گمشدگان ہرعکس ہر تصور و تخیل میں وجود رکھتے ہیں اور ہر حقیقی منظر میں گم شدہ ہیں جہاں ہونا چاہیے وہاں نہیں ہیں اور وہاں ہیں جہاں قطعاً ہرگز نہیں ہونا چاہیے۔

فقط بلوچ ہی نہیں وہ سب گمشدہ ہیں جو راتوں کے آخری پہر روشنیوں کا سامنے کرنے سے کترا رہے ہوتے اپنے چہروں کو کالے کپڑوں سے ڈھانپے ہوہے آتے ہیں اور نازاں ہیں کہ انھیں روشنیوں کو مقید کرنے کا ہنر آتا ہے مگر جب کرنیں تاریکیوں کی بیڑیاں توڑ کر زمین پر بکھرنے کو بے تاب ہورہی ہوتی ہیں تو انھیں کوئی قید نہیں کر سکتا. روشنیوں کو کون قید کر سکا ہے خوشبوؤں کو محبوس کرنا کسی کے بس میں نہیں. روبدار میں موڑت کے درخت کے سائے تلے لیٹا کوئی بلوچ چودھویں کے چاند کے سحر میں ظاہراً کھو چُکا ہوا نظر آہے تو سمجھ لیا جائے کہ حقیقت میں وہ وہاں سے بہت دور بہت پرے دور ویرانی میں ایک جنگلی پستے کے درخت جس کی بنیادوں میں ایک شوان نے زمستان کی ٹھنڈک سے بچنے کی لیے کبھی ایک الاؤ جلاہی تھی اس جنگلی پستے کی پہلو سے گزرنے والی رہ گزر پر محو سفر ہے رہ گزر جسے راہ کندھار کے نام سے جانا جاتا ہے. وجود ء فرد گرچہ روبدار کی سامنے والی پہاڑی سے ابھرتی جھلکتی چاندنی میں سانسیں لے رہا ہوتا ہے مگر حقیقت میں وہ زمان ء حال میں نہیں ماضی اور مستقبل میں گمشدہ ہے۔

ہفتاد و ہفت سال پہلے قیقان کے ایک شہزادہ نے سرلٹھ کے اُس طرف جس صحرا نشین بڑیسی کے کنویں سے پانی قیمتاً خرید لیا تھا اُسی پانی سے آج شہزادے کی چوتھی نسل سمیت سب بلوچ اپنی تشنگی بجھارہے ہیں. طلب گاران آجوہی امن و سلامتی کے ان پیاسوں کا سفر کبھی اِس پار کبھی اُس پار جاری رہے گا جب تک کہ گمشدگان بازیاب نہ ہوں جب تک سٹیٹس یونین کی لکیریں اور خدوخال واضح نہ ہوں جب تک کہ اپنی زمین، اپنا وطن ہیناری کیفیت سے نہ نکلے، زمین جس کی سرحدیں یہاں کے باسیوں کی بولی جانے والی زبان و لیلڑی سے کھینچی گئی ہیں وہ زمین سراب سے نکلے اور سیراب ہو جاہے تب تک یہ کاروان روشنی و سہب کی تلاش میں سورج ڈوبنے کے بعد اپنے سفر کا آغاز کرتا اور سورج نکلنے کے بعد پڑاؤ ڈالتا رہے گا گمشدہ گمشدگان کی واپسی کی راہ تکتے رہیں گے۔

