سوڈان اور لیبیا میں مسلح گروپوں کی بڑھتی ہوئی تعداد ان خانہ جنگیوں کی وجہ بھی ہے اور نتیجہ بھی، جنہوں نے ان ممالک کو ایک دہائی سے زائد عرصے سے متاثر کر رکھا ہے۔ مقامی رقابتوں اور سیاسی عدم استحکام کے ساتھ علاقائی اور بین الاقوامی عوامل مل کر ان تنازعات کو بڑھاتے ہیں، جس کا نتیجہ انسانی بحران اور پیچیدہ جغرافیائی سیاسی مسائل کی صورت میں سامنے آتا ہے۔ ان ملیشیاؤں کے پھیلاؤ اور ان کے کردار نے دیرپا امن کی راہوں کو مسدود کردیا ہے ۔
عرب بہار ایک عوامی تحریک کا سلسلہ تھا جو 2010-2011 میں مشرق وسطیٰ اور شمالی افریقہ میں شروع ہوا۔ اس تحریک نے کئی ممالک میں طویل مدتی حکومتوں کے خلاف عوامی بغاوت کی، جس میں سوڈان بھی شامل ہے۔ سوڈان میں یہ تحریک ایک اہم موڑ ثابت ہوئی جب عوامی احتجاجات نے 2019 میں آمرعمر البشیر کی حکومت کو ختم کرنے میں مدد کی۔
سوڈان میں مسلح گروپوں کی موجودگی اور سرگرمیاں ملک میں جاری خانہ جنگی اور سیاسی عدم استحکام کے ساتھ گہرے تعلقات رکھتی ہیں۔ یہ مسلح گروہ مختلف مقاصد اور نظریات کے تحت کام کرتے ہیں، اور ان کی موجودگی نے ملک کی سلامتی کی صورتحال کو مزید پیچیدہ بنا دیا ہے۔ سوڈان میں مسلح گروہوں کی تاریخ اس وقت شروع ہوئی جب ملک نے اپنی آزادی حاصل کی۔ آزادی کے بعد سے مختلف نسلی اور قبائلی گروہوں کے درمیان طاقت کی جنگیں جاری ہیں جو کہ مختلف علاقوں کے وسائل پر اجارہ داری اور حکومت میں نمائندگی کے لیے لڑتے رہے ہیں۔
عدل اور مساوات تحریک : یہ گروہ 2003 میں قائم ہوا اور اس کا مقصد دارفور میں حکومت کی جانب سے ہونے والی زیادتیوں کا جواب دینا ہے۔ یہ گروہ زیادہ تر مقامی قبائل کے حقوق کے تحفظ کے لیے کام کرتا ہے۔
سوڈانی مسلح افواج : یہ ملک کی مرکزی فوج ہے، جو کہ حکومت کی وفادار ہے۔ یہ فوج ملک کے مختلف حصوں میں مسلح گروہوں کے خلاف کارروائی کرتی ہے۔
پیپلز لبریشن آرمی شمال : یہ گروہ شمالی سوڈان میں سرگرم ہے اور حکومت کے خلاف لڑ تا ہے۔ یہ گروہ بنیادی طور پر نوبا پہاڑیوں کے علاقے میں موجود ہے۔
جنجاوید ملیشیا : یہ گروہ حکومت کی حمایت سے کام کرتا ہے اور خاص طور پر دارفور میں متنازع کارروائیاں کرتا ہے۔ ان پر انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے الزامات ہیں۔
