سلام!
لُمہ جان! اُمید ہے کہ آپ عافیت میں ہوں گے اور راہ حق پر راسکوہ کی طرح سربُلند، غیر متزلزل قائم و دائم ہوں گے۔
لمہ جان! وہ رات میرے لیئے انتہائی بھیانک تھی جب ظالموں نے لشکر کرکے ہمارے گھر کو ہر طرف سے محاصرہ کرکے گھر کے اندر زبردستی گُھس کر مجھے گہری پُرسکون نیند سے اُٹھاکر میری آنکھوں پر کالی پٹی باندھ کر ایسے لے گئے جیسے کہ میں ایک بہت بڑھا اور خطرناک دہشت گرد ہوں۔ مجھے جتنی ازیت آپ کی اُن چیخ و پکاروں سے ہوئی، اپنے لاپتہ ہونے اور اذیتوں پر نہیں ہوئی۔ اُس دردناک رات کے بعد سے میرے دل کا سُکھ، زہنی سُکون، جسمانی آسائش، آنکھوں کا نور اور من کی آزادی مجھ سے کھو گئے ہیں۔ اب اس تنگ اور ہولناک کالی کھوٹھیڑیوں میں صرف وہم، خوف، تنہائی، اضطراب اور اندھیر کے پرچھائیاں ہیں۔ لُمّہ جان! ایک اور بات کہوں؟ اس کالی کھوٹھیڑیوں میں رہ کر وقت کے پڑتال اور تعین کی صلاحیت بھی مجھ سے کھو گئی ہے کیونکہ یہاں بس اندھیر ہی اندھیر ہے۔ روشنی کا کوئی تصور اور نشان تک نہیں، ایسا لگتا ہے کہ مجھے ایک کنواں نما کوٹھڑی میں قید کیا گیا ہے۔
لُمّہ جان! جب مجھے گھر سے جبراً لاپتہ کرکے دور لے جاکر دو تین گھنٹوں کے بعد عقوبت خانوں میں لایا گیا، تو مجھے بہت مارا پیٹا گیا، کچھ ہفتوں تک مجھے بہت ذہنی اور جسمانی ازیت دی گئی، غلیظ گالیاں دئے، میری تضحیک کی گئی، شروع شروع میں، یہ سب کچھ دیکھ اور سہہ کر بہت روتا تھا، ڈرتا لگتا تھا، تکلیف ہوتی تھی۔ مگر اب میری حالت پہلی جیسی نہیں، میرے اندر ایک بڑی تبدیلی آئی ہے۔ مجھے اب ان کی اذیتوں سے کوئی درد، تکلیف اور خوف نہیں رہتا، پتا ہے کیوں؟ کیونکہ برے وقت اور حالات نے مجھے برداشت اور بہادری کا ایک مضبوط پہاڑ بنا دیا ہے۔ اب ان ظالموں میں اتنی سکت نہیں کہ وہ مجھے مزید ڈرا سکیں، کمزور کرسکیں۔
لُمہ جان! ایک اور عجب بات بتاؤں؟ آپ کا بیٹا اذیتیں سہہ سہہ کر بہت ضدی اور خود دار بن گیا ہے، اپنی ضد، خود داری اور ضمیر داری کی وجہ سے اب تک عقوبت خانے میں پابند سلاسل ہے۔ مجھے بار بار کچھ لوگوں کے سامنے پیش کیا جاتا رہا، چند بدشکل چہروں نے مجھے کچھ واقعات اور سرگرمیوں کو اپنے سر پر لینے اور بدلے میں چھوڑنے پر قائل کرنے، مجںور کرنے کی بہت کوشش کی، ہر بار اصرار کرتے رہے کہ اگر ان واقعات کی زمہ داری لیں گے، تو آپ کو جلد اور عافیت کیساتھ چھوڑ دینگے مگر میں نے ان کی باتوں پر کبھی حامی نہیں بھری، کیونکہ مجھے ان واقعات کا کوئی علم تک نہیں، میں کیسے اور کیوں اپنے سر پر لوں؟؟ ان کے جھوٹے اور مکارانہ پیشکش کو ہر بار ٹھکرا کر ان کو مات دیا۔
لُمہ جان! میں آج بھی آپ کے پند و نصیحت پر من و عن عمل پیرا ہوں کہ جھوٹ ایک لعنت اور زہر ہے، جھوٹ اعتبار اور عزت کا زہر قاتل ہے۔ جب انسان سے اس کا اعتبار اور عزت چلی جائے، تو وہ دنیا کا سب سے غریب اور حقیر انسان بن جاتا ہے۔ میں آپ کی نصحیت پر آج بھی عمل کررہا ہوں، جھوٹ بولنے اور اپنے لوگوں اور قوم کے سامنے لعنتی ہونے سے خود کو بچا رہا ہوں اور اذیتیں سہہ رہا ہوں۔
لمہ جان! میں اس گھٹن زدہ عقوبت خانوں میں اکیلا نہیں، میرے ساتھ میری طرح کے کئی اور نوجوان بھی یہاں بند ہیں، ازیتیں برداشت کررہے ہیں۔ اگرچہ ہمیں ایک دوسرے سے الگ تھلگ رکھا گیا ہے، ایک دوسرے کو جانتے نہیں، ایک دوسرے کو دیکھ نہیں سکتے، ایک دوسرے سے بات نہیں کرسکتے مگر ایک دوسرے کے چیخیں، ایک دوسرے کے سانسیں، ایک دوسرے کے دھڑکنیں سن سکتے ہیں اور نہ جانے ایک دوسرے کیلئے ہمدردی کیوں رکھتے ہیں، بسا اوقات لگتا ہے کہ اُس باہمی ہمدردی کی وجہ مشترکہ درد اور مشترکہ راستہ ہے۔
لمہ جان! آخر میں بس یہی کہنا چاہتا ہوں کہ زندگی چاہے کتنی بھی مشکل ہو، اُسکی خوبصورتی تب بھی قائم رہتی ہے، جب زہن میں حق اور انصاف کے لیئے فکر اور دل میں جذبہ ہو، میں آج بھی اپنے آپ پر اور آپ کی تربیت پر نازاں ہوں کہ آپ نے مجھے حق اور انصاف کا سبق سکھایا، راہ حق پر چلنے اور ثابت قدم رہنے پر تلقین کی، میں آج بھی حق کو مقدم اور معتبر سمجھتا ہوں، میرے دل و دماغ میں آج بھی حق اور انصاف کیلئے فکر اور حرمت ہے اور ظلم کے خلاف غم و غصہ اور نفرت سے بھرا ہے۔ آج بھی حق کیلئے زہنی اور جسمانی اذیتیں سہہ رہا ہوں مگر حق سے روگردانی کفر اور گناہ سمجھتا ہوں، اب یہ زندگی حق کے نام اور راہ حق کیلئے قربان، اگر زندگی نے ساتھ دی، تو ایک دن ضرور ملاقات ہوگی۔
والسلام
تابش بلوچ