جبری گمشدہ بلوچ نوجوان بالاچ مولا بخش کی حراست کے دوران ماورائے عدالت شہادت کے بعد شروع ہونے والی عوامی تحریک نے کیچ سے اسلام آباد کیطرف لانگ مارچ شروع کیا تو آغاز سے ہی بلوچ وطن کے جن جن علاقوں سے لانگ مارچ گزری وہاں کے عوام نے مظاہروں میں کثیر تعداد میں شرکت کی کہا جا سکتا ہے کہ ‏لانگ مارچ کو بلوچ سماج میں مکمل طور پر عوامی پزیرائی حاصل رہی کوئٹہ سے اسلام آباد کی طرف لانگ مارچ کی روانگی کے وقت بھی یہی کہا گیا کہ ریاستی زنجیر عدل زنگ آلود ہے اور ریاست کے دیگر اداروں کی طرح ریاستی بیانیہ کے مخالفت میں جاکر اپنی کرسی ء عدل کی منصب سے انصاف نہیں کر پاہے گی. لیکن عوامی قوت للکار کو ان عدلیہ کے بہروں کے علاوہ مہزب دنیا کے دیگر اداروں تک پہنچانا بھی مقصود تھا شاید مہزب دنیا ریاستوں کی آپسی نازرک مفاداتی رشتوں کا لحاظ نہ کرے جو محکوم عوام کی بہتے خون پر بنے ہوئے ہوتے ہیں شاید مہزب دنیا اور انسانی حقوق کی عالمی تنظیمیں بلوچ سرزمین پر ایک نگاہ ڈالنے کی زحمت اٹھا سکیں جہاں بلوچوں کو اجتماعی قبروں میں دفن کرنے کا مزموم اور غیر انسانی عمل ریاستی سرپرستی میں وقوع پزیر ہوتا ہے. جہاں بلوچ نوجوانوں کو حراست کے دوران قتل کر کے ان کی قبروں پر ایک نمبر لگا دی جاتی ہے اور شناخت ظاہر کرنیکی تردد بھی نہیں کی جاتی۔

لانگ مارچ کے شرکاء کی ریاست کے شہر اقتدار میں سرد پانی کے چھڑکاؤ جیسے استقبال نے ریاست کے چہرے پر پڑا ہلکا سا پردہ اگر تھا تو وہ بھی اتار دیا. یہ شہر بھی بالکل اسی طرح بنائی گئی جسطرح کہ وہ ریاست جسکا یہ دارالحکومت ہے. جس نے نام تجویز کی وہ بھی زبردستی کے بنائے گئے سرحدوں سے اس طرف امرتسر میں پیدا ہوئے اور نام تخلیق کرنے کے انعامی پلاٹ کو ملکیت میں لینے کے حسرت قبر میں لے کر گئے. ایک اور جس نے کہیں سے اٹھا چُرا کر ایک ایٹمی طاقت بناہی وہ شہر کے تھڑوں پر بیٹھ کر اپنے پچھتاوے اور پشیمانیاں بیان کرتا رہا۔

اسلام آباد میں بلوچ لانگ مارچ کے شرکاء پر پھینکے گئے ٹھنڈے پانی سے بھیگی تھر تھر کانپتی بارہ سالہ ماہ نور بلوچ کے آنسو گرچہ بلوچ قافلے کے شرکاء کو تکلیف دیتی رہیں لیکن لٹھ بردار اور ایکشن کے لیے تیار سینکڑوں پولیس والوں کی موجودگی سے بے نیاز تلاوت کرتی زرگل نے حوصلے بھی بڑھائے ایسا لگتا تھا کہ اپنے گمشدہ بیٹے کی تلاش میں نکلی دھرنا میں تمکنت سے بیٹھی زرگل چند گز دور سفارتی انکلوژرز میں بیٹھے لوگوں کو یہ پیغام دے رہی ہو کہ جسطرح تم بصارت سے محروم ہو اور بہرے ہو اسی طرح تمھارا تخلیق کردہ یہ ریاست اخلاقیات سے بے بہرہ ہے۔

لانگ مارچ کا اسلام آباد سے واپسی پر استقبال کے لئے بلوچستان کے اولین مادرعلمی، بلوچستان یونیورسٹی جو سیاسی شعور پھیلانے کا مرکز و منبع رہا ہے کے سامنے بلوچ عوام ہزاروں کی تعداد میں موجود تھے. بلوچ عوام نے ان کا اسی طرح استقبال کیا جسطرح کے فاتحین کا استقبال کیا جاتا ہے چاروں طرف جدھر نظر دوڑائیں لوگ ہی لوگ تھے ، عمر حسب نسب و جنس کی تفریق کے بغیر ایک ہجوم تھا جو فلک شگاف نعرے بلند کررہا تھا ایسا لگتا تھا کہ بلوچ عوام نے گھر میں بیٹھ کر اور سوشل میڈیا پر استقبال کے مناظر دیکھنے کو گناہ اور خود جلسے میں شریک ہونے کو شرفمندی اور قومی فریضہ سمجھ لیا ہے۔