سوڈان میں 2019 میں عمر البشیر کی حکومت کے خاتمے کے بعد سیاسی خلا پیدا ہوا، جس کے نتیجے میں مختلف مسلح گروہوں نے اپنی سرگرمیوں میں اضافہ کیا۔ یہ گروہ حکومت کے خلاف کارروائیاں کرتے ہیں اور اپنے مقامی علاقوں میں اثر و رسوخ بڑھانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ان مسلح گروہوں کی سرگرمیوں نے سوڈان میں انسانی بحران کو بڑھا دیا ہے، جس کے نتیجے میں بے گھر افراد، غذائی عدم تحفظ، اور طبی خدمات کی کمی کی صورت حال پیدا ہوئی ہے۔ خانہ جنگی نے لاکھوں لوگوں کو متاثر کیا ہے اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں بڑھ گئی ہیں۔ سوڈان میں مسلح گروہوں کی بڑھتی ہوئی تعداد اور سرگرمیاں ایک پیچیدہ صورتحال پیدا کر رہی ہیں، جو کہ امن کے قیام کے لیے بڑی رکاوٹ ہیں۔
مگر دوسری طرف سیاسی طور پرمزاحمت کمیٹیوں کے بہت سے رہنما بائیں بازو کے خیالات رکھتے ہیں اور سیکولر ہیں۔ تاہم، یہ کمیٹیاں کسی ایک سیاسی جماعت یا نظریے کی نمائندگی نہیں کرتیں، بلکہ یہ سوڈانی معاشرے کا ایک متنوع جزو ہیں جو خودمختاری، فوجی طاقت، اور بدعنوانی کے خلاف ہیں۔ مزاحمت کمیٹیوں نے نہ صرف 2019 میں البشیر کے خلاف انقلاب کی قیادت کی بلکہ انہوں نے اکتوبر 2021 سے لے کر ابتدائی 2023 تک عبوری حکومت کے خلاف احتجاجات بھی منظم کیے، جب عبداللہ ہمک کے شہری حکومت کو ختم کیا گیا۔
مزاحمت کمیٹیوں کی سرگرمیوں نے سوڈان میں سیاسی تبدیلی کے ایک نئے دور کا آغاز کیا ہے۔ یہ کمیٹیاں عوامی حمایت کی بنیاد پر اپنا اثر و رسوخ بڑھا رہی ہیں، اور یہ حکومت کی تبدیلی کے لیے ایک اہم قوت بن کر ابھری ہیں۔ ان کا مقصد صرف سیاسی تبدیلی نہیں ہے، بلکہ وہ ایک ایسے نظام کی تشکیل بھی چاہتی ہیں جو عوامی خودمختاری اور شفافیت پر مبنی ہو۔ مگربڑھتی ہوئی مسلح تنظیمیں انکے سامنے سب سے بڑے رکاوٹ ہیں۔ عرب بہار کے دوران سوڈان میں ہونے والے مظاہروں نے یہ ظاہر کر دیا کہ عوام میں تبدیلی کی خواہش موجود ہے۔ مستقبل میں، یہ ضروری ہے کہ بین الاقوامی برادری سوڈان کی عوامی تحریک کی حمایت کرے اور ان کے حقوق کی حفاظت کے لیے کام کرے۔ اس کے ساتھ ساتھ، مزاحمت کمیٹیوں کے قائدین کوشش کر رہے ہیں کہ سوڈان ایک مستحکم، جمہوری، اور شفاف حکومت کی طرف گامزن ہو سکے۔
سوڈان کے تنازعات کی جڑیں نوآبادیاتی استحصال نسلی تنوع اور علاقائی نابرابری میں پیوست ہیں۔ 1956 میں آزادی کے بعد سے سوڈان نے اپنے مختلف علاقوں کو متحد کرنے کے لیے جدوجہد کی ہے، جو وسیع ریگستانوں سے لے کر دریاؤں کے کناروں تک پھیلے ہوئے ہیں اور جہاں 500 سے زائد نسلی گروہ آباد ہیں۔ مرکز اور حاشیے پر موجود علاقوں جیسے دارفور اور جنوبی سوڈان جو 2011 میں بالآخر الگ ہو گئے۔2003 کے دارفور تنازع کے بعد، جہاں حکومت کی حمایت یافتہ جنجاوید ملیشیاؤں پر سنگین زیادتیوں کے الزامات لگائے گئے، مسلح گروپوں نے سوڈان میں مزید جگہ بنائی۔ یہ گروہ قبائلی اختلافات یا نظریات کی بنیاد پر تقسیم ہوتے رہے اور ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو کر چھوٹے گروہوں میں بٹ گئے۔ 2021 میں فوجی بغاوت اور 2023 میں عبوری مذاکرات کی ناکامی نے سوڈان کی ناپائیداری میں مزید اضافہ کر دیا، جس سے مزید بکھراؤ اور تشدد نے جنم لیا۔
