تحریر : آرچن بلوچ

جہاں تحریک میں شمولیت کی خامی بھرلی گئی وہاں ساتھ ہی تقسیم کی لکیریں بھی کھینچے گئے مگرمسلح مزاحمت کی ابتدائی شدت اور تازہ قومی جزبے نے ان لکیروں کو یا تو توجہ نہیں دی یا حالت کی شدت کی وجہ سے اتنے واضع نہیں تھے جہاں تحریک کے اندر کی ’’یہ تیرا، وہ میرا‘‘ کا بازاری تماشہ بن جائے۔ مگر معروضی حالات نے آخر وہ منظر بھی دکھائے جو خفیہ اجنڈا رکھنے والے اپنے حولوں سے نکل کر دھندلی لکیروں کو واضع کرتے گئے جہاں کھل کر یہ بات بھی سامنے آیا کہ ہم الگ نظریاتی راہوں کے مسافر ہیں۔ کیوں کہ بلوچ قومی تحریک کے اندر نظریاتی انتشار کا تخم شروع ہی میں بویاگیا۔ کس نے اس بیج کو بویا؟ ان کرداروں کا نام لینا پتہ نہیں مناسب ہے یا نہیں، یہ خدشہ کہ کہیں مزید انا کا مسئلہ نہ بن جائے، میں سمجھتا ہوں جس نے جو فیصلہ کیا اسکا ذکر نہ کرنا تاریخ کے ساتھ نا انصافی ہوگی۔ مگراس مرحلے پر اس کردار کا نام اور انکے منفی فیصلے کے بارے یہاں لکھنا مقصود نہیں مگر اس کے اس منفی فیصلے نے موجودہ بلوچ تحریک کو دو نظریاتی پاٹوں میں بانٹ دیا ہے۔ اس وجہ سے تحریک اپنی اصل قومی قوت کے ساتھ دشمن کے ساتھ نبردآزما نہیں کرپا رہا بلکہ ٹکڑوں اور ٹولیوں کے حالت میں لڑ رہی ہے۔

کوئی قومی آزادی کی تحریک اتنا کمزور بھی نہیں ہوسکتا جسے اسکا دشمن شکست دے سکے، مگر شرط یہ ہے کہ وہاں ’’تحریکی‘‘ صف بندی کے patterns قومی، ریاستی اور فوجی کے تصورات کے پیرائے پر استوار ہوں۔ ہمارے یاں یہ تینوں تصورات انفرادی تنظیموں اور فردی ہیروازم کے بھرمار کی وجہ سے ختم ہوچکے ہیں۔

نفسیاتی طور پر پنجابی جرنیلوں کو یہ یقین ہے کہ وہ ’’ریاستی طاقت‘‘ کے بل بوتے پر بلوچ تحریک کو کچلنے میں کامیاب ہونگے! یہ انکا غلط اندازہ ہے یا درست، یہ بات اپنی جگہ،مگر “طاقت” ہی وہ Dynamics ہے جو تمام معاملات کے فیصلوں کو تعین کرتا ہے۔ مگر بلوچ تحریک میں شامل قوتیں ریاستی طاقت کی حصول کے بجائے اپنے ورکروں کے اندر ’’یہ تیرا، وہ میرا‘‘ رجحان پیدا کر رہے ہیں۔ تو ایسے میں نہ یہاں ریاستی طاقت کا حصول ممکن ہوگا اور نا ہی تحریک کے لئے عالمی سپورٹ ممکن ہوگا۔