لانگ مارچ کے قائدین و شرکاء کے لیے استقبالیہ اجتماع جس یونیورسٹی کے سامنے انعقاد پزیر ہوا جس مقام پر بلوچ عوام کا جم غفیر جئے بلوچستان کے نعرے بلند کرتا رہا اسی یونیورسٹی کے پروفیسر نادر قمبرانی نے غالباً تئیس چوبیس سال پہلے کہا تھا کہ بلوچ بہ رضا اس ریاست کا حصہ نہیں بنا جبری طور بلوچستان کے دارالعوام اور دارالاُمرا کے متفقہ راہے کو روندتے ہوہے ایک آزاد ریاست کی آزادی سلب کر کے خطے میں اپنی مفادات کی بھینٹ چڑھا دیا گیا. اس جبری الحاق کے خلاف ایک آتش فشاں ہے جس دن عوامی طاقت کی شکل میں یہ آتش فشاں پھٹ پڑا اُس دن بلوچ سرزمین کو کالونی سمجھ کر حکمرانی کرنے والے کالوناہزر کو بھاگنے کے لیے کوہی راہ نہیں ملے گی۔

اُس روز کے عوامی سیلاب کو دیکھ کر کہا جا سکتا ہے جیسے آتش فشاں ابلتے ہوہے ایک عوامی مزاحمت کی شکل اختیار کر چکا ہو اور بلوچ عوام نے اس غیر فطری ریاست کے بلوچ نسل کشی کے مزموم پالیسیوں کو دنیا کے سامنے آشکار کرنے کا تہیہ کیا ہوا ہو۔

روایت ہے کہ ایک معرکے میں بلوچوں کی کثیر تعداد میں شہادت پر اُس وقت کے خان بلوچ میر نوری نصیر خان جو لشکر کو خود کمان کررہے تھے حددرجہ غمزدہ ہوہے اور بلوچی لشکر کے بلوچ سرزمین کے حدود میں داخل ہوتے ہی بطور سوگ اپنی پگڑی کے ایک پٹ سے اپنا چہرہ ڈھانپ لیا. نوری سے کہا گیا کہ بلوچ لشکر کی راہ پر بلوچ خواتین کی اجتماع استقبال کے لئے بیٹھیں ہوہی ہیں اور خان سے ملنے اور قریب سے دیکھنے کی خواہش رکھتی ہیں. بلوچ خواتین نے جب خان کو سوگوار اور چہرہ ڈھکا ہوا دیکھا تو مجمع کے درمیان سے ایک خاتون کی بلند آواز اُبھری کہ نوری کی بہادری کے چرچے بہت سُنے مگر یہ تو بلوچ لشکریوں کی شہادت پر اتنے سوگوار اور اتنی شدت سے غم کا شکار ہیں کہ بطور سوگ اپنا چہرہ بھی ڈھانپ رکھا ہے. شاید ان کو نہیں پتہ کہ بلوچوں کی شہادت کے بعد سے اب تک ان چند دنوں کے دوران وسیع و عریض بلوچ وطن میں ماؤں نے کتنے بہادروں کو جنم دیا ہے. جو بلوچ سرزمین کی حفاظت کے لیے لشکر کا حصہ بنیں گے. نوری نصیر خان نے یہ سنتے ہی دستار کا پلو چہرے سے ہٹا دیا اور کہا کہ جس قوم کے ماؤں کے یہ جزبات ہوں اُس کے سالار ء لشکر کو سوگ منانیکی کی قطعاً ضرورت نہیں۔