لیبیا: عرب بہار کے نام سے جانے والا عوامی تحریکوں کا سلسلہ 2010-2011 میں مشرق وسطیٰ اور شمالی افریقہ کے کئی ممالک میں شروع ہوا، جس نے کئی طویل المدتی حکومتوں کو چیلنج کیا۔ لیبیا میں بھی اس تحریک نے ایک انقلابی لہر کو جنم دیا، جس کے نتیجے میں قذافی کی چار دہائیوں پر محیط حکومت کا خاتمہ ہوا۔ لیکن اس کامیابی کے بعد، ملک عدم استحکام، خانہ جنگی اور سیاسی خلا کی لپیٹ میں آ گیا۔ لیبیا کی جاری جنگ کا منظر نامہ مختلف نظریاتی، قومی، علاقائی، نسلی، اور قبائلی خطوط پر تقسیم شدہ مسلح گروپوں اور منفی کرداروں سے بھرا ہوا ہے۔ لیبیا میں مسلح گروہوں کی موجودگی ملک کی سیاسی عدم استحکام اور خانہ جنگی کی تاریخ سے جڑی ہوئی ہے۔ یہ گروہ مختلف نظریات، قبائل، اور علاقائی مفادات کے تحت کام کرتے ہیں، جس کی وجہ سے ملک میں ایک پیچیدہ صورتحال پیدا ہو چکی ہے۔ لیبیا میں مسلح گروہوں کی تاریخ 2011 میں معمر قذافی کے خلاف نیٹو کی حمایت سے ہونے والی بغاوت کے بعد شروع ہوئی، جس نے قذافی کی 42 سالہ حکومت کا خاتمہ کیا۔ قذافی کی حکومت کے خاتمے کے بعد، سیاسی خلا پیدا ہوا، جس کا فائدہ مختلف مسلح گروہوں نے اٹھایا۔
لیبیا نیشنل آرمی: جس کے سربراہ خلیفہ حفتر ہیں، یہ گروہ مشرقی لیبیا میں طاقتور ہے اور اس نے حکومت کی مرکزی قوت کے خلاف کئی عسکری مہمات میں حصہ لیا ہے۔ حفتر کے حامی اسے ایک مستحکم فوج کے طور پر دیکھتے ہیں، جبکہ ان کے مخالفین انہیں آمرانہ رجحانات کا حامل سمجھتے ہیں۔
فائز السراج کی قومی وفاقی حکومت (GNA) : یہ گروہ طرابلس میں قائم ہے اور بین الاقوامی سطح پر تسلیم شدہ حکومت کی حیثیت رکھتا ہے۔ GNA کو مختلف مسلح گروہوں کی حمایت حاصل ہے، جن میں عام شہریوں اور قبائل کی ملیشیا شامل ہیں۔
اسلامک اسٹیٹ: یہ شدت پسند گروہ لیبیا میں بھی سرگرم ہے اور مختلف علاقوں میں دہشت گردانہ کارروائیاں کرتا ہے۔ 2014 کے بعد ISIS نے لیبیا میں اپنی موجودگی کو بڑھایا، خاص طور پر سرت اور دیگر علاقوں میں۔
آخری انقلابی ملیشیا: یہ گروہ عام طور پر قذافی کے خلاف بغاوت کے دوران پیدا ہوا تھا اور اب مختلف مقامی گروہوں کے ساتھ مل کر کام کر رہا ہے۔ یہ گروہ ملکی سلامتی کی صورتحال کو مزید پیچیدہ بناتا ہے۔مختلف قبائل نے اپنی ملیشیا تشکیل دی ہے تاکہ اپنے حقوق کا تحفظ کریں۔ یہ گروہ بنیادی طور پر اپنے مقامی علاقوں میں اثر و رسوخ بڑھانے کے لیے کام کرتے ہیں۔
