لندن (ہمگام نیوز)سٹاک ہوم انٹرنیشنل پیس ریسرچ انسٹی ٹیوٹ (SIPRI) نے سال 2023ء کے لیے دنیا کے مختلف ممالک کے فوجی اخراجات پر اپنی رپورٹ شائع کی ہے۔ رپورٹ کے مطابق ایران نے گذشتہ سال تقریباً 10 ارب 300 ملین ڈالر یعنی تقریباً ملک کی مجموعی پیداوار کا2.1 فیصد دفاع پر خرچ کیا جو کہ جرمنی، فرانس، ترکیہ، اٹلی، آسٹریلیا، نیدرلینڈز اور کینیڈا سے زیادہ ہے۔
ایران میں اس شعبے سے متعلق مختلف اداروں کے تمام فوجی اخراجات کی نگرانی کرنے والی سیپری رپورٹ کے مطابق 2022ء کے مقابلے میں ایرانی فوجی اخراجات کے حجم میں 16 فیصد اضافہ ہوا ہے۔
اس ادارے کے ایک سینیر مینیجر نان تیان نے امریکی فارسی ریڈیو ’فردا‘ کو سرکاری کرنسی اور آزاد منڈی کی قیمتوں کے درمیان فرق کو دیکھتے ہوئے مختص بجٹ کے حساب کتاب کے طریقہ کار کے بارے میں بتایا۔
رپورٹ کے مطابق ایران نے مقررہ تبادلے کے بجائے حکومت کی طرف سے مقرر کردہ شرح میں یونیفائیڈ کرنسی ٹریڈنگ سسٹم کی قیمت کا استعمال کیا۔
تیان نے مزید کہا کہ “اس تحقیق میں ہم نے تمام فوجی اخراجات کا مطالعہ کیا اور ان کو مدنظر رکھا جن میں پاسداران انقلاب، فوج، دیگر تنظیموں جیسے کہ فضائیہ، ایرانی ایرو اسپیس انڈسٹریز کارپوریشن کے اخراجات، سائنس و تحقیق سے متعلق اخراجات، ایرانی مسلح افواج میں ترقی اور دیگر شعبوں کے اخراجات شامل ہیں‘‘۔
ریڈیو فردا کا خیال ہے کہ سیپری کی جانب سے رپورٹ میں ایران کے تمام فوجی اخراجات کو شامل کرنے پر زور دینے کے باوجود عسکری اداروں کی شفافیت کے فقدان اور رہبر معظم انقلاب آیت اللہ خامنہ ای سے متعلق ذیلی زمرہ جات پر ہونے والے اخراجات میں شفافیت کا فقدان ہے۔ مختلف تنظیموں سے متعلق بجٹ کا کچھ حصہ جن اداروں کے پاس غیر فوجی بجٹ ہوتا ہے وہ اسے فوجی شعبے پر خرچ کرتے ہیں جس کی وجہ سے فوجی اخراجات کا درست حساب کتاب ناممکن ہو جاتا ہے۔
نان تیان تبصرہ کرتے ہیں کہ “ہمارے پاس سرکاری اعدادوشمار کا حوالہ دینے کے علاوہ کوئی راستہ نہیں ہے۔ اس بنیاد پر ہم حکومتوں کی طرف سے اپنے منظور شدہ بجٹ میں بتائے گئے اعداد کی بنیاد پر اپنی تحقیق پر نظر ثانی کر سکتے ہیں”۔
SIPRI انسٹی ٹیوٹ میں فوجی اخراجات کے مطالعہ کے پروگرام کے سربراہ نے مزید کہا کہ “ہم نے ایرانی پاسداران انقلاب، فوج اور پوری ایرانی مسلح افواج سے متعلق اخراجات کا مطالعہ کیا لیکن ہم سرکاری اعدادوشمار کے علاوہ کسی اور چیز پر بھروسہ نہیں کر سکتے”۔
ایرانی پاسداران انقلاب کے اخراجات کے بارے میں رپورٹ میں اس بات کی تصدیق کی گئی ہے کہ یہ عسکری ادارہ جس کے کنٹرول کا دائرہ اب صرف فوجی میدان تک محدود نہیں ہے بلکہ ایران میں معیشت، سیاست اور ثقافت کے بڑے شعبوں پر بھی غلبہ رکھتا ہے اس نے مسلسل حالیہ برسوں میں اپنے فوجی بجٹ میں اضافہ کیا ہے۔
اسٹاک ہوم پیس ریسرچ انسٹی ٹیوٹ کی رپورٹ کے مطابق 2019ء میں ایرانی پاسداران انقلاب کے فوجی اخراجات کا حصہ ایران میں اس شعبے میں ہونے والے کل اخراجات کا تقریباً 27 فیصد تھا اور 2023 میں یہ تناسب بڑھ کر 37 فیصد ہو گیا۔
سیپری رپورٹ میں جن دیگر معاملات پر توجہ نہیں دی گئی ان میں مشرق وسطیٰ کے مختلف خطوں میں ایرانی ملیشیا اور پراکسی گروپس کا مسئلہ اور تہران کی جانب سے ان کے لیے مختص رقم شامل تھی۔
نان تیان کا کہنا ہے کہ یہ معلومات حاصل کرنے کا کوئی طریقہ نہیں ہے اور چونکہ رپورٹ صرف سرکاری اخراجات کو دیکھتی ہے اس لیے ادارے کے پاس ملیشیا کے اخراجات کا حساب لگانے کے لیے ضروری معلومات نہیں ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ “ممکن ہے کہ مختص بجٹ کا ایک حصہ مسلح افواج کے لیے مختص کیا گیا ہو لیکن ہمارے پاس ان مقداروں کا حساب کرنے کی صلاحیت نہیں ہے”۔
2023ء کے آخری مہینوں اور 2024 کے آغاز میں مشرق وسطیٰ کے خطے میں کشیدگی کی شدت نے تنازعات کے پھیلنے کا خدشہ بڑھا دیا ہے۔ یہ مسئلہ دنیا کے مختلف ممالک بالخصوص مشرق وسطیٰ کے لیے فوجی اخراجات میں اضافے کا باعث بنے گا۔ تاہم نان تیان کا کہنا ہے کہ ایران کے فوجی بجٹ میں اضافے کی تصدیق کے لیے کوئی ثبوت نہیں ہے۔
اس رپورٹ کے مطابق 2017ء میں ایران نے اپنی جی ڈی پی کا 2.1 فیصد فوجی شعبے پر خرچ کیا جو کہ جرمنی، فرانس، چین، جاپان، اٹلی، اسپین، آسٹریلیا، ترکیہ، ہالینڈ اور کینیڈا جیسے ممالک سے زیادہ ہے۔ تاہم امریکہ، روس، یوکرین، بھارت، اسرائیل اور جنوبی کوریا جیسے ممالک کے مقابلے میں ایران نے اپنے جی ڈی پی کا ایک چھوٹا حصہ فوجی امور کے لیے مختص کیا ہے۔
2023ء میں، ایران کی طرح فرانس نے بھی اپنی جی ڈی پی کا 2.1 فیصد فوج اور اسلحے پر خرچ کیا جو 61 ارب ڈالر سے زیادہ کے برابر ہے۔
سیپری کا کہنا ہے کہ 2023ء میں عالمی فوجی اخراجات میں ایران کا کل حصہ 14 فیصد ہے۔