جمعه, سپتمبر 20, 2024
HomeFBMآزادی پسندوں کے مابین اتحادی عمل کے خاتمے کا علان کرتے ہیں۔

آزادی پسندوں کے مابین اتحادی عمل کے خاتمے کا علان کرتے ہیں۔

لندن (ہمگام نیوز) فری بلوچستان موومنٹ کے ترجمان نے اپنے جاری کردہ بیان میں کہا ہے کہ اتحادی کمیٹی کو پندرہ دنوں کے اندر تحلیل کرنے کی اصولی فیصلے پر علمدرآمد کرتے ہوئے آج فری بلوچستان موومنٹ اپنی یکطرفہ اتحادی کوششوں کو ختم کرنے کا اعلان کرتی ہے۔

بیان میں مزید کہا گیا کہ کسی بھی اتحادی عمل محض ایک فریق کی کاوشوں سے کامیاب نہیں ہوسکتی تھی بلکہ ایسے پراسس کو کامیاب کرنے کے لیئے تمام فریقین کا اتحاد کے حوالے سے پرجوش ہونا لازم تھالیکن ہم نے یہی محسوس کیا ہے کہ گزشتہ دو سال دس مہینوں کی کوششوں و کاوشوں میں دوسری آزادی پسند فریقین اس معاملے پر اپنی گلو خلاصی ہی چاہتے رہے ہیں اور وقتاً فوقتاً کی جانے والی رابطوں کے بعد انہوں نے کبھی ایسا کوئی تاثر نہیں دیا کہ واقعی وہ اتحاد جیسی اہم قومی سیاسی عمل کے لیے پرجوش ہیں۔

ایف بی ایم کے ترجمان نے مزید کہا کہ ہم یہاں ان تمام متواتر رابطوں کی احوال بمعہ تاریخ بلوچ عوام کے سامنے رکھنا چاہتے ہیں تاکہ یہ بحیثیت سند بلوچ قوم کے سامنے موجود رہے کہ ہم نے اپنے تئیں آزادی پسند پارٹیوں کے مابین اتحادی عمل کو کامیاب کرنے کے لیئے کوئی بھی کوتاہی نہیں کی بلکہ ہمیشہ ہمارے ہی دوستوں نے پہل کرتے ہوئے اتحادی عمل کے لیے ہونے والی ممکنہ پیش رفت پر فریقین سے جستجو کی لیکن ہم سمجھتے ہیں کہ کسی بھی عمل کو کامیاب کرنے کے لیے ایک مقررہ مدت کا ہونا لازم ہے لیکن ہم اتحاد کے حوالے سے بلوچ قومی تحریک آجوئی میں اس عمل کو بہت ہی پائیدار سمجھتے ہیں لہذا ہم نے مقررہ وقت سے بھی زیادہ اس اتحادی عمل کو نہ صرف جاری رکھا بلکہ ہر وقت ہماری ہی دوستوں نے دوسرے آزاددی پسند پارٹیوں کے لوگوں کو پیغام بھیجا چونکہ انکی طرف سے کوئی حوصلہ افزاء جواب نہ ملا تو اب ہم سمجھتے ہیں کہ اس خاصی طویل اتحادی عمل کو مزید آگے کھینچنا وقت اور توانائیوں کے زیاں کے علاوہ کچھ بھی نہیں۔

لہذا فری بلوچستان موومنٹ اب پچھلے کابینہ فیصلے کی توسط سے دو ہفتوں کی دی گئی مقررہ وقت کے اختتام پر اپنی طرف سے قائم کی گئی اتحادی کمیٹی کو تحلیل کرتی ہے اور یہ بھی یاد رہے ان دو ہفتوں کے اندر بھی کسی آزادی پسند فریق کی جانب سے اتحاد کے بارے میں ہماری کمیٹی اراکین سے کسی قسم کا کوئی رابطہ نہیں کیا گیا جو کہ سرد مہری اور غیر سنجیدگی کی منہ بولتا ثبوت ہے۔

