جب بھی کوئی قابض کسی مظلوم کی سرزمین پر قبضہ کرتا ہے تو اپنے قبضہ کی بنیاد اور اسے برقرار رکھنے کے لئے تشدد کا سہارا لیتا ہے۔مظلوم چونکہ کمزور ہوتا ہے اسی لئے اس کی کمزوری کا فائد ہ اٹھاتے ہوئے قابض قبضہ جماتا ہے ۔ قبضہ کیلئے تشدد کو استعمال کرنے کے ساتھ ساتھ قابض مذہب ،جمہوریت،نظریات،ترقی،امن،انسانی حقوق اور دیگر کا سہارا لیتا ہے تاکہ قبضہ کو برقرار رکھنے کے لئے موثر جواز ملے۔

قابض کے قبضہ کو مقامی باشندے جب قریب سے دیکھتے ہیں تو ان کو ہر سمت میں استحصال اور ظلم نظر آتا ہے۔انہیں یہ نظر آتا ہے کہ روزانہ کی بنیاد پر ان کی قومی بقا اور وجود کالونائزر کے ہاتھوں ختم ہوتے ہوئے آخری سسکیاں لے رہی ہوتی ہے،ان کی زبان ،تاریخ،تقافت اور اقدار ظالم کے ہاتھوں بری طرح پامال ہوتے ہوئے نظر آتی ہے ۔مقامی باشندے مزید یہ برے دن بھی دیکھتے ہیں کہ قابض شروع میں مہربان کی شکل میں آئی تھی مگر اب ان کے معاشی ،سیاسی اور ذہنی پسماندگی کا نشان بن رہی ہیں۔

جب مقامی باشندوں اپنی غلامی کا احساس ہوتا ہے تو وہ قابض کے قبضہ کے خاتمے کے لئے گوریلا جنگ کا انتخاب کرتے ہیں جو مظلوموں کے لئے انتہائی موثر آپشن ہوتا ہے۔وہ اپنے قوم کے اندر اس ڈسکشن کو شروع کرتے ہیں کہ قابض نے تشدد کے ذریعے ہم پر قبضہ کیا ہے تو اب صرف تشدد ہی سے اسے واپس بھیج سکتے ہیں جو تشدد الجزائر نے فرانسیسی قبضہ کے خلاف استعمال کی تھی اور کیوبا ،ویت نام نے امریکی تسلط کی خلافِ بروے کار لایا تھا۔

مگر جب مقامی باشندے قومی آزادی کے بات کرتے ہیں تو اس وقت تک قابض نے اپنے مشینری کے ذریعے ان کو ذہنی حوالے سے مفلوج کی ہو گی ۔فرانز فینن نے درست فرمایا تھا کہ قابض نہ صرف مظلوم کی سرزمین پر قبضہ کرتا ہے بلکہ ان کے ذہین کو بھی قبضہ میں لے کر انہیں بری طرح زنگ آلود کرتا ہے تاکہ وہ قومی غلامی کے خلاف آواز اٹھانے کے قابل نہ رہے۔قابض ان اندر ہی سے ایجنٹس پیدا کر کے اپنے قبضہ کو فائد ہ مند دکھانے کی کوشش کرتا ہے کہ قابض ہی کہ بدولت ہمیں مذہب ،ایمان ،امن اور پہچان مل رہی ہے نہ تو ہم غلام قوم کب کے اس دنیا کے صفہ ہستی سے مٹ چکے ہوتے،اور ہم کمزور ہیں اور کسی جنگ کو جیت نہیں سکتے۔

مقامی باشندے انقلابی کالونائزر کے اثرات سے بچ نہیں سکتے جو غلامی کو ختم کرنے کے لئے اپنے جان دینے کے لئے تیار تو ہوتے ہیں مگر اس قابض کی دیے ہوئے سوچ سے خود چھٹکارا حاصل کرنے کے لئے تیار نہیں کرتے جہاں وہ اپنے اندر نفرت ،انا،اسٹٹسکو کو ایک حد تک ساتھ لئے ہوتے آگے بڑھتے ہیں جو ان کو قومی جہد کو آگے لے جانے میں ایک ریکاوٹ بھی بن سکتی ہے۔