جہاں تک پالیسی اختلافات کا تعلق ہے وہاں تحریک کے مجموعی اپروچ کو لیکر تحریک کے تمام areas یعنی مشترکہ سیاسی قیادت، احتسابی ادارہ (عدالتی نظام) رسمی عسکری ادارہ، خارجی امور، انسانی حقوق اور میڈیا جیسے معاملات پر کوئی اشتراک عمل جیسے حوالکاری سے تحریک محروم چلا آ رہا ہے۔ کچھ سالوں سے اللہ نذر اور بشیر زیب کے درمیان فقط خیربیارمری کے خلاف بغض معاویہ کے مصداق ایک زبانی کلامی جگاڑ جیسا اتحاد تشکیل دیا گیا مگر سب جانتے ہیں کہ یہ دونوں کردار کے off and on کے موڑ پر ہیں اور ایک دوسرے پر کوئی اعتبار بھی نہیں کرتے۔ سنگت حیربیارمری کی ڈسپلینری commitment کو سرداری کا ٹپہ لگانے والے کیوں ایک دوسرے کے ساتھ انضمام نہیں کرتے؟ ان دونوں میں سے کوئی سردار یا قبائلی تو نہیں۔ جس نئی پروڈکٹ کو بشیرنے مارکیٹ میں لایا، کیا وہ اللہ نذر کی پروڈکٹس سے مختلف ہے؟

جہاں تک حیربیارمری کا تحریکی اپروچ کے بارے سوچ ہے وہ holistic اور قومی ہے۔ یعنی کامل شامل! اس کی تحریکی اپروچ کے سوچ میں کسی مخصوص طبقے کی exclusive club شامل نہیں۔ حیربیارمری کی پارٹی کی طرف سے اتحاد یا اشتراک عمل کے حوالے جتنے کوششیں کی گئیں انکے پیچھے ایک طرف تحریک کے لوازمات کی حصولی غرض تھا یا ہے اور دوسری طرف یہ حقیقت کہ اندرونی یا ظاہری طور پر آپس میں کوئی ایسا اختلاف نظر نہیں آتا جس کے بنیاد پر تحریک کی ضروریات کو پورہ کرنے میں اشتراک عمل کوئی رکاوٹ پیش آئے!

لیکن آخر تحریک کی ضروریات کیا ہے ؟ مطلوبہ نتائج حاصل کرنے کیلئے تحریک کے تمام لوازمات میں سرفہرست ایک مشترکہ قومی نمائندہ سیاسی قیادت ہے جس کے پاس قومی مینڈیت ہو اور یہ قیادت دلجمی سے ایک متبادل ریاستی setup تیار کرسکے۔ وہ سیٹ اپ متبادل ریاستی قوت کے طور پر نہ صرف عوام کو تحریک کے اندر مزید موبلائزڈ کرے بلکہ دنیا کے سامنے بطورایک مستحکم نمائندہ قومی قوت ابھرے تاکہ ممکنہ دوست ممالک کو ہماری تحریک کو سپورٹ یا حمایت دینے میں کوئی دکت پیش نہ آئے۔

ہماری تحریک کے بارے دنیا کی خاموشی ایک واضع پیغام ہے کہ ’’ہم ایسے حالت میں تمہارا مدد نہیں کرسکتے کیوں کہ تم ایک ایسی منتشر قوت ہو جہاں مرکزیت وجود نہیں رکھتا’’۔ اور پھر عالمی سپورٹ عالمی قوانین کے مطابق فقط ’’ریاستی قوت‘‘ کو حاصل ہوگا۔ یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ دنیا کی مروجہ نظام کے تحت قوموں کے اعلیٰ قیادت ہی سفارت کاری کرتے ہیں کیوںکہ وہ فیصلہ کرنے کے اھل ہیں۔ سفارت میں خانوں بیٹھے افیسران یا پارٹی نمائندگان نہیں کرسکتے۔

قومی تحریک کی عسکری کردار کو سیاست کے تابع کئے بغیر یہ کیسا ممکن ہے کہ آپ ایک ریاست بنانا چاہتے ہو، جبکہ سیاسی شمولیت کے بغیر ریاست کا تصور ممکن نہیں۔اب جبکہ گوریلہ پن نہ رہا تو پیچھے بیٹھ کر لشکر کو ہانکنے سے بہتر ہے کھل کر سیاسی کردار نبھانے سامنے آئیں تاکہ استعمال ہونے یا کرنے کا تاثر پیدا نہ ہو۔