اس دورانیے میں وقوع پزیر ہونے والے تمامتر واقعات کو جتنا ممکن ہوسکے ہم بلوچ عوام اور آزادی پسند کارکنوں کے سامنے رکھنا چاہتے ہیں تاکہ کوئی ان حقائق کی سربمہر ہونے کی وجہ سے حقیقت حال کو توڑ مروڑ کر پیش نہ کرسکے۔

مندرجہ ذیل وہ تمام تاریخ وار رابطوں کی سلسلے کا احوال ہے جو اتحادی عمل کے لئے فری بلوچستان موومنٹ کی اتحادی کمیٹی کی طرف سے سرانجام دی گئیں جو اب بلوچ عوام کے سامنے رکھی جارہی ہے۔

فری بلوچستان موومنٹ کے کابینہ کے فیصلے کے بعد اکتوبر دوہزار اکیس کو شبیر بلوچ کی سربراہی میں چار رکنی کمیٹی تشکیل دیتے ہوئے انکو تمام آزادی پسند پارٹیوں سے گفت و شنید کا اختیار دے دیا گیا۔ اس ضمن میں اُسی سال تین نومبر کو شبیر بلوچ نے براہ راست اس وقت کے بلوچ نیشنل مومنٹ کے سربراہ خلیل بلوچ سے رابطہ کرکے باضابطہ طور پر فری بلوچستان موومنٹ کی طرف سے شروع کی ہوئی اتحادی کاوشوں کے حوالے سے اپنا پیغام پہنچایا جسکا مثبت انداز میں دیتے ہوئے کہا گیا کہ وہ اپنے پارٹی کے زمہ داران و متعلقہ لوگوں سے بات کرکے کوئی جواب دیں گے۔

اسی دوران پانچ نومبر کو اتحادی کمیٹی کے ممبر صادق رئیسانی نے بلوچ ریپبلکن پارٹی کے مرکزی ترجمان شیر محمد بگٹی سے رابطہ کرتے ہوئے اتحادی کوششوں کے بارے میں پارٹی کا پیغام پہنچایا، یہاں سے بھی مثبت انداز میں جواب دیتے ہوئے اپنی پارٹی ذمہ داران سے صلاح مشورہ کرنے کےبعد مزید بات چیت کا عندیہ دیا گیا ۔ بعدازاں سترہ دسمبر کو ایک پھر صادق رئیسانی نے شیر محمد بگٹی سے رابطہ کرتے ہوئے اتحادی مشاورت کے بارے میں انکی پارٹی کی نقطہ نظر جاننے کی کوشش کی جہاں شیرمحمد بگٹی کی طرف سے مزید وقت کا تقاضا کیا گیا۔

پھر اگلے سال یعنی دوہزار بائیس کے چھبیس جنوری کو ایک بار پھر شیر محمد بگٹی سے رابطہ کیا گیا جہاں انہوں صادق رئیسانی سے کہا کہ وہ جلد اتحادی عمل کے بارے اپنی پارٹی موقف کولےکر فری بلوچستان مومنٹ کے اتحادی کمیٹی سے ملاقات کریگا لیکن بلوچ نیشنل مومنٹ کی طرف سے ابھی تک کوئی جواب موصول نہیں ہورہا تھا۔

فروری کے بائیس تاریخ کو شبیر بلوچ نے ایک بار پھر بی این ایم کے سربراہ خلیل بلوچ سے رابطہ کیا جہاں انہوں نے فری بلوچستان موومنٹ سے مجوزہ اتحاد کا ڈرافٹ اور نکات کے بارے میں پوچھا اور کہا کہ فری بلوچستان موومنٹ اپنی مجوزہ اتحادی منصوبے کی نکات ہمیں مہیا کرے۔

اسکے بعد فروری کی اٹھائیس تاریخ کو ایک پھر صادق رئیسانی نے شیر محمد بگٹی سے رابطہ کیا جہاں انہوں نے ایف بی ایم کی اتحادی کمیٹی سے جلد ملاقات کا وعدہ کیا اور اسکے بعد انہوں نےانیس مارچ کو فری بلوچستان مومنٹ کی اتحادی کمیٹی کے ارکان کو نیو کاسل میں مدعو کیا جہاں انہوں نے پہلی بار اتحادی عمل کے بارے میں گفت و شنید کی جس میں بلوچ ریپبلکن پارٹی کے ترجمان کی جانب سے بہت سارےخدشات کا اظہار کیا گیا جس پر فری بلوچستان مومنٹ کے اتحادی کمیٹی کے اراکین نے زور دیا کہ ان تمام مسائل کا حل آزادی پسند پارٹیوں کے مابین ایک باضابطہ اور اصولی اتحاد میں پنہاں ے اسکے لئیے ہم سب کو چاہیے کہ ہم اپنے باہمی روابط کو جاری رکھیں۔