لیبیا میں مسلح گروہوں کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے، جس کے نتیجے میں خانہ جنگی اور سیاسی عدم استحکام کی صورت حال مزید بدتر ہوئی ہے۔ یہ گروہ اپنے مقاصد کے حصول کے لیے آپس میں اتحاد کرتے ہیں، مگر یہ اتحاد عموماً وقتی ہوتے ہیں، جس کی وجہ سے ملک میں کشیدگی برقرار رہتی ہے۔ان مسلح گروہوں کی سرگرمیوں نے لیبیا میں انسانی بحران کو بڑھا دیا ہے۔ بے گھر افراد کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے، اور بنیادی خدمات جیسے صحت اور تعلیم متاثر ہو چکی ہیں۔ شہریوں کی زندگی خطرات میں ہے، اور انسانی اسمگلنگ کا مسئلہ بھی سنگین ہوگیا ہے۔
لیبیا کے بحران میں بین الاقوامی مداخلت ایک اہم عنصر ہے، جہاں مختلف ممالک جیسے ترکی، مصر، متحدہ عرب امارات، اور روس نے مختلف مسلح گروہوں کی حمایت کی ہے۔ یہ مداخلتیں بھی ملک کی سلامتی کی صورتحال کو مزید پیچیدہ بناتی ہیں۔ لیبیا میں مسلح گروہوں کی موجودگی ایک چیلنج ہے جو ملک میں امن کے قیام میں رکاوٹ بن رہی ہے۔
ان تمام مسلح گروہوں کی وجود کا ایک بنیادی وجہ ملک میں وسائل پر بڑھتی ہوئی مسابقت نے ان متضاد وفاداریوں اور شناختوں کو مزید شدت دی ہے، جہاں مسلح گروپ لیبیا کے مستقبل میں حصہ لینے کے لیے ایک دوسرے کے ساتھ مقابلہ کر رہے ہیں۔ اس صورتحال نے سیاسی استحکام کی راہ میں رکاوٹیں پیدا کی ہیں، اور یہ واضح ہوتا جا رہا ہے کہ ایک جامع حل تلاش کرنا مشکل ہے۔لیبیا کے بحران میں بین الاقوامی مداخلت بھی ایک اہم عنصر ہے۔ اس وقت چھ ممالک مصر، متحدہ عرب امارات، فرانس، قطر، ترکی، اور امریکہ—اس تنازع میں شامل ہیں۔ یہ ممالک مختلف مسلح گروپوں کی حمایت کر رہے ہیں، جو اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ لیبیا کی جنگ صرف ایک داخلی مسئلہ نہیں ہے بلکہ عالمی طاقتوں کے مفادات کے لیے بھی ایک میدان جنگ بن چکی ہے۔
لیبیا کی صورت حال ایک ہائی پیچیدگی کی عکاسی کرتی ہے، جہاں مختلف مسلح گروپ اور ممالک ایک دوسرے کے ساتھ جڑے ہوئے ہیں، اور جو عرب بہار کے اثرات کے نتیجے میں موجود ہیں۔ لیبیا میں مسلح گروپوں کی بڑھتی ہوئی تعداد 2011 میں نیٹو کی حمایت یافتہ تحریک سے جڑی ہوئی ہے، جس نے معمر قذافی کے چار دہائیوں پر محیط اقتدار کا خاتمہ کیا۔ قذافی کی حکومت نے ایک مضبوط ریاستی نظام کے ذریعے اقتدار کو مرکز میں رکھ کر کنٹرول کیا تھا، جو ان کی موت کے بعد بکھر گیا، اور ملیشیاؤں نے فوراً اس خلا کو پُر کر دیا۔ لیبیا میں متعدد مسلح گروپ اُبھرے جو مقامی دفاع یا انقلابی نظریات کے جھنڈے تلے کام کرتے تھے۔ 2014 تک، دو متحارب حکومتیں سامنے آئیں، ہر ایک ملیشیاؤں کے ایک جال کی حمایت سے اقتدار پر قبضہ کرنے کے لیے سرگرم تھیں۔ سیاسی اور عسکری عدم اتحاد نے شدت پسندی کو فروغ دیا، اور شدت پسند گروہوں جیسے کہ داعش اور القاعدہ نے قدم جما لیے۔
