تبصرہ: عزیز مختار بلوچ
یہ کتاب فنن کی 1952 میں پبلیش ھوئی جو post colonialism کے دور میں لکھا گیا تھا جہاں سْیاہ فام لوگوں کے اوپرگورے لوگوں کیجانب سےحکمرانی( dominant) کی جاتی تھی اور اُن کو نسلی تعصب(Racial discrimination) کا شکار بنایا جاتا تھا اُن کے معاشرے میں جو فنن خود ایک سْیاہ فام سوسائٹی سے تعلُق رکھتے تھے ان کو بھی اسی نسلی تعصب کا سامنا کرنا پڑا جو فنن نے اپنے اس کتاب کے اندر بْیان کیا ھے. گورے لوگوں نے اُن سْیا فام لوگوں کو ہر لحاظ سے زیادتی کا نشانہ بنایا ان کی شکل وصُورت کی وجہ سے یہاں تک ان کو انسانی معاشرے کے کیٹگری میں نہیں سمجتے تھے اُن کو ہرطریقے سے نیچا دکھا تے تھے یہاں تک کہ وہ اپنے آپکو انسان ہی سمجھنے سے انکاری ھوگئے اور وہ لوگ زہنی بیماریوں(Spsychological disorders) کا شکار ھوگئے.
فینن اپنے اس کتاب میں سْیاہ فارم لوگوں کے اُوپر ظلم
کے بارے میں بتاتے ہوئے کہتا ھےکہ اُن کو جب قبضہ کیا گیا تو وہ گورے لوگوں کے معاشرے میں آئے تو اُن کو گورے لوگ (White People) اپنے سے کم تر سجھتے یہاں تک کہ وہ خُود کو خود کم تر سمجھنے لگے کیونکہ ان کو یہ ا حساس دلایا گیا کہ اُن کی جِلد سیاہ ہے جسکی وجہ سے خدا بھی ان سے ناراض ہے اور ان کو سیاہ بنایا ہے۔ یہاں تک کہ پھر وہ بھی ان فرضی باتوں کو ماننے لگے کہ گورے لوگ(white people) ہم سے اچھے اور بہتر ھیں.
فینن اپنی کتاب کے شروعات میں اپنے (readers) سے ایک سوال پوچھتا ھےکہ ایک سفید فام آدمی کیا چاہتاہے اور ایک سْیاہ فام آدمی کیا چاہتا ھے؟ کیا یہ دونوں اپنے نسلی پہچان (racial identity)میں پھنسےھوئے ھیں.
فینن کہتا ھےکہ زبان ایک ٹول (tool) ھے جسکی وجہ سے ملکوں کو قبضہ کرنا شروع ھوا کالونائیزر کی جانب سے جیسا کہ سْیاہ جلد لوگوں کو کیا گیا.
فینن انٹلیز(فرانس) کے لوگوں کا حوالہ دیتے ہوئے کہتا ھے کہ جب سْیاہ (form) لوگ وہاں آئے تو انُہوں نے فرانسیسی لوگوں (white people) کے ثقافت اور زبان کو اپنانا شروع کیا تا کہ فرانسیسی لوگوں کی طرح (civilised) ثابت ہوسکیں اور اُن کو سفید فام معاشرے میں قبول کریں لیکن وہاں (فرانس) کے لوگوں نے اُن کو (accept) نہیں کیا اور اپنے آپ کو اُنہوں نے(superiors) سمجھا ان سیاہ جِلد لوگوں سے، فنن پھر سوال کرکے پوچھتا ہےکہ سْیاہ جِلد (black people ) والے اپنے آپ کو اُن کے سامنے کیوں تہذیب یافتہ(civilised) دیکھانے کی کوششش کررہے ھیں؟ کیونکہ انکو وہ کبھی accept نہیں کریں گے.
فینن پھر ایمی کوسر(Amie couscre) کا حوالہ دیتے ہوئے کہتا ھے کہ وہ ایک سْیاہ فارم شخص تھے جنھوں نے نیگرو موومنٹ چلائی تھی لیکن اُنھوں نے کھبی بھی اپنے آپکو گوروں سے کم تر سمجا اور نہ ہی انھوں نے گورے لوگوں کو (white people) تنگ نظری سے دیکھا اور نہ اُن کے کلچر اور زبان کواپنایای.
