نیویارک میں ستمبر کی 27 تاریخ کو ایرانی صدر مسعود پزشکیان نے امریکی ایرانیوں کے ایک گروپ کے ساتھ ضیافت کے دوران ایران کے مستقبل کے بارے میں تشویش کا اظہار کرتے ہوئے خبردار کیا کہ اگر ایران میں اختلافات اور بدامنی کی صورت حال پیدا ہوئی تو ملک ٹوٹ سکتا ہے، اور مختلف علاقے جیسے آذربائیجان، کردستان، خوزستان، اور بلوچستان الگ حکومتیں قائم کر سکتے ہیں۔ اس صورت میں ایران اپنی وحدت کھو سکتا ہے۔ انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ ملک میں اتحاد اور ہم آہنگی کو فروغ دیا جانا چاہیے تاکہ بدامنی اور تقسیم سے بچا جا سکے۔

اسرائیل اور ایران کے درمیان ممکنہ جنگ ایران کے لیے تباہ کن اثرات کا باعث بن سکتی ہے، جس سے ملک کے اندرونی اور بیرونی حالات میں بگاڑ آ سکتا ہے۔ تاہم، یہ جنگ ایران کی مکمل شکست یا بکھراؤ کا سبب بنے گی یا نہیں، اس کا انحصار کئی اہم عوامل پر ہے۔ آئیے ان پہلوؤں کا جائزہ لیتے ہیں جو ایران کے ممکنہ بکھراؤ میں کردار ادا کر سکتے ہیں۔

ایران پہلے ہی بین الاقوامی پابندیوں، معاشی بدانتظامی اور بدعنوانی کی وجہ سے شدید معاشی مشکلات کا شکار ہے۔ اسرائیل کے ساتھ مکمل جنگ اس صورتحال کو مزید خراب کر سکتی ہے، خاص طور پر اس صورت میں جب امریکہ اور اس کے اتحادی مزید سخت پابندیاں عائد کریں۔ ان پابندیوں سے ایران کی تیل کی برآمدات اور عالمی منڈیوں تک رسائی متاثر ہو سکتی ہے۔ ایران کی معیشت، جو مہنگائی، بیروزگاری اور کرنسی کی گراوٹ کا شکار ہے، مزید مشکلات کا شکار ہو جائے گی۔ اسرائیل ایران کے اہم بنیادی ڈھانچے، جیسے تیل کی تنصیبات، بجلی گھر اور فوجی کمپلیکس کو نشانہ بنا سکتا ہے۔ تیل کی آمدنی پر انحصار کرنے والی معیشت پر حملے سے جنگی کوششوں اور عوامی فلاحی پروگراموں کو نقصان پہنچ سکتا ہے، جس کے نتیجے میں عوام میں بے چینی بڑھ سکتی ہے۔

ایران کا سیاسی نظام پہلے ہی سخت گیروں، اصلاح پسندوں اور اعتدال پسندوں میں تقسیم کا شکار ہے۔ جنگ ان دراڑوں کو مزید گہرا کر سکتی ہے اور بڑے پیمانے پر سیاسی عدم استحکام پیدا کر سکتی ہے۔ ایرانی عوام پہلے ہی معاشی مشکلات، جبر اور حکومت سے عدم اطمینان کا شکار ہیں، اور جنگ اس ناراضگی کو مزید بڑھا سکتی ہے، خاص طور پر اگر یہ طویل عرصے تک جاری رہتی ہے۔ اس سے بڑے پیمانے پر احتجاجات یا بغاوتیں جنم لے سکتی ہیں۔ ایران کی سیاسی اور فوجی اشرافیہ، بشمول پاسدارانِ انقلاب، بیرونی خطرات کا مقابلہ کرنے میں تو متحد ہو سکتی ہے، لیکن جنگ کے دوران حکومت کی ناکامیوں کے انکشاف ہونے پر اندرونی اختلافات بڑھ سکتے ہیں، جس سے مزید سیاسی عدم استحکام پیدا ہو سکتا ہے۔ عوامی سطح پر حکومت کی قانونی حیثیت کمزور ہو سکتی ہے، خاص طور پر اگر جنگ طویل اور مہنگی ثابت ہو۔

اسرائیل کے پاس فضائی طاقت، میزائل دفاع اور انٹیلی جنس کے میدان میں برتری حاصل ہے۔ اگرچہ ایران کی فوجی قوت وسیع ہے، لیکن ایک براہ راست جنگ میں اس کی کمزوریاں عیاں ہو سکتی ہیں۔ اسرائیل ایران کے جوہری مقامات، میزائل اڈوں اور فوجی بنیادی ڈھانچے کو نشانہ بنا سکتا ہے، جس سے ایران کی روایتی فوجی طاقت کو نقصان پہنچے گا اور وہ اندرونی اور بیرونی خطرات کے سامنے بے بس ہو سکتا ہے۔ ایران اپنی طاقت کا مظاہرہ کرنے کے لیے پراکسی فورسز، جیسے حزب اللہ، عراق کی ملیشیا، اور یمن میں حوثیوں پر انحصار کرتا ہے۔ اگر جنگ میں اس کی توجہ بٹ گئی تو ان گروہوں کی حمایت کمزور پڑ سکتی ہے، جس سے اس کی علاقائی طاقت متاثر ہو گی۔