ایف بی ایم کے ترجمان نے مزید کہا گیا کہ ہماری پارٹی کی طرف سے اتحاد کے بارے رابطوں کا سلسلہ اسکے بعد بھی جاری رہا جہاں بی آر پی اراکین اور ایف بی ایم کے اتحادی کمیٹی کے لوگوں نے دوسری بار ملاقات کی جس میں مشترکہ طور پر احتجاج کرنے اور مسنگ پرسنز کے مسئلے پر اتفاق کیا گیا لیکن اس باہمی اشتراک کار کے وعدے کو بلوچ شہداء ڈے یعنی تیرہ نومبر اور پاکستانی قبضے کے دن یعنی ستائیس مارچ کے حوالے سے مشروط کیا گیا اور کہا گیا کہ ان دنوں کے بارے میں بی آر پی باہمی مشاورت کے بعد کوئی رائے دے سکتی ہے۔

اسی طرح اس دوران خبر آئی کہ بلوچ نیشنل موومنٹ کی کونسل سیشن کا انعقاد کیا گیا ہے جہاں ڈاکٹر نسیم بلوچ کو بطور پارٹی چئیرمین منتخب کیا گیا ہے۔چھ جون کو صادق رئیسانی نے بی این ایم کے نئے سربراہ ڈاکٹر نسیم بلوچ سے رابطہ کیا جہاں انکو بتایا گیا کہ وہ جلد ان سے دوبارہ رابطہ کریں گے لیکن بہت دنوں کے بعد جب ڈاکٹر نسیم کی طرف سے دوبارہ رابطہ نہیں کیا گیا تو ایک بار پھر چبھیس جون کو شبیر بلوچ نے ڈاکٹر نسیم سے رابطہ کیا جہاں نسیم بلوچ نے کہا کہ اتحاد کے لئے سب سے پہلے ایک ایسا ماحول بنایا جانا لازمی ہے جہاں یہ بات یقینی بنائی جائے کہ فری بلوچستان مومنٹ کے ممبران و ذمہ داران بی این ایم کے خلاف تنقیدی رویوں اور تشہیری مواد سے اجتناب برتیں گے اسکے جواب میں انکو فری بلوچستان موومنٹ کے اتحادی کمیٹی کی طرف سے یقین دلایا گیا کہ وہ اتحادی عمل کی کامیابی کےلئیے تنقید سے گریز کریں گے۔

اسی طرح یہ وقت گزاری اور سیاسی حجتیں جاری رہیں اور قریباً ایک ماہ بعد یعنی جولائی کی انیس تاریخ کو ایک بار پھر بی این ایم کے سربراہ نسیم بلوچ سے رابطہ کیا گیا جہاں انہوں نے کہا کہ وہ جلد اپنی سنٹرل کمیٹی اراکین کی اس بارے میں رائےجان کر آپ لوگوں سےرابطہ کریں گے لیکن یہاں پر بھی وہ وعدہ وفا نہ کرسکے اور پہلے کی طرح ایک بار پھر اتحادی کمیٹی کےسربراہ شبیر بلوچ کو ڈاکٹر نسیم سے رابطہ کرنا پڑا اکیس اگست کو رابطہ کرنے پر ڈاکٹر نسیم نے شبیر بلوچ سے کہا کہ ہم نے اس معاملے کو اپنی کیبنٹ اور اتحادیوں کے سامنے رکھا ہے اور ہم ایک باضابطہ گفت و شنید کے لیے ایک نشست کا اہتمام کریں گے۔

