جب برطانوی راج نے ہندوستان پر اپنا قبضہ مضبوط کیا، تو اس وقت ہندوستان کی آبادی دنیا کی سب سے زیادہ آبادیوں میں سے ایک تھی۔ اس کے برعکس، برطانیہ کی آبادی بہت کم تھی۔ ہندوستان اور برطانیہ کی آبادی کے اعداد و شمار اور ان کے تاریخی پس منظر پر تفصیل سے نظر ڈالنا اہم ہے تاکہ یہ سمجھا جا سکے کہ برطانیہ کی ایک چھوٹی سی آبادی نے کس طرح ہندوستان جیسے وسیع اور گنجان آباد ملک پر اپنی حکمرانی قائم کی۔
ہندوستان کی آبادی 18ویں صدی کے وسط میں تقریباً 1757 کے قریب 19 سے 20 کروڑ تھی۔ اس وقت ہندوستان زراعت پر مبنی معیشت رکھتا تھا، اور گنگا کے میدان، جنوبی ہندوستان اور بنگال کے ڈیلٹا جیسے علاقے سب سے زیادہ گنجان آباد تھے۔ 1757 میں جنگ پلاسی ہوئی، جس میں ہندوستان کو شکست ہوئی۔ یہ وہ دور تھا جب برطانوی ایسٹ انڈیا کمپنی نے سیاسی اثر و رسوخ حاصل کرنا شروع کیا، خاص طور پر بنگال پر قبضے کے بعد۔
19ویں صدی کے وسط میں، یعنی 1857 کے قریب، جب ہندوستان میں دوسرا جنگ آزادی شروع ہوا، ہندوستان کی کل آبادی تقریباً 23 سے 24 کروڑ تھی۔ اس وقت تک برطانوی ایسٹ انڈیا کمپنی نے ہندوستان کے بڑے حصے پر اپنی حکمرانی قائم کر لی تھی۔ باوجود قحط، جنگوں اور بیماریوں کے، ہندوستان کی آبادی میں اضافہ ہوا کیونکہ اس وقت تک شرح پیدائش بلند تھی۔ 1871 میں برطانوی حکومت نے پہلا مردم شماری کرایا، جس کے مطابق ہندوستان کی کل آبادی تقریباً 25.5 کروڑ تھی۔ اس وقت بھی قحط (جیسے 1876-1878 کا عظیم قحط) اور بیماریوں نے لوگوں کی زندگی کو متاثر کیا، لیکن آبادی میں اضافہ جاری رہا۔
اگر برطانیہ کی آبادی کی بات کی جائے، تو 18ویں صدی کے وسط (تقریباً 1757) میں برطانیہ (انگلینڈ، اسکاٹ لینڈ اور ویلز) کی آبادی تقریباً 70 سے 80 لاکھ تھی۔ اگر آئرلینڈ کو شامل کیا جائے تو برطانوی جزائر کی کل آبادی تقریباً 1.1 سے 1.2 کروڑ تھی۔ اس وقت برطانیہ صنعتی انقلاب کے ابتدائی مراحل میں داخل ہو رہا تھا، جس نے معاشرتی اور اقتصادی ترقی میں اضافہ کیا۔ 19ویں صدی کے وسط (تقریباً 1857) تک برطانیہ کی آبادی تقریباً 2.1 کروڑ تھی اور آئرلینڈ کے ساتھ یہ 2.7 سے 2.8 کروڑ تک پہنچ گئی تھی۔ آئرلینڈ کے عظیم قحط (1845-1852) کے دوران لاکھوں لوگ ہلاک یا ہجرت کر گئے، جس کی وجہ سے آئرلینڈ کی آبادی میں کمی ہوئی۔
ہندوستان اور برطانیہ کی آبادی کا موازنہ کیا جائے تو 18ویں صدی کے وسط میں ہندوستان کی آبادی برطانیہ کی آبادی سے تقریباً 25 گنا زیادہ تھی، جبکہ 19ویں صدی کے وسط میں بھی ہندوستان کی آبادی برطانیہ کی آبادی سے تقریباً 10 گنا زیادہ رہی۔ یہ فرق اس وقت کے عالمی منظرنامے میں نمایاں تھا، جہاں برطانیہ کی ایک چھوٹی سی آبادی نے اپنی صنعتی اور عسکری طاقت کی بنیاد پر ہندوستان جیسے وسیع اور گنجان آباد ملک پر قبضہ کر رکھا تھا۔
قحط اور بیماریاں، اہم عوامل ہندوستان میں برطانوی دور حکومت کے دوران بار بار قحط (جیسے 1770 کا بنگال کا عظیم قحط اور 1876-1878 کا قحط) اور بیماریوں نے لاکھوں جانیں لیں، مگر بلند شرح پیدائش کے باعث آبادی میں اضافہ ہوتا رہا۔ ان قحطوں کے دوران ہزاروں افراد بھوک اور بیماریوں کا شکار ہو گئے، لیکن اس کے باوجود آبادی میں مجموعی طور پر اضافہ دیکھنے کو ملا۔
برطانوی صنعتی انقلاب برطانیہ میں صنعتی انقلاب کے نتیجے میں نہ صرف اقتصادی ترقی ہوئی بلکہ صحت اور خوراک کے معیار میں بہتری آئی، جس نے برطانیہ کی آبادی کو بڑھایا۔ صنعتی انقلاب کے بعد برطانیہ نے اپنے اقتصادی اور عسکری فوائد کو ہندوستان کے خلاف استعمال کیا اور اپنی حکمرانی کو مستحکم کیا۔