ایک وقت میں اپنے خان کو سوگ منانے سے منع کرنیوالی بلوچ خواتین آج ایک عوامی مزاحمتی تحریک کی قیادت کررہی ہیں. وہ مردوں کو حوصلہ دینے اور بچوں کو شجاعت و بہادری کی لوریاں سنانے کی بجائے خود عزم ہمت اور بہادری و شجاعت کی مثال بنتے ہوہے ہراول دستے کا کردار ادا کر رہی ہیں . بلوچ سماج میں مکمل صنفی تفریق نہیں اور نہ ہی بلوچ سماج تنگ نظر اور گُھٹن زدہ ہے اور یہ موجودہ دور میں نہیں ہوا کہ بلوچ سماج ارتقاہی منازل و مراحل طے کرتے ہوئے ہو اس حد تک سفر کر چکی ہے کہ بلوچ خواتین قیادت کررہی ہوں. بلکہ بلوچ تاریخ سے مستند طور ثابت شدہ حقائق ہیں کہ انیسویں صدی میں جب دنیا کے دیگر مختلف حصوں میں صنفی مساوات کی تحریکیں ابتدائی طور پر سر اُٹھا رہی تھیں اُس وقت اپنے اپنے خاندانوں میں بہادر و جری مرد مزاحمت کاروں کی موجودگی کے باوجود بلوچ خواتین گُل بی بی اور بیبو انھی مرد لشکروں کی قیادت اور کمان سنبھالے ہوئے تھیں اور میدان جنگ میں شجاعت کی تاریخ رقم کررہی تھیں۔

بلوچ سماج میں صنف نازک کا لفظ جس سے عورت کے کمزور ہونے کی نشاندہی ہوتی ہے یہ لفظ بھی کثرت میں مستعمل نہیں بلکہ شیرزال کا لفظ زیادہ استعمال میں ہے ہاں بلوچ سماج میں عورت کی ایک تقدس ہے اور عورت کے لئے تعظیم ہے جو اسے ایک برتر مقام دلاتی ہے. جس دن شال میں صبح بلوچ خواتین ریاستی بربریت و تشدد کا سامنا کر رہی ہوتی ہیں وہی خواتین سہہ پہر کو ہاتھوں پر پٹیاں باندھے ہزاروں بلوچوں کی قیادت میں موجود ہیں۔

موجودہ تحریک کی بلوچ خواتین قائدین کا تعلق بلوچ وطن کے مختلف علاقوں سے ہے وہ کسی ایک قبیلے ایک علاقے سے تعلق نہیں رکھتیں نہ ہی کسی ایک ہی تعلیمی ادارے سے تعلیم حاصل کرچکی ہوہی ہیں اس فرق کے باوجود وہ ایک وسیع عوامی تحریک کی رہنمائی کا کردار ادا کررہی ہیں. مظاہروں ریلیوں میں بلوچ خواتین کی شرکت بھی نسبتاً زیادہ ہوتی ہے اس سے مطلب اخز کی جا سکتی ہے کہ بلوچ سماج میں بحیثیت مجموعی وسعت و روشن خیالی و فراغ دلی اور زرخیزی ہے.خواتین قائدین پر بھاری ذمہ داریاں بنتی ہیں.ضبط، درد و الم، ذمہ داریوں کا بوجھ اُٹھائے سادہ بلوچ ماؤں کو سمجھانا کہ ریاست ظالم ہے قابض ہے، غیر فطری ہے ایک ایک پیچیدگی کو سادہ الفاظ میں سمجھانا اور تسلی دینا، آسان نہیں، خیر بلوچی کشیدہ کاری کے پیچیدہ اور جیومیٹریکل نقاشی میں مہارت رکھنے والی بلوچوں کے لیے یہ اتنی مشکل بھی نہیں ہوگی۔

شال میں ریلی کے شرکاء پر تشدد کے بعد مظاہرین جب ہزاروں کے اجتماع کی صورت میں دوبارہ ریڈ زون کی جانب بڑھ رہے تھے تو ریلی کی بنی ایک ویڈیو میں ایک پشتون کی آواز ابھرتی ” اوہ بلوسان راغلہ ” سنی جا سکتی ہے۔ بلوچ واپس آ رہے ہیں۔

اس دن بلوچ واپس آگئے تھے زخمی تھے لہولہان تھے مگر یکمشت یک طاقت ہو کر اسی مقام تک پہنچے. ہمیشہ واپس اسی مقام کیطرف للکارتے ہوہے آگے بڑھتے رہنے کی بلوچوں کی یہ ریت پرانی ہے. اسی جوش و جزبہ و اعتماد سے یہ راجی مُچی اپنے سیاسی اہداف کے حصول کیلئے گوادر کیطرف جاہیگی.گؤات ءِ در (گوادر) سے آنے والی انسانی آزادی کی خوشبوؤں سے مہمیز ہوائیں اس سرزمین کے باسیوں کو غلامی کے گھٹن سے نجات دلاہیں گے۔