یکشنبه, اکتوبر 6, 2024
Homeآرٹیکلزایرانی “ کپورے “ اٹھاتے یارباش، اورانکی نا عاقبت اندیشیاں۔ تحریر: رزاک...

ایرانی “ کپورے “ اٹھاتے یارباش، اورانکی نا عاقبت اندیشیاں۔ تحریر: رزاک بلوچ

بلوچی میں کہتے ہیں کہ
“ کسے کہ آپ ءَ کپت گڈا پرآئی ہرچی روا انت”
لیکن سب پہلے یہ واضح رہے کہ لفظ “ بے آپ “ بلوچی زبان کی علاقائی بولیوں کے استعمال کے باوصف کوئی گالی نہیں، ہاں ایک لعن طعن، ایک تشنیع ہے اور کسی کو انکی حقیقت دکھانے کے لیے ایک سخت بولی ضرور ہے، یعنی کسی کو بار بار ایک کام سے منع کیا جائے اور وہ پھر اسی کام کو کرنا شروع کرے، تو کہا جاتا ہے کہ
“ تو سکیں بے آپییے “
ویسے اگر کوئی کسی کو مارے، بے عزت اور کم شرپ کرے لیکن وہ بندہ پھر بھی اس کے دروازے پر دو زانوں ہوکر بیٹھ جائے اور دستِ طلب دراز کرے تو اسے بھی یہی کہا جاتا ہے۔
ایرانی قابض ریاست بلوچ قومی نسل کشی میں ملوث ہے، بلوچ سرزمین پر قابض ہے، بلوچی زبان و چاگردی راہ و رسموں کو بگاڑنے اور ختم کرنے کے درپے ہے، ایرانی ریاستی کارندے بلوچ عورتوں کی عصمت دری کو اپنے لئے ایک حق سمجھتے ہیں اور روزانہ کی بنیادوں پر وہاں لوگ محض اس بنیاد پر مارے جاتے ہیں کہ وہ سیاسی و سماجی و معاشی حقوق کے مطالبے کے لیے سرگرم ہیں اور ایسے میں کوئی بھی بلوچ ایرانی قابض ریاستی بندوبست کے اندر بلوچ قومی اجتماعی فلاح و نجات کا متلاشی ہو تو ہم اسکو یقینا “ بے آپ “ کہہ سکتے ہیں۔

بہت پہلے کی بات ہے میں نے اپنے ایک سوشل میڈیا اکاؤنٹ میں لفظ “ بے آپ “ استعمال کیا تھا تو فوراً کسی نے اسکی مطلب جاننے کی استدعا کی تو مجھے اور کچھ نہیں سوجھا تو میں نے کہا کہ “ بے آپ “ کا مطلب ہے
Morally Dehydrated “
اب یار باشوں کی بھی ایران کو لے کر بے تکی اور بے ہنگم حمایت بازی اخلاقی بے آپی کی دائرئے میں پرویش کرچکی ہے، جہاں وہ سب کچھ چھوڑ کر ایران سے دوستی کی پینگیں محض اس لیے بڑھا رہے ہیںکہ گروہی حوالے انکی وجود یقینی بنے لیکن ایرانی مقبوضہ بلوچستان کے اندر جہد کاروں کی دن دھاڑے شہادت ہائی پروفائل کرداروں کی مبینہ و پراسرار گمشدگی ایران دوست بیانیے پر از خود سوال کھڑا کرنے کے لیے کافی ہے۔

ایرانی ریاستی فوج کے ہاتھوں بلوچ مارا جارہا ہے اور تم ایرانی فوج کی حمایت میں لگے ہوئے ہو،
ماھو بلوچ کی عصمت دری ہوجاتی ہے اور تم چپ ہوجاتے ہو،
زاھدان میں بلوچ مارے جاتے ہیں تمہارے ہاں صُمٌّ بُكْمٌ عُمْيٌ فَهُمْ لَا يَرْجِعُونَ والی رویہ سامنے آجاتی ہے،
اسرائیل ایران کی جنگ میں تم ایرانی کرایہ دار علاقائی ملیشیا کی حمایت میں بات کرتے ہو،
کوئی اپنی لولی لنگڑی انگلش میں انٹرنیشنل فورم پر بیٹھ کر کہہ دیتا ہے کہ اسے ایران سے کوئی مسئلہ نہیں،
تو اب سوال یہ ہے کہ
پاکستانی مقبوضہ بلوچستان میں شفیق مینگل کی حیثیت، کردار اور جرائم اور ایرانی بلوچستان میں تمہاری ایرانی ظلم و جبر کی حمایت میں کیا فرق رہ جاتی ہے؟