نظام حکومت برطانیہ نے ہندوستان میں اپنی حکمرانی کو مضبوط کرنے کے لیے “تقسیم کرو اور حکومت کرو” کی پالیسی اپنائی، جس نے معاشرتی تقسیم کو گہرا کیا۔ جب برطانیہ نے ہندوستان پر قبضہ شروع کیا، اس وقت ہندوستان کی آبادی دنیا کے بڑے ممالک میں شامل تھی۔ ہندوستان کی تقریباً 19 سے 20 کروڑ کی آبادی، برطانیہ کی صرف 70 سے 80 لاکھ کی آبادی کے مقابلے میں، ایک بہت بڑا فرق ظاہر کرتی ہے۔ اس کے باوجود، برطانیہ نے اپنی تنظیمی طاقت، فوجی حکمت عملی، اور اقتصادی دباؤ کے ذریعے ہندوستان پر اپنی حکمرانی قائم رکھی۔
ہندوستان کی کمزوریاں برطانوی سامراج نے ہندوستان پر قبضہ کرنے اور اپنی حکومت کو مستحکم کرنے کے لیے مختلف سیاسی، اقتصادی اور عسکری حکمتِ عملیوں کا استعمال کیا۔ اس دوران ہندوستان میں کئی بنیادی کمزوریاں تھیں، جنہوں نے اسے برطانوی تسلط کے سامنے بے بس کر دیا۔
سیاسی تقسیم اور اتحاد کا فقدان مغلیہ سلطنت 18ویں صدی میں زوال پذیر ہو چکی تھی اور طاقت چھوٹے نوابوں، راجاؤں اور جاگیرداروں میں تقسیم ہو گئی تھی۔ مختلف ریاستوں کے حکمران اپنی ذاتی طاقت کو بڑھانے میں مصروف تھے اور اجتماعی قومی اتحاد کا فقدان تھا۔ برطانویوں نے اس داخلی سیاسی تقسیم کا فائدہ اٹھایا اور مختلف ریاستوں کو ایک دوسرے کے خلاف کھڑا کر دیا۔
عسکری کمزوری ہندوستانی افواج کے پاس جدید ہتھیاروں، گولہ بارود، اور جنگی ٹیکنالوجی کی کمی تھی۔ برطانوی افواج نے صنعتی انقلاب کے بعد جدید ہتھیاروں، توپ خانے اور بحری جہازوں سے اپنے آپ کو لیس کیا تھا۔ ہندوستانی افواج میں کوئی مرکزی کمان یا مربوط حکمت عملی نہیں تھی، اور کئی ریاستیں کرائے کے سپاہیوں پر انحصار کرتی تھیں جو برطانوی فوجوں کے خلاف لڑنے میں غیر مؤثر ثابت ہوئے۔
اقتصادی کمزوری ہندوستان کی معیشت زیادہ تر زراعت پر منحصر تھی، جو برطانوی صنعتی معیشت کے مقابلے میں کمزور تھی۔ برطانیہ کی صنعتی ترقی نے اس کی اقتصادی برتری کو بڑھایا، جس نے ہندوستان کی مقامی معیشت کو مزید کمزور کر دیا۔ مقامی حکمران مالیاتی وسائل کے لحاظ سے کمزور تھے اور برطانوی اقتصادی پالیسیوں کا مقابلہ کرنے کے لیے ان کے پاس وسائل نہیں تھے۔
سماجی اور ثقافتی مسائل ذات پات کا نظام اور سماجی تقسیم ہندوستانی عوام کو متحد ہونے سے روکتی تھی۔ نچلی ذات کے لوگ اعلیٰ ذات کے حکمرانوں سے تعاون نہیں کرتے تھے، اور برطانوی اس تقسیم کا فائدہ اٹھانے میں کامیاب رہے۔ تعلیمی پسماندگی اور مذہبی تنازعات نے بھی ہندوستان کی داخلی ہم آہنگی کو متاثر کیا، جس کے باعث ہندوستان برطانوی یلغار کا مقابلہ نہ کر سکا۔
قیادت کی کمی ہندوستان میں اس وقت کوئی ایسی مضبوط قیادت موجود نہیں تھی جو پورے ملک کو متحد کر سکے۔ برطانوی سفارت کاری کی برتری نے ہندوستانی حکمرانوں کی نااہلی کا بھرپور فائدہ اٹھایا اور ہندوستان پر اپنی حکمرانی کو مستحکم کر لیا۔ ہندوستان کی سیاسی تقسیم، عسکری کمزوری، اقتصادی پسماندگی، سماجی مسائل، اور قیادت کی کمی نے برطانوی سامراج کے لیے ہندوستان پر قبضہ کرنا اور اپنی حکومت کو مستحکم کرنا آسان بنا دیا۔ ان کمزوریوں کا فائدہ اٹھا کر برطانوی ایسٹ انڈیا کمپنی نے پہلے معاشی، پھر عسکری اور آخر کار سیاسی کنٹرول حاصل کیا۔ اگر ہندوستان متحد ہوتا اور ان کمزوریوں پر قابو پاتا تو شاید تاریخ کا رخ مختلف ہو سکتا تھا۔