔ ان افادی بنیادوں پہ انضمامیوں کا خیال تھا کہ پہلے تنظیم کی ضرورت ہے اس کے بعد تنظیم تربیت کی جانب راجع ہوسکے گی۔

یہ بھی پڑھیں

فیچرز