تحریر : ملک عیسی خان رند
میں اپنے دوست کے ساتھ تھا اس نے کہا چلو تم کو شہر کی طرف لے جاتا ھوں ۔ صورتحال دیکھ لینا ۔ میں نے کہا رش ھوگا ٹریفک جام میں پھنس جائیں گے ۔ تو دوست نے کہا چلو تو سہی ۔ وہ گاڑی لے آیا اور مجھے دو لوگوں کی مدد سے گاڑی میں بٹھایا اور میرا ویل چیئر ڈکی میں رکھ دیا ۔ ھم سیٹلائٹ ٹاون اور ڈبل روڈ سے ھوتے شہرکی طرف روانہ ھوئے ۔ خالی شہر ۔سنسان سڑکیں اور ٹھپ کاروبار حکومت کے منہ پر ناکامی کا زوردار طمانچہ تھے ۔ ھاکی چوک پہنچے تو دیکھا کہ چوک کے چاروں اطراف میں کنٹینرز کھڑے ھیں ۔ پھر ھم واپس مڑ کر یونیورسل کمپلیکس والے طرف سے ڈی آفس والے روڈ پر مڑے ۔ سول ھسپتال کے بیک سائیڈ پر جو نئی چورنگی آفیسرز کلب کے پاس بنی ھے وھاں پر بھی مغرب کی جانب سول سیکرٹریٹ چوک المعروف ھاکی چوک کی طرف جانے والے سڑک پر دیو قامت کنٹینرز کھڑے تھے ۔ وھاں سے آگے بڑھے تو کمشنر آفس والا چوک جو کہ زرغون روڈ (ریڈ زون)کو جاتا ھے کنٹینرز سے بند کیا گیا تھا ۔ ڈرا آگے گئے تو لیاقت پارک کے ساتھ سیشن کورٹ والا سڑک کو بھی کنٹینرز لگا کر بند کیا گیا تھا ۔ اور یہ عمل پورے بلوچستان کے شاھراوں پر دھرایا گیا تھا ۔ میاں غنڈی ۔ تیرہ میل ۔ لکپاس ٹنل کو بھی 26 جولائی سے اسی طرح کنٹینر لگا کر بند کردیا گیا تھا ۔ حب سے گوادر کئ جانب شاھراہ بھی بند ۔ زیرو پوائنٹ بند۔ قلات میں مین آر سی ڈی روڈ بند ۔ نوشکی سلطان چڑھائی بند ۔ تربت گوادر شاھراہ تلار کے مقام پر بند ۔ راجی مچی جلسہ کو ناکام بنانے کے لیئے ھر حربہ استعمال کیا گیا ۔ مگر بلوچ قوم کو روک نہ سکے ۔ اتنی پابندیوں اور ظلم و بربریت کے باوجود بلوچ قوم کے حوصلے بلند تھے اور وہ پھر بھی لاکھوں کی تعداد میں گوادر پہنچ گئے تھے ۔ کیا ھوتا کہ ایک دن کا جلسہ کرنے دیا تھا ۔ اب تو گوادر کے ساتھ ساتھ تماام بلوچ علاقوں میں راجی مچی جلسہ منعقد کیا گیا ۔ کیونکہ جو لوگ گوادر نہیں پہنچ سکے انہوں اپنے علاقے میں راجی مچی جلسہ منعقد کیا ۔ اور یہی ڈاکٹر مہرنگ اور بلوچ یکجہتی کمیٹی کی کامیابی ھے ۔ ڈاکٹر مہرنگ کے ایک کال پر پورے بلوچ قوم نے بلوچستان کا مقدمہ اوراپنا امن و ترقی کا پیغام پوری دنیا تک پہنچایا ۔ ایف سی اور پولیس کے مظالم نے بھی ان کا کچھ نہیں بگاڑا ۔ کچھ بیگناہ بلوچ نوجوان براہ راست فائرنگ سے شھید بھی ھوئے کافی لوگ زخمی ھوگئے مگر بلوچ قوم کے حوصلے بلند رھے۔ ویسے بھی حالیہ تحریک بلوچ خواتین کے ھاتھوں میں آچکا ھے ۔ خواتین ھر اول دستے کا کردار ادا کر رھے ھے اوربلوچ نوجوان اپنی ماوں بنہوں کے شانہ بہ شانہ کھڑی ھے ۔ ڈاکٹر ماہرنگ گوادر میں تو کامریڈ بیبو بلوچ کوئٹہ میں راجی مچی جلسے کو لیڈ کر رھی ھے ۔ بلوچ راجی مچی جلسہ اصل میں بلوچ قوم کا ریفرنڈم تھا ۔ جسے روکنے کے لیئے حکومت نے ایڑی چوٹی کا زور لگایا مگر ناکام رھے ۔ گذشتہ 6 دن سے بلوچستان میدان جنگ بنا ھوا ھے ۔ اور حکومت اخلاقی طور پر یہ جنگ ھار چکا ھے اس لیئے تو بوکھلاہٹ کا شکار ھے ۔ جب اس کی ساری تدبیریں الٹی پڑگئی تو اب اوچھے ھتکنڈوں پر اتر آئی ھے ۔ ایک نہتی لڑکی ماہ رنگ بلوچ نے بلوچ قوم کو راجی مچی میں اکٹھا کرکے زئی اور قبائل پرستی سے نکال کر ایک قوم صرف بلوچ قوم بنایا ۔ بلوچ قوم کو سیاسی شعور دیا ۔ ان کے دلوں سے خوف کو دور کریا ۔ اب ھر بلوچ چاھے وہ طالبعلم ھو بوڑھا ھو عورت ھو نوجوان ھو بلا خوف خطر اپنے حقوق کی بات کر سکتا ھے ۔ ڈر ان کے دلوں سے ختم ھوچکا ھے ۔ یہی ڈاکٹرماہ رنگ اور بلوچ یکجہتی کمیٹی کی کامیابی ھے کہ قوم کو ایک کردیا ھے ۔ حکومت کی ناکامی یہ ھے کہ اب بلوچ قوماس سے متنفر ھے ۔ 28 مئی کو فارم 47 والوں نے سرینا چوک پر اپنے 20 سے 25 گن مینوں کے ساتھ یوم تکبیر منایا تھا ۔ اگر لوگوں کے دلوں میں ان کی محبت ھوتی تواپنے اپنے حلقہ انتخاب سے سو سے ایک سو پچاس لوگ جمع کرتے ۔ حکومت ان کا ھے پیسے اور سرکاری نوکری کا لالچ دیکر چند سولوگ جمع کرتے ۔ مگر عوام نے ان کی اصلیت کو پہچان لیا ھے ۔ ادھر قوم کادرد رکھنے والی ڈاکٹر ماہ رنگ کے ساتھ پوری بلوچ قوم بغیر کسی لالچ اور مطلب کے کھڑا ھے ۔ اس کے ایک کال پر پورا بلوچ قوم لبیک کہتا ھے ۔ یہی ماہ رنگ کی کامیابی اور جیت ھے ۔۔ یہ رکاوٹیں ۔ ظلم وبربریت اور کنٹینرز حکومت کی ناکامی اور شکست کا منہ بولتا ثبوت ھے ۔ جو سوشل میڈیا اور عالمی میڈیا کے توسط سے پوری دنیا نے بھی دیکھ لیا ھے ۔ بلوچ میں سیاسی شعور اب بیدار ھوچکا ھے ۔ اب نہ وہ ڈرےگا نہ جھکے گا اور نہ ھی بکے گا