اس دوران جب چند باشعور مقامی افراد گوریلا جنگ کے لئے افرادی قوت کی ضرورت محسوس کرتے ہیں تو ان کی جنگ کا دارومدار تنظیم سازی اور بھرتی پر ہوتی ہے ۔تنظم سازی جتنی مضبوط ہوگی تو قابض کو اتنا ہی جلدی بھاگنا پڑے گا ۔کالونائز ر کے اب اثرات عام لوگوں سے لے کر کامریڈز کے مرکزی صفوں تک ایک حد تک ضرور پہنچی ہو گی جو خالص انقلابی اصولوں کو اپنے میں ہچکچاہٹ کا شکار ہوتے ہیں ۔

جب مقامی باشندے تنظیم سازی کے دوران بھرتی پر کام کرتے ہیں تو وہ ان نوجوانوں سے رابطے کرتے ہیں جو شہری ہوتے ہیں اور شہر میں دوکانداری ،روزگار اور روزانہ اجرت سے وابستہ ہوتے ہیں ۔ جو قومی غلامی کو محسوس کرنے سے تھوڑا دور ہوتے ہیں کیونکہ ان کو قابض کی طرف سے کچھ شہری سہولیات دے کر آرام پسند بنایا گیا ہو گا ۔یہ قومی آزادی کے تحریک میں شمولیت سے کتراتے ہیں کیونکہ ان کو خوف ہوتا ہے کہ جب وہ دشمن کے نظر میں آ جاتے ہیں تو ان کی دکانداری بند ہو سکتی ہے اور دشمن سے بچنے کے لئے بازار اور مارکیٹ میں جا نہیں سکتے ۔اور یہی صورت حال ملازم طبقے کے ساتھ بھی ہوتا ہے جب وہ یوں یونیورسٹی اور کالج میں ہوتے ہیں تو ان کے مجالس میں ڈاکٹر چے گویرا ہی واحد راستہ ہوتا ہے اور وہ قومی آزادی کی تحریک میں باقاعدگی سے شامل ہوتے ہیں مگر جب وہ قابض کی سرکاری نوکری میں داخل ہوتے تو وہ راہ فرار اختیار کرنے کے لئے ہزار بہانے ڈھونڈتے ہیں اور پھراتنا کرپٹ ہوتے ہیں کہ وہ پانی کی جگہ الکوحل پیتے ہیں اور ہر رات وہ عیش اور عشرت کے مواقع ڈھونڈتے ہیں ۔وہی زمانہ طالب علمی کے کامریڈز سرکاری نوکری کو اس لئے جوائن کرنے کے جواز پیش کرتے ہیں کہ وہ سرکاری تنخواہوں کو مالی وسائل کے طور پر ہاتھ میں لے کر قومی تحریک اور شہدا کے خاندانوں کو مدد فراہم کریں گے مگر بعد میں اتنے زنگ آلود ہوتے ہیں کہ وہ انہیں پیسوں سے غریب باشندوں کو دبانے،نشہ، اور عیاشی میں اڑانے پر ذرا سی بھی شرمندگی محسوس نہیں کرتے ۔یہی کامریڈز پھر قوم کے نام لینے سے بھی کتراتے ہیں کہ انہیں شوکاز نوٹس،ڈی موش کا سامنا نہ ہو اور ایسا نہ ہو قابض کے بیڈ بک میں ہو کر سرکاری مراعات سے رہ نہ جائیں۔

اس کے علاوہ شہری آبادی کے نوجوان ریاستی پروپیگنڈہ کا شکار بھی ہو سکتے ہیںجو ہر وقت ریاستی میڈیا اور پروپیگنڈہ سے نزدیک ہوتے ہیں جہاں ریاست ان کو باور کرانے کی آخری کوشش کرتا ہے کہ آپ لوگوں کو روزگار دے کر غربت کا خاتمہ ہو گا تو وہ اسی سہارے میں رہ کر قومی آزادی کی تحریک میں وابستگی سے کتراتے ہیں ۔ اس کے ساتھ ساتھ قابض کی طرف سے شہری باشندوں کو انفرادیت اور کلاس جدوجہد میں مائل کر کے انہیں قومی آزادی کی جدوجہد سے دل برداشتہ کرتی ہے۔

قابض شہری آبادی میں اپنے پوری طاقت کے ساتھ موجود ہو کر ایک سرویلنس اور خوف کا ماحول پیدا کرتا ہے جہاں مقامی باشندے ہر وقت اس کے جاسوسی نیٹ ورک اور کیمروں کے نظر میں ہوتے ہیں جو انہیں قومی آزادی کی تحریک سے دور کرتے ہیں ۔