اگر تم ادھر پاکستانی مقبوضہ بلوچستان کے اندر کہتے ہو کہ پاکستان ہماری اجتماعی قبریں کھود کر ہمارے سینکڑوں بلوچ فرزندوں کو ان قبروں میں دفناتا ہے اور ہمیں غلام بنایا ہوا ہے اسی لئے ہم پاکستان کے خلاف جد و جہد کر رہے ہیں اور شفیق مینگل جملہ ریاستی دلالوں سمیت بلوچ قوم دوست قوتوں کے سامنے دشمن کا سنگھی ساتھی ہے لہذا شفیق مینگل دشمن کا بی ٹیم ہے۔

دوسری طرف ایک مقبوضہ بلوچستان ایران کے زیر دست ہے جسے عرف عام میں مغربی بلوچستان کہا جاتا ہے وہاں روزانہ کی بنیاد پر بلوچ عوامی نسل کشی کی وارداتوں کے علاوہ، بے گناہ بلوچوں کی ریاستی جبر کے تحت پھانسیوں سمیت بلوچ عورتوں کی ماھو بلوچ کی شکل میں عصمت درری سمیت اس عصمت دری کے واقعے پر احتجاج کرنے کی پاداش میں براہ راست گولیاں برسا کر زاھدان کے اندر ایک سو تیس سے زائد فرزاندان وطن کی شہادت کے باوجود تم اور تمہارے ہرخارے سیاسی کارکن ایران و اسرائیل چپقلش میں ایران کی حمایت کررہے ہیں، کوئی زاھدان کی شہداء کو پاؤں تلے روند کر لبنان میں مارے گئے حسن نصراللہ کو اعلیٰ مزاحمتی رہنما بتلا رہا ہے تو کوئی ایرانی میزائل حملے کو سراہ رہا ہے۔

مجھے بس یہ سمجھنا ہے اگر ایرانی بلوچستان کے اندر بر سرِ پیکار مزاحمتی گروہ بھلے وہ تمھاری ذہنیت کے حساب سے ملا اور مذہبی ہوں وہ اگر اس بات کو لے کر کہ تم ایرانی ریاستی جبر کے باوجود اسکی حمایتی ہو اور اسکی جئے جئے کار میں لگے ہوئے ہو، کل کو ملاقاسم، شفیق مینگل، لطیف نوتیزئی، خدارحم عیسیٰ زئی، میار نوری، بجار شمبے زئی، سرفراز بگٹی اور دیگر کی طرح وہ ایرانی مقبوضہ بلوچستان کے اندر تمہیں بلوچ قوم کے خلاف ایرانی ریاستی جبر کا سنگھی ساتھی سمجھ کر ایسے نشانہ بنائیں جیسے کہ مشرقی یعنی پاکستان مقبوضہ بلوچستان کے اندر تم ان ریاستی ایجنٹوں کو نشانہ بنا رہے تو ہم کس کو میار بار ٹھرائیں؟

نسلی اعتبار سے تو شفیق مینگل بھی بلوچ ہے مگر پاکستان کے حمایتی ہے۔
راشد پھٹان اور بجار شمبے زئی، ملاقاسم کمبر خان، ذکریامحمد حسنی و دیگر بھی بلوچ ہیں لیکن وہ ہیں پاکستانی ریاست کے دلال اور کاسہ لیس۔
اور مغربی بلوچستان کے حساب سے تم بھی بلوچ ہو مگر مجبوریوں کے اعتبار سے یا بدقسمتی سے بلوچ قوم کے خلاف ایرانی ریاستی بدکرداریوں اور جرائم کے ساتھی اور حمایتی تم بھی ہو۔
بس تم سے یہی کہوں گا یا یہی پوچھوں گا کہ
تم نے کل بجار شمبے زئی، راشد پٹھان، ملا قاسم، شفیق مینگل اور سرفراز بگٹی پر کوئی حملہ کیا تو ہم تم کو واہ واہ کریں شاباشی دیں کیونکہ وہ پاکستانی ریاست کی حمایتی ہیں اور اسکے ساتھ جڑے ہیں، لیکن ایران کے اندر ایرانی مقبوضہ بلوچستان میں کل کو کسی مزاحمتی گروہ نے ایرانی حمایت یافتہ ملیشیا، اور ایرانی فوج کے ساتھ راز و نیاز رکھنے والے کسی گروہ کو نشانہ بنا کر حملہ کیا تو ہم تم کو راشد پٹھان، شفیق مینگل، بجو شمبے زئی، کھیتران و جملہ دیگر ریاستی بندوق برداروں کی نظر سے دیکھیں یا انقلابی کی نظر سے دیکھیں؟۔

