بلوچستان میں جاری حالیہ آپریشنوں کی لہر اپنے مکمل شدت کے ساتھ تاحال جاری ہے اور ہر گذرتے دن کے ساتھ لاپتہ افراد اور بلوچ شہداءکی تعداد میں خطرناک حد تک اضافہ ہوتا جارہا ہے ، تازہ ترین اطلاعات کے مطابق گذشتہ دو ہفتوں کے دوران کوئٹہ ، مستونگ اور نوشکی سے اغواءکیئے گئے بلوچوں کی تعداد اب درجنوں میںہے جبکہ بلوچستان کے علاقے آوران میں پاکستانی خونریز آپریشن اور محاصرہ اب نویں روز میں داخل ہوچکا ہے ۔ عینی شاھدین کے مطابق آج سے نو دن پہلے عیدالفطر کے روز شروع ہونے والے آپریشن میں اب تک...
بلوچستان میں قابض پاکستان کے ہاتھوں بلوچ نسل کشی کی تاریخ نئی نہیں ہے ، لیکن گذشتہ طویل عرصے سے سول آبادیوں پر بمباریوں ہزاروں کی تعداد میں بلوچوں کو ماورائے قانون اغواءاور سینکڑوں کی تشدد زدہ مسخ شدہ لاشوں کو بلوچستان کے طول و عرض میں پھینکنے کے باوجود اقوام متحدہ ، مغربی ممالک اور انسانی حقوق کے علمبرادار عالمی اداروں کی حیران کن خاموشی سے حوصلے پاکر اب قابض ملک پاکستان نے بلوچ آبادیوں پر یلغار اور بلوچ نسل کشی میں ہوشربا تیزی پیدا کردی ہے اور اس پر طرہ بلوچستان خاص طور پر اندرون بلوچستان...
(ہمگام اداریہ)
بلوچستان میں قابض ریاست پاکستان اپنے پورے قوت کے ساتھ حملہ آور ہونے کی ناصرف واضح اشارے دے رہا ہے بلکہ گذشتہ طویل عرصے سے جاری بلوچ آبادیوں پر ٹارگٹڈ آپریشن کو وسعت دیکر وسیع پیمانے اور مزید شدت کے ساتھ پھیلانا چاہتا ہے جس کا آغاز گذشتہ دنوں کوہلو کے علاقوں جھبر ،نساو ، سیاہ کوہ ، اندرا اور چھپر میں اپنے دور مار توپوں ، سینکڑوں فوجیوں اور جیٹ طیاروں و ہیلی کاپٹروں سے حملہ آور ہوکر کئی معصوم جانوں کو ضائع کرنے کا سبب بنا ، ببانگ دہل آپریشن اور جیٹ طیاروں کا اعلان یہ...
(ہمگام اداریہ)
ذاکر مجید بلوچ ان ہزاروں بلوچ نوجوانوں میں سے ایک ہیں جنہیں ماورائے عدالت جبری طور پر پاکستانی خفیہ اداروں نے اغواء کرکے لاپتہ کردیا ہے ، انہیں 8 جون 2009 کی شام پاکستانی خفیہ اداروں نے مستونگ بلوچستان کے علاقے پڑنگ آباد سے اغواء کرکے نامعلوم مقام پر منتقل کردیا ، اس واقعے کو چھ سال گذرچکے ہیں لیکن آج تک انکے بارے میں کوئی معلومات نہیں مل سکی اور نا ہی انکے خیریت کے بابت کوئی خبر آسکی ہے ، چھ سالوں کے اس طویل عرصے میں انکے بازیابی کیلئے احتجاج کے ہر ممکن طریقے آزمائے...
گذشتہ دنوں مستونگ کے علاقے کھڈ کوچہ کے مقام پر نامعلوم مسلح افراد نے دو مسافر بسیں روک کر ان میں سے متعدد افراد کو بندوق کے نوک پر اتار کر پہاڑوں کی طرف لے گئے جہاں انکی شناخت کرکے بلوچ اور پشتونوں کو الگ الگ کیا گیا اور بعد ازاں 22 پشتونوں پر قریب سے فائر کرکے انہیں قتل کردیا گیا جن میں سے تادم تحریر 20 کی شناخت ہوچکی ہے ۔ اس انسانیت سوز واقعے کے خلاف کم و بیش تمام بلوچ قوم پرست جماعتوں کی طرف سے مذمتی بیان آچکے ہیں ، کل تک بلوچ قوم...