فنن کہتا ھے کہ جب سْیاہ فام لوگ غلام ھوئے تو وہ (inferiority complex) کا شکار ھوگئے وہ ہر چیز میں اپنے آپکو کم تر سمجھنے لگے کیو نکہ کولونائزر(colonizer) نے کالے اور گورے ھونے والے سوچ کو وسیع کردیا تھا سفید فام نے معاشرے کے اندر سیاہ فام کو اتنا ذلیل کیا کہ وہ اپنی شناخت سے انکاری ہوگئے اور خود کو گورے مھاشرے میں منوانے(accept) کیلئے گورے لوگوں کے ساتھ شادی کرنے کی کو ششیں کی تاکہ ان کو گورے معاشرے میں عزت کی نگاہ سے دیکھا جاسکے اور وہ اُن کی طرح تہزیب یافتہ(Civilised) کہلائیں۔.
فینن اپنے کتاب میں mayotler کے ناول i am martinian women کا حوالہ دیتے ھوئے کہتاہے کہ ایک سْیاہ فام عورت ایک گورے آدمی سے شادی کرنا چاہتی ھے تاکہ ان کو سفید فام مھاشرے میں عزت اور تہزیب یافتہ سمجھا جاسکے لیکن فینن اُن کی اس سوچ کو رد کرکے لکھتا ہےکہ اگر سفید فام لوگ تہذیب یافتہ ہیں تو ھوسکتا ھےکہ سْیافام اُن سے زیادہ تہذیب یافتہ (civilised) ھوں. فینن پھر رین میرن (Rene Meran) کے ناول کا حوالہ دیتے ھوئے کہتا ہے کہ ایک سْیاہ فام شخص(Jean veneus) ایک قابل آدمی ھیں وہ ایک سفید فام عورت(white women) سے شادی کرناچاہتا ہے کیونکہ وہ گورے معاشرے میں عزت اور acceptance چاہتا ہے لیکن وہ ناکام ھوتا ھے تو پھر ایک بیماری کا شکار ھوتا ھے (Abandonment Neurosis) جہاں وہ سوچتا ھے کہ یہ چیزیں ہماری سیاہ جِلد کی وجہ سےھورہی ھیں لیکن فینن کہتا ھیکہ ایسی حالت اور سوچ بنائی گئی ھیں قبضہ گیر(colonizer) نے معاشرے کے اندر سْیاہ فام لوگوں کیلئے.
اسکے بھد مینو نی( Octave Mannoni) کے ورک( Dependency Theory) کا حوالہ دیتے ھیں جہاں وہ کہتے ھیں کہ inferiority complex سْیاہ فام لوگوں کے اندر اسلیئے آیا کہ اُن کی تعداد کم تھی اور اپنے آپکو غیر تیذیب یافتہ (uncivilised) سمجھنے لگے اور گورے لوگوں کو اپنے سے تہذیب یافتہ پرکھنے لگے اور وہ احساس ءِ کم تری کا شکار ھوتے چلے گئے، لیکن فینن اُس کی اس تھیوری کو رد کر کے کھتا ھے کہ ایسی سوچ سْیا ہ فام لوگوں کے اندر کبھی نھیں تھی بلکہ اس سوچ کو قبضہ گیر ملک(colonizers) نے پیدا کیا ھے تاکہ اُن کی پہچان (identity) ختم ھوجائےتاکہ وہ وحشی کھلائے جائیں اور انہوں نے اپنی ثقافت کو انکے اگے بڑا(superior) پیش کیا پھر وہ اس نسلی تعصب کا شکار ہوئے. فنن کہتا ھےکہ مینونی نے کیربین( Black skin people) کے کلچر کے بارے میں سہی طریقے سے ریسرچ نہیں کیا.