اب تک موجودہ تحریک میں حصہ داروں نے کئی عارضی (cosmetics Measure) اقدام کئے مگر ہر بار نتیجہ صفر رہا ہے۔ بنیادی وجہ یہی رہی ہے کہ تحریک کو holistic approach کے بنیاد پر استوار نہیں کیا گیا ہے۔ بدقسمتی سے 25 سالہ قومی تحریک اب ایک متبادل ریاستی قوت میں تبدیل نہ ہو سکی۔ انفرادیت پسندی، تنظیموں کی لاو لشکر، فلمی نمائش جیسے رویوں سے پتہ چلتا ہے کہ تحریک کے اندر نفاق پیدا کرنے والے تحریک کے تقاضوں سے نہیں بلکن ذاتی فیصلوں کو تحریک پر مسلط کرنے کی نیت رکھتے ہیں، ان کی نظر میں تحریک کی سیاسی پہلو یا کردار کی کوئی اہمیت نہیں، سفارتکاری جائے بھاڑ میں۔

بلوچ آزادی کی تحریک “وسائل اور اداراتی” لحاظ سے کمزور فریق ہے، اور اسکی “طاقت” اس کی “کمزور حیثیت” میں پنہاں ہے اب اس “کمزور حیثیت” کو abuse کرتے ہوئے ہیروازم کے بھینٹ چھڑاؤ گے، تو دشمن ہمیشہ موقعے کی تلاش میں ہے، آپ کمزور ہیں اسی لیے guerilla mode of warfare کے طریقہ کار کو چن لیا گیا۔

اب اس موڑ سے باہر نکلنے کا واحد راستہ قومی فورس کی تشکیل ہے! اب قومی فورس کا تشکیل نا پانے کے اسباب مختلف تاویلات اور بہانے ہیں جنہیں شاطر دماغ اپنی انفرادیت پسندی کی خاطر تراشتے رہتے ہیں۔

یہاں انفرادی تنظیمی بنیادوں پر تحریک کو چلانے کا بدبخت ترین نقصان یہ ہے کہ تمام تنظیمیں ایک دوسرے تنظیم پر سبقت اور برتری حاصل کرنے کی دوڑ میں مقابلہ بازی پر اتر آتے ہیں ۔ایسے میں اسٹریٹ پر یا مقامی آبادیوں میں show off کے نظارے وقتاً فوقتاً ملتے رہیں گے۔

تحریک میں ہر جھدکار ایک مثبت عمل کر رہا ہے لیکن نتیجہ خیزثابت نہیں ہو رہے۔ مثبت عمل کی نتیجہ خیزی اس وقت وقوع پذیر ہوگا جب تحریک کی تشکیل اپنی تمام مطلوبہ اھم اجزاء کلیت کے ساتھ Synchronized Holistically ہونگے، تب جاکر یہ تحریک ہمیں ایک متبادل ریاستی قوت میں تبدیل ہوتا ہوا ملے گا۔

اب اس تحریک کے کئی ایسے لازمی اجزاء ہیں جن کے بغیرسارا تحریک نامکمل سمجھا جائے گا اور جن کے سبب کام آگے نہیں بڑھیں گے۔ مثال کےطور پاکستان کی اصل صورت کو دنیا کے سامنے پیش کرنے کیلئے جو اصل کام کرنا ہے وہ اشتراک عمل کے بغیرناممکن ہے۔ پاکستان کی فوج پنجابیوں پر مشتمل ایک لسانی اور نسلی فورس ہے، اس نسلی گروہ نے بلوچستان، پختونخوا، افغانستان، سندھ اور بنگلادیش میں تباہی مچا دی ہے، اس نسلی گروہ نے فقط اپنی اجارہ داری قائم کرنے کیلئے کروڑوں انسانوں کے حقوق، ترقی، امن اور شناخت کو یرغمال بنا رکھا ہے۔ اس لیے ان تمام اقوام کو مشترکہ طور پر پنجابی جرنلوں کو دنیا کے سامنے name, shame and profile فروفائل کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ یہ ایک بہت بڑا کام ہے ایک پارٹی اکیلا اسے کر نہیں سکتا۔ اگر کامیابی پیش نظر ہے تو ہمیں کامیاب بنگلادیش کی مثال سامنے رکھنا چاہیے۔

