ایران نے رسمی طور پر ایک Notice to Airmen جاری کیا ہے جس کے تحت ایران میں ہوائی سفر پر پابندی عائد کی گئی ہے۔ یہ پابندی 4 نومبر کی صبح 2:30 سے 6 نومبر کی شام 6:30 تک جاری رہے گی۔ اس اقدام کا مقصد ممکنہ حفاظتی خطرات سے بچاؤ ہے۔ جبکہ دوسری طرف امریکہ نے مبینہ طور پر ایران کو پیغامات بھیجے ہیں جن میں کہا گیا ہے کہ اگر ایران کی طرف سے کوئی اور حملہ ہوتا ہے تو امریکہ اسرائیل کو مزید روک نہیں سکے گا۔ اس پیغام کو ایران کے لیے سنگین وارننگ کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔

کہا جار رہا ہے کہ 5 نومبر کے دن ہی اسرائیل کے حملوں کے جواب میں ایران اسرائیل پر حملہ کریگی کیوںکہ اس دن امریکہ میں صدارتی انتخابات ہورہے ہیں۔ ایرانی رہبرآعلی آیت اللہ خامنہ ای نے کہا ہے “ہم ایرانی قوم کو طاقوتی قوتوں کے خلاف ہر ممکن انداز میں تیار کریں گے، چاہے یہ فوجی تیاری ہو، اسلحہ سازی ہو، یا سیاسی معاملات میں ہو۔ ہمارے حکام پہلے ہی اس سلسلے میں کام کر رہے ہیں۔

” انہوں نے مزید کہا کہ اسرائیل اور امریکہ جو بھی اقدامات ایران اور محاذ مقاومت کے خلاف کریں گے، انہیں منہ توڑ جواب دیا جائے گا۔ اسی طرح ایران کی اعلیٰ قومی سلامتی کونسل کی جانب سے ایران کے جوابی کارروائی کا فیصلہ لیا ہے، مجلس کی قومی سلامتی اور خارجہ پالیسی کمیٹی کے رکن اسماعیل کوثری نے بیان دیا ہے کہ ایران کی طرف سے اسرائیل کے خلاف جوابی فوجی کارروائی کا حتمی فیصلہ اعلیٰ قومی سلامتی کونسل میں کر لیا گیا ہے۔ کوثری نے مزید بتایا کہ “ردعمل کی نوعیت اور وقت کا تعین ابھی باقی ہے اور یہ کارروائی مقاومت کی قوتوں کے ساتھ ہم آہنگی میں انجام دی جائے گی۔” ایران عراق، لبنان، شام اور یمن میں اسلامی عسکری گروپوں کو “نیروهای مقاومت” کا نام دیتا ہے۔ کوثری نے کہا کہ اس بار کی کارروائی “وعدہ صادق 2 سے بھی زیادہ سنگین ہوگی۔” ایران نے اسرائیل پر پہلے دو حملے “وعدہ صادق” کے نام سے کیے ہیں۔ پہلا حملہ اپریل میں تقریباً 300 میزائلوں اور ڈرونز کے ذریعے ہوا، جبکہ دوسرا حملہ یکم اکتوبر کو تقریباً 180 بیلسٹک میزائلوں کے ذریعے کیا گیا۔

اضافی امریکی بمبار طیاروں کی مشرق وسطیٰ میں موجودگی نے اس خدشے مزید یقینی بنا دی ہے کہ امریکہ موجودہ ایران اسرائیل کشیدگی کو بہت سنجیدگی سے لے رہا ہے، گزشتہ یکم اکتوبر سے لیکر اب امریکہ کی طرف سے ایران کو مسلسل یہ پیغام دیا جا رہا ہے کہ اگر ایران نے اسرائیل پر مزید حملہ کیا تو امریکہ جوابی کاروائی کرسکتا ہے۔

امریکی فوج نے اعلان کیا ہے کہ اس نے مشرق وسطیٰ میں بی 52 بمبار طیارے بھیجے ہیں۔ سینٹکام کے مطابق یہ طیارے امریکہ کے مرکزی کمان کے زیر انتظام علاقے میں داخل ہو چکے ہیں تاہم طیاروں کی تعداد اور ٹھیک مقام کی تفصیلات فراہم نہیں کی گئیں۔ پینٹاگون نے بھی یہ اعلان کیا ہے کہ یہ طیارے جنگی طیارے، ایندھن فراہم کرنے والے طیارے اور نیوی کے جنگی جہازوں کے ساتھ خطے میں بھیجے جا رہے ہیں تاکہ امریکہ کی فوجی موجودگی کو مضبوط کیا جا سکے۔ امریکی وزیر دفاع لوئیڈ آسٹن نے خبردار کیا کہ امریکہ ہر ضروری اقدام اٹھائے گا اگر ایران خطے میں امریکہ کے اہلکاروں یا مفادات کو نشانہ بناتا ہے۔ یہ اعلان ایران کے خلاف امریکہ کی سخت پالیسی کو واضح کرتا ہے۔

امریکی صدر جو بائیڈن نے ” State of national emergency ” کی میعاد ایک سال کے لیے بڑھا دی ہے۔ صدر بائیڈن نے اپنے بیان میں کہا کہ ایران کے ساتھ تعلقات معمول پر نہیں آئے ہیں اور 19 جنوری 1981 کے معاہدات پر عمل درآمد جاری ہے، جس کے پیش نظر ایمرجنسی برقرار رکھنا ضروری ہے۔ ایران اور امریکہ کے درمیان بڑھتی ہوئی کشیدگی خطے میں عدم استحکام کو بڑھا رہی ہے۔ امریکہ اور ایران دونوں کی جانب سے جنگی تیاریوں اور بیانات کے نتیجے میں مشرق وسطیٰ میں ممکنہ تصادم کے خطرات بڑھ گئے ہیں۔