وہ مزید کہتا ہے کہ سفید لوگوں کے معاشرے میں رہنا بہت مشکل ھے سْیاہ فام لوگوں کیلئے کیونکہ وہ اپنے اپکو ایڈجسٹ کر نہیں پارہے ہیں اور اُن کو (categorised) کیا گیانسلی فرقے میں اور اُن کو انسان نہیں سمجھتے ہیں اُن کے مھاشرے میں. فینن اپنی آپ بیتی بتاتے ھوئے کہتا ھے کہ جب وہ فرانس کے سڑکوں پر گھوم رہے تھے تو ایک سفید جِلد لڑکا(white child) کہتا ہے کہ دیکھو سْیاہ فام آدمی کو (looks a Negro) یہ سُن کر مجھے خراب لگا اور افسوس ہوا کہ اس بچے نے مجھے کیوں انسان نھیں سمجھا. پھر وہ کہتا ھے کہ سْیاہ فام لوگوں کو اُن کی جِلد کی وجہ سے ٹارگیٹ کیا گیا اور پھر ان کو اپنے آپ سے نفرت ھونے لگا جیسا کہ اُنہوں نے یہودی کو بھی اسی طرح ٹارگیٹ (Racial discrimination)کیا گیا اُن کی مذہب (Faith) کی بنیاد سے لیکن ھوسکتا ھےکہ کل وہ اپنے مذہب (Faith) تبدیل کردیں لیکن سْیاہ فام لوگ اپنی سْیاہ جِلد کو کسے تبدیل کریں گے؟
وہ کہتا ھے سْیاہ فام بچوں کو بچپن میں اُن کے فیملی کی جانب سے اپنے کہانیوں (stories) میں سفید لوگوں کو ھیروز کی طرح پیش کرتے تھے اُن کے اپنے معاشرے کے اندر اور اسی وجہ سے وہ (Abandoment Neurosis ) کے شکار ہوتے چلے گئے. وہ کہتا ہےکہ سفید جِلد (White People) والے لوگوں نے سْیا ہ جِلد لوگوں کو اتنا isolate کیا یہاں تک کہ وہ اپنے عورتوں کو لے کر بہت سریس ھوتے تھے اور اُن(Women) کو سْیاہ جِلد لوگوں سے دور رکھتے تھے کیونکہ کہ وہ ان کے سْیا ہ جِلد سے ڈرتے تھے جیسےکہ وہ یہودیوں سے اپنے عورتوں کو دور رکھتے تھے۔
وہ پھر الفریڈ ایڈلہ کے کام (Work) کا حوالہ دیتے ہیں جہاں وہ کہتا ھے کہ ایسے (psychological) مسئلے ھوتے ھیں کیوں کہ ایک انسان دوسرے انسان کو دیکھ کر اُسی کو کاپی کرتا ھے اور اپنے اپکو اُسی طرح دیکھنا چاہتا ہے اور اسی طریقے سے جج کرنے کی کوششش کرتا ھے اور اسکی وجہ سے سائیکالوجیکل بیماریاں پیدا ھوتے ھیں جیسے کہ سْیاہ فام لوگوں نے گوروں (White People) کو اپنایا تھا اور پھر اُن کے اندر یہ خواہش پیدا ہوئی کہ وہ اُن (White People) کی طرح بنیں لیکن فینن الفریڈ کی اس بات کو رد کرتے ھوئے کہتا ہے کہ یہ چیزیں معاشرتی (Societal) ہوتی ہیں اور ایسی ذہنیت بنائی گئی ہے قبضہ گیر مُلکوں(colonizers) نے معاشرے کے اندر ۔۔اور یہ چیز یں پہلے سے موجود نھیں ھوتی، فینن کھتا ھے اگر مسئلوں کو ختم کرنا ھے تو لوگوں کو تعلیم دینا ھے تاکہ اُن کی یہ سوچ تبدیل ھو اور پھر سْیاہ فام ایسی(Psychological) بیماری کا شکار نہ ھوں.
وہ کہتا ہےکہ ھمیں چاہیےکہ ھم اپنے لوگوں کو اچھی طرح شعوردیں، غلامی کب کا ختم ھوچکا ھے لکین پھر بھی ایسے سوچ ھمارے مھاشرے میں موجود ہیں آقا اور غلام کا سوچ ابھی بھی برقرار ھے لکین اُن کے فامز(forms) الگ الگ ھیں.
اخر میں فنن کارل مارکس کے تھیوری کا حوالہ دیتے ھوئے کہتا ھےکہ آج معاشرےمیں ابھی بھی قبضہ گیری اور Exploitation کا وجود برقرار ھے اور ابھی بھی آذاد نہیں ھوئے ھیں ھم لوگ، اور ھم لوگوں کو ان چیزوں کے بارے میں غوروفکر کرنا اور مھاشرے کے اندر برابری لانی ہوگی کیونکہ ہر آدمی ایک dignity چاہتا ہے اور یہ چیزیں تب ممکن ھوں گی جب اپ کا معاشرہ پڑھا لکھا ھوگا۔