جب بی این ایم کی طرف سے خاموشی طوالت اختیار کر گئی تو شبیر بلوچ نے ایک بار پھر چھہ جنوری دوہزار تئیس کو ڈاکٹر نسیم سے رابطہ کیا تو اس بار شبیر بلوچ کو بتایا گیا کہ انکی پارٹی اتحادی عمل کو آگے بڑھانے پر تیار ہے اور اس ضمن میں ایک اتحادی کمیٹی تشکیل دی گئی ہے جو فری بلوچستان مومنٹ سے اتحاد کے بارے اپنی مسودہ تیار کرے گی لیکن اس بار بھی کچھ دنوں کی مزید مہلت مانگی گئی۔

اسکے بعد چوبیس اپریل کو بلوچ نیشنل موومنٹ کی جانب سے ایک مسودہ فری بلوچستان مومنٹ کے اتحادی کمیٹی کو دیا گیا جو کہ تین زبانوں بلوچی انگریزی اور اردو پر مشتمل تھی اور اسی کے ساتھ بی این ایم کی طرف سے عوامی سطح پر ایک بیان بھی دیا گیا تھا جس میں اتحاد کے حوالے سے مجوزہ مسودے کا ذکر تو بہرحال موجود تھا لیکن فری بلوچستان موومنٹ کی طرف سے دوہزار اکیس سے شروع کی ہوئی اتحادی کاوشوں کی تسلسل کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے ہوئے تاثر دیا گیا کہ یہ پہلی بار ہے کہ آزادی پسند فریقین کے مابین کوئی اتحادی عمل شروع کی جاچکی ہے۔

لیکن فری بلوچستان مومنٹ نے بلوچ قومی تحریک کے وسیع تر مفاد میں اسکا مثبت جواب دیتے ہوئے دس اکتوبر کو بی این ایم کے مسودے کا مفصل اور جامع جواب تیار کرکے اس امید پر بھیجی کہ شاید اب غیر سنجیدگی اور طوالت کی برف پگھل چکی ہے اور ہم ایک باضابطہ اور اصولی اتحادی عمل کی جانب گامزن ہوسکیں گے ۔یاد رہے کہ فری بلوچستان موومنٹ کے اتحادی مسودہ بھیجنے کے ساتھ یہ بھی التجا کی گئی تھی کہ تیس سے چالیس دنوں کے اندر اندر اسکا جواب دیا جائے تاکہ اتحادی عمل اب مزید اور غیر ضروری طوالت کا شکار نہ ہو لیکن سرد مہری اور ٹال مٹول کے رویے شروعاتی دنوں کی طرح اب بھی جاری تھے۔

اسکے بعد فری بلوچستان موومنٹ کے مرکزی کیبنٹ نے یہ فیصلہ کیا کہ اتحادی عمل خاصی طوالت اختیار کرچکی ہے اور فریقین کی جانب سے اس معاملے میں سنجیدگی اور دلچسپی کا مظاہرہ نہیں کیا جارہا ہے سو فیصلہ کیا گیا کہ اب وقت آگیا ہے کہ فی الحال موجودہ شروع کی گئی اتحادی عمل سے نکلا جائے لیکن فری بلوچستان موومنٹ کے کابینہ نے متفقہ طور پر فیصلہ کیا کہ اس سے پہلے فریقین کو ایک بار پھر اتحادی عمل کو آگے بڑھانے کے لئے ایک آخری کوشش کی جائے اور اس ضمن میں ایک بار پھر بی این ایم کو مئی دوہزار ہزار چوبیس کو اتحادی کمیٹی کی طرف سےایک مراسلہ بھیجا گیا جس میں دس دن کے اندر اس مراسلے کا جواب دینے کی استدعا کی گئی لیکن ماضی کی طرح یہ بھی سرد مہری کی نذر ہوگئی اور وہاں سے کوئی جواب نہیں دیا گیا۔

لہذا اب کوئی ایسی امید نظر نہیں آتی کہ فریقین دوہزار اکیس میں شروع کی ہوئی اس اتحادی عمل کے حوالے سے سنجیدہ ہیں اسی لیے فری بلوچستان موومنٹ اس تمام صورتحال کو بلوچ قوم کے سامنے رکھ رہی ہے تاکہ وہ حقائق سے آگاہ ہوسکے۔

یہ بھی پڑھیں

فیچرز