اگر ایران کی فوج کو بڑے پیمانے پر نقصان پہنچا یا وہ اپنے دفاع میں ناکام رہی، تو داخلی قوتیں بلوچ، کرد، عرب اور دیگر اقوام ایرانی ریاست کو چیلنج کرنے کے لیے اس موقع کا فائدہ اٹھا سکتی ہیں، جو خانہ جنگی کا سبب بن سکتا ہے۔ ایران ایک کثیر النسلی ریاست ہے جہاں کئی علاقے مرکزی حکومت سے تاریخی شکایات رکھتے ہیں، اور جنگ ان کشیدگیوں کو بڑھا سکتی ہے۔ ایران کی نسلی اقلیتیں، جیسے کرد، عرب، آذری اور بلوچ، جنگ کو خود مختاری یا آزادی کے حصول کا موقع سمجھ سکتی ہیں، خاص طور پر اگر مرکزی حکومت کی گرفت کمزور ہو جائے۔ اس کے نتیجے میں علاقائی بغاوتیں جنم لے سکتی ہیں، اور سعودی عرب یا ترکی جیسے علاقائی طاقتیں اس موقع سے فائدہ اٹھا کر ایران کے اندرونی گروپوں کی حمایت کر سکتی ہیں، جس سے ایران کی طاقت میں کمی واقع ہو سکتی ہے۔

اسرائیل اور ایران کے درمیان جنگ ایران کی عالمی سطح پر تنہائی میں اضافہ کر سکتی ہے۔ اگرچہ ایران کو روس اور چین جیسے ممالک سے زبانی حمایت مل سکتی ہے، لیکن کسی بھی ملک کے جنگ میں براہ راست مداخلت کرنے کا امکان کم ہے۔ اگر ایران کو جنگ میں شکست کا سامنا کرنا پڑتا ہے تو خطے میں اس کی حیثیت کمزور ہو سکتی ہے۔ عراق، لبنان اور شام جیسے ممالک جہاں ایران کا اثر و رسوخ ہے، اگر ایران کو کمزور محسوس کریں گے تو وہ تہران سے فاصلہ بڑھا سکتے ہیں، جس سے ایران کی اسٹریٹجک طاقت متاثر ہو سکتی ہے۔ روس اور چین نے ایران کو معاشی اور سیاسی مدد فراہم کی ہے، لیکن یہ ممالک اسرائیل اور خلیجی ریاستوں کے ساتھ اپنے تعلقات کو بھی متوازن رکھتے ہیں۔ اگر ایران ایک بوجھ بن جاتا ہے تو یہ طاقتیں ایران کی حمایت کم کر سکتی ہیں، جس سے تہران مزید عالمی تنہائی کا شکار ہو جائے گا۔

اسرائیل اور ایران کے درمیان جنگ کا ایک خطرناک پہلو جوہری تصادم کا خطرہ ہے۔ اسرائیل کے پاس جوہری ہتھیار ہیں، جبکہ ایران کا جوہری پروگرام متنازع ہے۔ اسرائیل ممکنہ طور پر جنگ کے ابتدائی مراحل میں ایران کے جوہری ڈھانچے کو تباہ کرنے کی کوشش کرے گا، جس سے ایک بڑی علاقائی جنگ کا امکان بڑھ سکتا ہے۔ اگر ایران خود کو گھیرے میں محسوس کرے تو وہ اپنے جوہری ہتھیاروں کی ترقی کو تیز کر سکتا ہے، جس سے اسرائیل اور ممکنہ طور پر امریکہ کی مزید فوجی کارروائیاں ہو سکتی ہیں، اور ایک طویل اور تباہ کن جنگ کا خطرہ بڑھ جائے گا۔

پاسدارانِ انقلاب (IRGC) ایران کی فوجی اور سیاسی طاقت کا ایک اہم ستون ہے، لیکن جنگ میں اس کے کمزور پہلو بھی سامنے آ سکتے ہیں۔ اگر پاسدارانِ انقلاب اسرائیل کے حملوں کے خلاف مؤثر دفاع کرنے میں ناکام رہے تو اس کی طاقت میں کمی آ سکتی ہے۔ پاسدارانِ انقلاب ایران کی معیشت میں بھی گہرا اثر و رسوخ رکھتا ہے، اور فوجی شکست اس کی معاشی کنٹرول کو بھی متاثر کر سکتی ہے۔ اگر جنگ میں بڑے پیمانے پر نقصان یا جانی نقصان ہو تو پاسدارانِ انقلاب کے اندر بھی اختلافات پیدا ہو سکتے ہیں، جس سے تنظیم کے اندرونی توازن میں خلل پڑ سکتا ہے۔

اسرائیل اور ایران کے درمیان جنگ ایران کو کمزور کر سکتی ہے، خاص طور پر اگر اسے معاشی، فوجی اور سیاسی میدانوں میں شدید نقصان پہنچے۔ حکومت کو اندرونی مخالفت، معاشی تباہی، اور نسلی یا سیاسی دھڑوں سے چیلنج کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ تاہم، یہ جنگ ایران کی مکمل شکست یا بکھراؤ کا باعث بنے گی یا نہیں، اس کا انحصار حکومت کی اندرونی طاقت، عوامی حمایت اور خطے میں موجود دیگر طاقتوں کے کردار پر ہوگا۔

ایران ماضی میں دباؤ کو برداشت کرنے کی صلاحیت دکھا چکا ہے، اور بحران کے وقت قوم پرستی کا استعمال کر کے عوامی حمایت حاصل کر سکتا ہے۔ تاہم، اگر جنگ طویل ہو گئی اور ایران کی معاشی اور فوجی طاقت زوال پذیر ہو گئی تو داخلی عدم استحکام حکومت کے خاتمے کا باعث بن سکتا ہے۔ آخرکار، ایران کا بکھراؤ اس بات پر منحصر ہوگا کہ جنگ کے دوران وہ کتنی بڑی قیمت چکاتا ہے اور بین الاقوامی اور علاقائی حالات کیسے بدلتے ہیں۔