تنازعات کو برقرار رکھنے میں مسلح گروپوں کا کردار بنیادی وجہ ہے، سوڈان اور لیبیا دونوں میں تنازعات کی مستقل مزاجی کی ایک بڑی وجہ مسلح گروپوں کا بکھراؤ اور ان کا بدلتا ہوا اتحاد ہے۔ ان ممالک میں کئی ملیشیا نیم خودمختار انداز میں کام کرتی ہیں، اور اتحاد زیادہ تر وقتی مفادات کی بنیاد پر ہوتے ہیں۔ سوڈان میں جنجاوید کے سابقہ اتحادی رفتہ رفتہ ریپڈ سپورٹ فورسز (RSF) میں تبدیل ہو گئے، جو ایک ملیشیا سے نیم فوجی دستے میں بدل گئے اور سوڈانی فوج (SAF) کے ساتھ کبھی اتحادی اور کبھی مخالف کے طور پر لڑے ہیں۔ 2023 کے اقتدار کی کشمکش کے دوران ان گروہوں کے مابین لڑائی نے دارالحکومت خرطوم سمیت بڑے شہروں میں تشدد کو جنم دیا۔
سوڈان اور لیبیا میں ملیشیاؤں کے معاشی مفادات بھی تنازعات کو برقرار رکھنے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ سوڈان میں، سونے کی غیر قانونی کان کنی، اسمگلنگ اور بھتہ خوری جیسے ذرائع سے ملیشیائیں مستفید ہوتی ہیں۔ RSF خاص طور پر ان سرگرمیوں سے فائدہ اٹھاتی ہے، جس سے انہیں اقتصادی برتری اور عسکری قوت حاصل ہوتی ہے۔ یہ معاشی مفادات تنازع کو جاری رکھنے کی ترغیب دیتے ہیں، کیونکہ امن کی صورت میں ان کی مالی سرگرمیاں متاثر ہوں گی۔
لیبیا میں تیل وسائل کا سب سے بڑا ذریعہ ہے، اور مسلح گروپوں کا مقصد تیل کے ذخائر پر کنٹرول حاصل کرنا ہے۔ قومی تیل کارپوریشن کو تیل کی آمدنی کو سنبھالنے کا قانونی اختیار ہے، لیکن ملیشیاؤں نے مختلف تیل تنصیبات پر قبضہ کر رکھا ہے۔ ان معاشی مفادات کی وجہ سے ان گروہوں کا ہتھیار ڈالنا مشکل ہے۔
سوڈان میں مصر اور متحدہ عرب امارات جیسے ممالک SAF کی حمایت کرتے ہیں، جبکہ کچھ خلیجی ممالک RSF کی پشت پناہی کرتے ہیں۔ اسی طرح لیبیا کے تنازع میں ترکی، روس، متحدہ عرب امارات اور مصر کا اہم کردار ہے۔ ترکی نے GNA کی حمایت میں ہتھیار، ڈرونز اور غیر ملکی جنگجو بھیجے ہیں، جبکہ روسی واگنر گروپ نے حفتر کی LNA کی حمایت کی ہے۔
لیبیا میں بھی لوگ شدید مشکلات کا سامنا کر رہے ہیں، جہاں 2011 سے ہزاروں افراد ہلاک اور بے گھر ہو چکے ہیں۔ طرابلس اور بن غازی جیسے شہروں میں لڑائی نے روزمرہ کی زندگی کو خطرناک بنا دیا ہے، جبکہ انسانی اسمگلنگ اور غیر قانونی ہجرت کا مسئلہ بھی سنگین ہو چکا ہے۔