لندن (ہمگام نیوز) فری بلوچستان مومنٹ کے ترجمان نے اپنے جاری کردہ بیان میں کہا ہے کہ ایرانی صدارتی انتخابات میں مقبوضہ بلوچستان کے اندر جس جس طرح بلوچ عوام نے عدم دلچسپی کا اظہار کیایہ عمل بہت خوش آئند ہے کہ قابض ایرانی جبر و استبداد کے باوجود بلوچ قوم کے دلوں اپنی سرزمین کی واگزاری اور قابض سے بیزاری کا الاؤ ابھی تک روشن ہے۔

بیان میں مزید کہا گیا کس طرح ذرائع ابلاغ میں خبریں شائع ہورہی ہیں کہ ایران اسلامی انقلاب کے بعد پہلی بار ایک اصلاح پسند و معتدل سربراہ کو الیکشن میں کامیابی ملی ہے اور اس سے بہت کچھ بدلنے کی امیدیں کی جارہی ہیں لیکن ہم اس بات کو بغیر کسی لگی لپٹی کے واضح کرنا چاہتے ہیں کہ ایران بلوچستان کے مشرقی حصے پر طاقت کے زور سے قابض ہے اور ایسے میں ایران کے اندر کوئی اصلاح پسند یا ترقی پسند برسرِ اقتدار آئے یا پھر کوئی قدامت پسند وکٹر مذہبی ،بلوچ قوم اور ایران کی درمیان موجود قابض و مقبوض کے رشتے کی حقیقت بہرحال اپنی جگہ موجود رہے گی اور بلوچ سرزمین کی کامل آزادی تک قابض و مقبوض کا یہ رشتہ اسی طرح جوں کا توں برقرار رہے گا۔

بیان میں مزید کہا گیا کہ قابض ایران انتظامی حوالے سے ابھی پینتالیس سال پہلے کٹر مذہبی سوچ کے سائے میں ہے لیکن بلوچ قوم پر ایرانی قبضہ قریباً سو سال پرانی بات ہے۔ اس میں پہلے ادوار میں نام نہاد جموریت پسند محمد مصدق اور بعدازاں سیکیولر سوچ کے حامل رضا شاہ پہلوی ایران کے انتظامی سربراہ رہے ہیں لیکن تاریخ گواہ ہے کہ بلوچ قوم اور ایران کا رشتہ اس وقت سے لیکر آج تک اور قبضے کی خاتمے تک محض قابض و مقبوض کا ہی رہے گا اور اس سے حقیقت سے اگر کوئی انکار کرنا چاہے تو وہ آج ایرانی مقبوضہ بلوچستان کے اندر عوامی بیداری کی لہر کو دیکھ لے جہاں انتخابی شرح سب سے کمترین سطح پررہی ہے اور یہ بیزاری بلوچ عوام کی سیاسی بیداری کی حقیقت کی صحیح سے ترجمانی کرتا ہے کہ بلوچ قوم کوایران کے اندر سیاسی ،ثقافتی اور مذہبی ہر اعتبار سے نسل کشی اور جبر و استبداد کا سامنا کرنا پڑرہا ہے۔

اس کے علاوہ دنیا اور عالمی ذرائع ابلاغ کو چاہئیے کہ وہ ایرانی مقبوضہ بلوچستان کے اندر قابض ایرانی فوج کے ہاتھوں بلوچ قوم کی آئے روز قتل و غارتگری اور معاشی قدغنوں کو دیکھ لیں تو انہیں بلاشبہ یہ یقین ہوجائے گا کہ بلوچ قوم کو ایرانی قابض ریاست کے ہاتھوں ہرشعبہ ہائے زندگی میں جبر و استبداد اور ناروائی کا سامنا کرنا پڑرہا ہے اور یہی درشاتا ہے کہ بلوچ اور ایران کا رشتہ صرف اور صرف کالونائزیشن کا ہی ہے۔

ترجمان نے مزید کہا کہ ایرانی مقبوضہ بلوچستان کے بلوچوں کو اپنی سیاسی و سماجی بیداری کومزید وسعت دینے اور متحدہ بلوچستان کی کامل آزادی کے لئیے اپنے قدم اور تیز کرنے چاہئیں جس طرح بلوچ عوام نے ایرانی مقبوضہ بلوچستان کے اندر نام نہاد ایرانی انتخابی عمل سے کنارہ کش ہوکر یہ ثابت کیا کہ بلوم قوم کا مسئلہ قابض ایران کے اندر رجیم کی تبدیلی سے کہیں زیادہ ہے اور جس طرح بلوچ عوام نے قابض ایران کی اس انتظامی حکومت سازی کے لئے کی جانے والی رائے دہی سے بیزاری کا مظاہرہ کیا یہ نہایت خوش آئند عمل ہے لیکن مقبوضہ بلوچستان کی کامل آزادی کے لئے ابھی تک بہت کچھ کرنا باقی ہے۔

بیان میں کہا گیا کہ بلوچ قوم اپنے اندر اتحاد و یگانت پیدا کر کے دونوں قابضین (ایران و پاکستان)کے خلاف اپنے صفوں کو ایک کریں کیونکہ بلوچستان ایک ہی سرزمین اور ایک مٹی ہے لہذا ہمیں بھی قبضہ گیروں کی الگ شناخت و قومیت کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے ایران و پاکستان دونوں سے بلوچ مادر وطن کی آجوئی اور واگزاری کے لئے اپنی سیاسی فکر و عمل اور زیادہ وسیع تر کرنا چاہئے۔

ترجمان کا کہنا تھا کہ بلوچ قوم اس حقیقت کو ہمیشہ پیشِ نظر رکھے کہ پاکستان اور ایران الگ الگ ریاستیں ہوکر بھی بلوچستان کی قبضے کے معاملے میں ایک دوسرے کی معاون و مددگار بن سکتے ہیں تو خود بلوچ قوم کیوں پاکستان و ایرانی قبضہ گیریت میں تفریق برتے، ہم سمجھتے ہیں کہ بلوچ قوم کی بقا کی ضمانت قومی بنیادوں پر اپنے اندر اتحاد و ہم آہنگی کو فروغ دیتے ہوئے دونوں قابض ریاستوں کے خلاف اپنی سیاسی قوت کو بروئے کار لاکر اپنی آزادی کو یقینی بنائیں۔