بلوچ قوم کئی دہائیوں سے جبری گمشدگی اور "مارو اور پھینکو" جیسی پالیسیوں کا شکار ہے۔ روزانہ تعلیمی اداروں کے طلبہ اور گھروں کے چراغوں کو زبردستی اٹھایا جاتا ہے، گھروں کی چادر اور چار دیواری کی پامالی معمول بن چکی ہے۔ انہیں سیاہ زندانوں میں اذیتیں دی جاتی ہیں، اور بعد میں ان کی مسخ شدہ لاشیں ویرانوں میں پھینک دی جاتی ہیں۔
یومن رائٹس کونسل آف بلوچستان کی جاری کردہ رپورٹ کے مطابق، فروری 2025 میں 144 بلوچ جبری گمشدگی کا شکار ہوئے، جن میں سے 46 کی مسخ شدہ لاشیں ملی ہیں۔ نومبر 2024 میں 118 بلوچ...
بلوچ قوم کئی دہائیوں سے جبری گمشدگی اور "مارو اور پھینکو" جیسی پالیسیوں کا شکار ہے۔ روزانہ تعلیمی اداروں کے طلبہ اور گھروں کے چراغوں کو زبردستی اٹھایا جاتا ہے، گھروں کی چادر اور چار دیواری کی پامالی معمول بن چکی ہے۔ انہیں سیاہ زندانوں میں اذیتیں دی جاتی ہیں، اور بعد میں ان کی مسخ شدہ لاشیں ویرانوں میں پھینک دی جاتی ہیں۔
یومن رائٹس کونسل آف بلوچستان کی جاری کردہ رپورٹ کے مطابق، فروری 2025 میں 144 بلوچ جبری گمشدگی کا شکار ہوئے، جن میں سے 46 کی مسخ شدہ لاشیں ملی ہیں۔ نومبر 2024 میں 118 بلوچ...
آج سے بیس سال قبل، 17 مارچ 2005 کو بلوچستان کے ضلع ڈیرہ بگٹی میں پاکستانی فوج نے شدید فضائی اور توپ خانے کی بمباری کی، جس کے نتیجے میں 70 سے زائد افراد شہید ہوئے۔ شہداء میں بڑی تعداد ہندو برادری کے افراد کی تھی، جو شہید نواب اکبر خان بگٹی کے قلعے کے اطراف رہائش پذیر تھے۔ اس حملے میں بلوچ رہنما شہید نواب اکبر خان بگٹی کے اہل خانہ بھی زخمی ہوئے، تاہم نواب بگٹی معجزانہ طور پر محفوظ رہے۔
پس منظر اور واقعات
بلوچستان میں فوجی چھاؤنیوں کے قیام کے خلاف مزاحمت کا آغاز اس وقت ہوا...
آج رات جیسے ہی گھڑی کی سوئیاں بارہ پر پہنچیں گی، تاریخ بدل جائے گی اور 18 مارچ 2025 کا سورج طلوع ہوگا۔ تو ایک درد ناک دن کا ابتداء ہوگا۔ یہ وہی دن ہے جب تین سال پہلے، 18 مارچ 2022 کو، میرے کزن شہید صبغت اللہ بلوچ کو پنجگور کی تحصیل پروم میں فرنٹیئر کور نے بے گناہ فائرنگ کر کے شہید کر دیا تھا۔ آج ان کے ماورائے عدالت قتل کو تین برس بیت چکے ہیں، مگر قاتل آج بھی آزاد گھوم رہے ہیں، کیونکہ ریاست انہیں اپنا محافظ سمجھتی ہے اور ان کے جرائم پر...
تاریخ اس حقیقت کی گواہ ہے کہ گزشتہ دو دہائیوں، بلکہ اس سے بھی پہلے، طلبہ دشمن پالیسیاں نہ صرف تشکیل دی جاتی رہی ہیں بلکہ وقت کے ساتھ ان میں شدت آتی گئی ہے۔ یہ پالیسیاں تعلیمی اداروں کو علمی اور فکری ارتقا کے مراکز بنانے کے بجائے جبر، خوف اور غلامی کے اڈوں میں تبدیل کرنے کا ہتھیار بن چکی ہیں۔ ماضی ان جابرانہ تدابیر کی واضح عکاسی کرتا ہے، اور اس حقیقت کا انکار ممکن نہیں۔ تاہم، حالیہ دنوں میں ان پالیسیوں کو مزید سختی سے نافذ کیا جا رہا ہے، جس کے نتیجے میں تعلیمی...