کامیاب بنگلادیشی تحریک سے ہمیں کچھ سیکھنا چاہیے۔ بنگلا قوم ایک عاجز قوم تھی شاید یہی وجہ تھی جہاں رہنماؤں کے درمیان انا اور نظریہ کا کوئی مسئلہ پیدا نہ ہوا، وہاں ایک ہی لائن اف لیڈرشپ تھی ایک ہی موقف تھا ایک ہی اسٹراٹیجی تھی، تحریک کا ایک ہی face شیخ مجیب الرحمان تھا، اسے پاکستان شکست نہ دے سکا۔

یہ بات قابل ذکر ہے کہ عوامی لیگ کے ساتھ کئی دوسرے چھوٹے سیاسی پارٹیاں بھی شامل تھیں مگر تحریک کی عسکری تنظیم ایک تھی۔ تحریک کے عسکری محاذ پر مکتی باہنی (آزادی کے سپاہی) کی تنظیم کا قیام ہوا، جو تحریک کی مسلح جدوجہد کا اہم حصہ تھی۔ مکتی باہنی میں سابق فوجیوں، بنگالی پولیس اہلکاروں، اور عام عوام کو شامل کیا گیا۔ یہ گوریلا طرز کی جنگ میں مہارت رکھتے تھے اور انہوں نے پاکستانی فوج کے خلاف مزاحمت میں کلیدی کردار ادا کیا۔ مکتی باہنی کو منظم کرنے کے لیے شیخ مجیب کے قریبی ساتھیوں اور بھارتی حکومت کی مدد حاصل کی گئی۔ بھارت نے مکتی باہنی کو تربیت، اسلحہ اور لاجسٹک مدد فراہم کی، جس نے ان کی عسکری صلاحیتوں کو مزید مضبوط کیا۔

اسی طرح بنگلہ دیش کی آزادی کی تحریک میں سیاسی استحکام اور اہم واقعات جیسے آپریشن اور آزادی کا اعلان بہت اہم تھے۔ شیخ مجیب الرحمن قیادت نے بنگالیوں کے حقوق کے لیے ایک مضبوط سیاسی پلیٹ فارم فراہم کیا ۔یہ بات قابل ذکرہے کہ تحریک کے دوران بنگلادیش کے مختلف سیاسی جماعتوں اور گروہوں جن میں نمایاں پارٹیاں جاتیئو سماجتانترک دل ، بنگلہ دیش کمیونسٹ پارٹی، طلبہ تنظیم چھاترا لیگ، قومی عوامی پارٹی اور مختلف ثقافتی تنظیموں میں اتحاد قائم ہوا۔

ان پارٹیوں کے اتحاد نے تحریک کو ایک ’’جمہوری بنیاد‘‘ فراہم کی۔ بنگالیوں کے اتحاد نے ان کی طاقت کو مزید بڑھایا۔ 25 مارچ 1971 کو پاکستانی فوج نے جیسے ہی “آپریشن سرچ لائٹ” شروع کیا، تو شیخ مجیب الرحمن نے فورا 26 مارچ 1971 کو بنگلہ دیش کی آزادی کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ اب ہمارا پاکستان سے کوئی تعلق نہیں رہا۔

ان کے اس تاریخی اعلان نے عوام میں ایک نئی روح پھونک دی اور آزادی کی جدوجہد کو مزید مضبوط کیا۔ آزادی کے اعلان کے بعد، بنگالی عوام نے بڑے پیمانے پر مزاحمت شروع کی۔ مختلف محاذوں پر جنگی کارروائیاں اور مزاحمت کے واقعات پیش آئے، جنہوں نے تحریک کی بنیاد کو مزید مستحکم کیا۔

1971 کے آخر میں بھارت نے بنگلہ دیش کی آزادی کی تحریک میں مداخلت کی، جو ایک فیصلہ کن لمحہ تھا۔ بھارتی افواج نے بنگالیوں کے ساتھ مل کر پاکستانی فوج کے خلاف کارروائیاں کیں۔16 دسمبر 1971 کو پاکستان کی فوج نے ہتھیار ڈال دیے، جس کے نتیجے میں بنگلہ دیش کی آزادی کا باقاعدہ اعلان کیا گیا۔

٭٭٭