اگر اخلاقی جرات ہے تو اس سنجیدہ مسئلے کو لے کر ایک بحث کا آغاز کریں اور بلوچ قوم کو بتا دیں کہ تم خود کو کہاں اور کیسے دیکھنا چاہتے ہو؟
یعنی وہ اب اخلاقی اعتبار سے “ بے آپ “ بن گئے ہیں، ایرانی قابض ریاست بلوچوں کے ساتھ جبر کی جو بھی رویہ اپنائے انقلابی “ یارباش “ اس پر اف تک بھی نہ کریں کیونکہ یارباشوں نے اپنی سیاسی، قومی اور بلوچ قومی بنیادی نظرئیے ہی کو سرینڈر کردیا ہے، ایرانی قابض ریاست اب بلوچ بہنوں کے عزت کو تار تار کرے، دامن ناپاک کرے، ان سے دست درازی کرے یہ سبھی مسئلے یارباشوں کے مسئلے نہیں کیونکہ انکو تو صرف ریاست قلات ہی چاہئیے، بے وقوفی اور بد نیتی کی منظر یہ کہ ریاست قلات کو چاہتے یہ لوگ خان قلات کی منصبب و حیثیت کو بھی نہیں مانتے یعنی ان یار باشوں کے ہاں بلوچ انقلابی تحریک بس تاش کا ایک جوا ہے جو پتہ مجھے چاہئے وہ مجھے ملے تو میں جوا جیت لوں، بس۔۔۔

کل کو بلوچ راجی آجوئی جنز اپنی منطقی انجام تک پہنچ جائیگی جس کا مجھے بحیثیت بلوچ فرزند یقین ہے کہ بلوچ ایرانی و پاکستانی قبضے سے اپنے آپ کو چھڑا کر ایک آزاد اور متحد بلوچ ریاست کی داغ بیل ضرور ڈال دیں گے۔لیکن انٹرنیشنل ریلشنز کی تعلیمی نصاب، پولیٹیکل سائنسی کتابوں سمیت بہت سارے دیگر تاریخی نصابوں میں “ پروکسی یعنی اپنی مفادات کے لئے کرایہ دار بن جانے” کے علاوہ ایک اور اصطلاح کا اضافہ ہوجائے گا، عالمی میڈیا کہتی ہے کہ شامی ریاست میں ایرانی پراکسیز ہیں جو اپنی مفادات کے لئے مل کر کام کرتے ہیں، لبنان میں لڑنے والے تمام شیعہ فورسز ایرانی پراکسیز ہیں حتیٰ کہ سنی مکتبہ فکر سے تعلق رکھنے والے فلسطینی جنگجو گروپ حماس پر بھی یہی الزام ہے کہ وہ اب ایرانی مفادات کو لے کر اسرائیلی ریاست کو نشانہ بناتی ہے۔

یمن کے حوثی جنگجوؤں کے ساتھ بھی یہی معاملہ ہے، اور ماضی کے سی آئی اے کے جنگ میں عرب ریاستوں کی امریکی ایجنسی سے ملکر افغانستان میں لڑی جانے والی جنگ میں پاکستانی بھتہ خور یعنی پٹرو-ڈالرز کے عوض لڑنے والوں کو پراکسی مذہبی جنگ کا نام دیا گیا۔

یہاں تک تو بات کلئیر ہے سب دوسروں کی مدد لے کے کر اپنے نظریاتی و قومی دشمنوں سے لڑے ہیں مگر چونکہ مفادات اوروں کے تھے تو سب پراکسیز کہلائے۔لیکن میں سوچتا ہوں کہ “ یارباشوں کی ایران کا بلوچستان کے مغربی حصے پر قابض ہونے اور بلوچ قومی نسل کشی میں برابر کے شریک ہونے کے باوجود“ ایران سے مدد مانگنے والی سیاسی حکمت عملی کو انٹرنیشنل ریلیشنز کی کتابوں میں اور سیاسیات کی تعلیمی نصاب میں کیا نام دیا جائے گا اور کونسی اصطلاح استعمال کی جائے گی۔

کسی کا پروکسی بن جانا سمجھ میں آنے والی بات ہے لیکن اپنے ہی قومی دشمن کا بندوق بردار بن جانا؟؟؟
“ کوئی بتلائے کہ ہم بتلائیں کیا “۔

یہ بھی پڑھیں

فیچرز