مقامی باشندوں کی آبادی اکثر شہر کے بجائے دور دراز کے گاؤں میں مشتمل ہوتی ہے اور شہری آبادی بہت کم ہوتی ہے جہاں تنظیم سازی کے سامنے مشکالات ہوتے ہیں۔اس کے برعکس مقامی باشندے جو دیہات میں رہتے ہیں اور اکثریت آبادی پر مشتمل ہوتے ہیں وہ قابض کی قبضہ اور قومی غلامی کو بہت قریب سے جانچ کر محسوس کرتے ہیں ۔انہیں زندگی کی کوئی بھی بنیادی سہولیات نہیں مل سکتی ،بجلی ،پانی ،صحت،انفراسٹرکچر اور تعلیم جیسے بنیادی ضروریات دور دور تک نظر نہیں آ سکتے ۔وہ اس حد زندگی سے محروم ہیں کہ انہیں احساس نہیں ہوتا کہ زندگی ہے کیا۔

ان مقامی باشندوں کو فرانز فینن لمن پرولیڑریٹ کے لقب سے پکارتا ہے جو زندگی میں کوئی بھی اثاثہ نہیں رکھتے اور انہیں فینن خام مال بھی کہتا ہے جو کسی بھی تحریک کے حصے بننے کے لئے تیار ہیں کیونکہ ان کو کسی بھی چیز کھونے کا ڈر نہیں ہوتا کیونکہ ان کے پاس کوئی چیز ہے ہی نہیں جو پتھر کے زمانے میں رہتے ہیں ۔اگر مقامی باشندے ان کو اپنے تنظیم میں شامل نہیں کرتا تو قابض ان کو اپنے صفوں میں شامل کر کے انہیں کچھ مالی مفادات دے کر مقبوضہ لوگوں کے خلاف ہی استعمال کر سکتا ہے۔

فینن کہتا ہے کہ مقامی باشندوں کو اگر اپنی تحریک کو منتقی انجام تک لے جانا ہے تو انہیں اپنے تنظیم میں شہری نوجوانوں کی بجائے دیہات کے نوجوان بھرتی کرنا چاہیے پھر یہ جنگ وہ جیت سکتے ہیں ۔دیہات کے نوجوان سرکاری روزگار نہیں رکھتے ،سرکاری ایجنٹس اور پروپیگنڈہ سے ذرا فاصلے پر ہوتے ہیں اور جب وہ تحریک کے حصے بنتے ہیں تو انہیں کوئی ایسا مجبوری بھی نہیں ہوتا کہ قابض انہیں بلیک میل کر کے قومی آزادی کی تحریک سے علیحدہ رکھ سکے۔

مگر فینن یہاں پر مقامی باشندوں کے قومی شعور پر ترس کھا کر کہتا ہے گوریلا تنظیم کی مرکزی سطح کے کیڈر بھی قابض کے زیر اثر ہو کر متاثر ہے جہاں وہ غریب مقامی باشندوں سے نزدیکی سے کترا کر انہیں تنظیم میں شامل کرنے کے مواقع ہاتھ سے کھو رہا ہوگا اور ان باشندوں سے نزدیکی کو اپنے شان کے خلاف سمجھتے جن کو پہنے کے لئے کپڑے اور جوتے نہیں ہوتے اور وقت پر بال اور شیوو کر نے کے لئے پیسے بھی نہیں ہوتے ۔اور کیڈر کا زیادہ تر توجہ ان نوجوانوں پر ہوتا ہے جو کالج ،دفاتر،مارکیٹ اور پلے گرائونڈز میں ہوتے ہیں جو قابض کے سخت حالات اور بلیک میلنگ کے سامنے مجبور ہو کر قومی آزادی کی تحریک سے اپنی وابستگی کو دائمی طور پر برقرار نہیں رکھ سکتے جس سے قومی تحریک بھی سست روی کا شکار ہو سکتی ہے۔

اس کے برعکس کیڈر کو قابض کے دیے ہوئے نفسیات سے نکل کر تنظیم سازی کے لئے موجود خام مال کا انتخاب کرے پھر تحریک بہترین نتائج کے ساتھ اپنے کامیاب منزل پر پہنچ کر شہیدوں اور قوم کے ارمان پورا کر سکتی ہے۔