بلوچستان کی انتخابی اکھاڑا اور ” امیدوں ” کے قاتل داد شاہ بلوچ ابھی پاکستان میں الیکشن کی گہما گہمی ہے، ہر پانچ سال یا دو اور تین سال بعد یہ الیکشن کی بے ہنگم شور تواتر کے ساتھ چلتا رہتا ہے، کون جیتا کون ہارا، کس نے اکثریت لی کون حکومت سازی کریگا اور کون اپوزیشن میں بیٹھے گا، یقین مانیے پاکستان بھر کی عوام بالخصوص دیہی اور دور دراز کے علاقوں کے لوگوں کو اس سے کوئی سروکار نہیں رہتا ان غریب اور نادار لوگوں کے لیئے الیکشن کا مہینہ کمانے کا مہینہ ہوتا ہے جس طرح رمضان کا مہینہ ثواب کمانے کا مہینہ مانا جاتا ہے ٹھیک اسی طرح الیکشن کا مہینہ بھی عام اور غریب لوگوں کے لیئے ہوتا ہے، کسی کی نوکری لگ جاتی ہے، کسی کی ادھاری چکائی جاتی ہے، کسی کو گھر بنا کر دیا جاتا ہے کسی کو پیسے دیئے جاتے ہیں، کسی کی ضرورتیں پوری کی جاتی ہیں اور اکثریت کو بس آسرے پرہی چھوڑا جاتا ہے، وعدے وعیدوں کی ایک نا ختم ہونے والا سلسلہ چل پڑتا ہے، کسی کو کچھ ہاتھ لگ جاتا ہے اور باقی اکثریت سے کیئے ہوئے وعدے کبھی وفا نہیں ہوتے، نظریاتی بنیادوں پر سیاست کم از کم پاکستان میں ناپید ہے اسی لیئے کوئی بھی پارٹی تواتر کے ساتھ حکومت بنانے میں ہمیشہ ناکام رہی ہے ہر دوسرے دور میں کسی نئی پارٹی کو مقتدرہ قوتوں کی امداد و ایماء پر حکومت مل جاتی ہے اس میں کچھ تو غیر نظریاتی سیاست کی وجوہات ہیں اور باقی کا کام خدائی نہیں بلکہ ” خلائی خدمت گاروں کی مرہون منت ہے، خیبر سے کراچی اور اسلام آباد سے کوئٹہ تک انتخابی جوڑ توڑ میں خلائی خدمت گاروں کی کردار تسلیم شدہ حقیقت ہے، پاکستان میں کوئی ایسا الیکشن نہیں رہا جہاں ان خلائی خدمتگاروں نے اپنی زور بازو کو نہ آزمایا ہو، اسلام آباد لاہور اور کراچی جیسے بڑے شہروں میں بھی ان کی پیروں کے نشان پائے جاتے ہیں باقی بلوچستان کے زرائع ابلاغ سے محروم کونے کھدرے میں پڑے ہوئے دیہات اور چھوٹے شہروں کی تو بات ہی نہ کریں کہ وہاں کیا کیا ہوتا ہوگا اور بڑے دھڑلے سے وہ اس بات سے انکاری بھی رہتے ہیں کہ ان کا اس کام میں کوئی ہاتھ نہیں ہے، خود بلوچستان میں جوڈ تھوڑ کی سیاست کے پیمانے کیا ہونگے اور وہاں مقتدرہ حلقوں کی دخل اندازی کا کیا حال رہا ہے وہ سبھی کو بڑے اچھے سے معلوم ہے۔ ہمارا مسئلہ پاکستانی الیکشن کا ہونا یا نہ ہونا نہیں ہے، ہمارا مسئلہ بلوچستان سے جڑا ہوا ہے جہاں ایک جنگ جاری ہے جسے ہم مکمل آذادی کی حصول کی خاطر کی جانے والی جد و جہد سے تعبیر کرتے ہیں، اگر مطمع نظر آذادی اور قومی حق حاکمیت ہے تو پھر ریاست کی طرف سے کی جانے والی الیکشن یا سلیکشن کا کھیل ہمارے لیئے ان بنیادوں پہ کوئی معنی نہیں رکھتا کہ وہ شفاف ہونگے، غیر شفاف ہونگے، ان میں دھاندلی ہوگی نہیں ہوگی، لوگوں کو دباؤ سے زیر کیا جائے گا، انکو جتوایا یا ہروایا جائے گا، کونسے لوگ برسرِ اقتدار آئینگے اور کون سے لوگوں کو الیکشن کے اس نام نہاد عمل سے دور رکھا جائیگا، کیونکہ بحیثیت ایک غلام قوم کے ہمیں معلوم ہے کہ بلوچستان میں کارفرما پالیسیوں کا منبع کبھی بھی صوبائی یا وفاقی پارلیمان نہیں رہا ہے کہ جہاں بزعم خود لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ وہ اس قانون ساز اسمبلی کے رکن ہیں اور پوری ملک یا ملک میں موجود سبھی اکائیوں کے لیئے قانون سازی کرتے ہیں، یہ معلوم ہونے کے ساتھ ساتھ ہم کو یہ بھی معلوم ہے کہ بلوچ کا رشتہ پاکستان کے ساتھ کل میں سے کسی اکائی یا عدد کی نہیں بلکہ آقا و محکوم اور غلام وقبضہ گیر کا ہے سو اس میں اگر یہ جیتنے اور منتخب ہونے والے نمائندگان بااختیار ہوتے اور قانون سازی بھی انہی منتخب نمائندوں کے پاس ہوتی بھی تو بلوچ قوم کے بنیادی قومی وحدت اور اسکی آزادانہ حیثیت کے سوال کے جواب دینے سے یہ لوگ پھر بھی قاصر ہی رہتے، کیونکہ پاکستانی پارلیمان اور قانونی کتاب میں کسی مقبوضہ علاقے کی آذادی کے سوال کا جواب نہیں ملتا، لیکن چونکہ ایسا نہیں ہے اور بلوچستان میں بننے والی جی ایچ کیو کی پالیسیاں بذریعہ سدرن کمانڈ ہی ترتیب پاتی ہیں اور اس میں کسی کا کوئی بس نہیں چلتا، چاہے وہ منتخب عوامی نمائندہ ہو، سرکاری آدمی ہو عوامی سطح کا منجھا ہوا سیاستدان ہو یا پھر کوئی سردار یا میر و معتبر ہو، بلوچستان کے بند و بست میں بس وہی پالیسیاں بنتی اور چلتی رہینگی جو کہ مقتدرہ حلقے یعنی فوج اور فوج سے جڑے دوسرے ریاستی ادارے چاہتے ہیں، ویسے تو بلوچستان میں سب کے سب آزمائے ہوئے ہیں لیکن اب کی بار ریاست کی اس غلامی کی علامت یعنی پارلیمنٹ کو تابندہ و رخشندہ بنانے کے واسطے اور بلوچ عوام کے سادگی کو مزید استحصال میں بدلنے کی راہ ہموارکرنے کے لیئے سردار اختر مینگل المعروف ( ڈرائیور اعظم ) کی طرف سے مکران کے ادیب و دانشور جان محمد دشتی کو قومی اسمبلی کے امیدوار کے طور پر سامنے لایا ہے، جان محمد دشتی المعروف ( شے رگام ) ادب کے حوالے سے یقینا ایک گران قدر نام ہونگے اسکی خدمات بلوچی زبان و ادب کے لیئے قدر کی نگاہ سے دیکھے جاتے ہیں اور دیکھے جانے چائییے لیکن ادب کی قدر و منزلت قومی منزل و مقصد کی قیمت پر ہرگز قبول نہیں کی جاسکتی سو اس میں کسی تذبذب اور سراسیمگی کا شکار ہوئے بغیر بلا خوف تردد کہا جائے کہ جان محمد دشتی اور حاصل بزنجو میں سیاسی کردار کے حوالے سے کوئی زرہ برابر فرق نہیں ہے، کیونکہ دونوں اسی پارلیمنٹ میں جانے کو پر تول رہے جو بے اختیار تو ہے ساتھ میں بلوچ کے خون بہانے کی جرم کا ساجھے دار بھی، دیگر حوالوں سے فرق ہوتا ہوگا لیکن جب جان محمد دشتی نے از خود یہ فیصلہ کیا ہے کہ وہ وہی سیاست کریگا جو کہ اسکی پارٹی کے سربراہ اختر مینگل 1998 میں ایٹمی دھماکوں کی صورت میں کرچکے ہیں اور اسکے ہمسایے ڈٓاکٹر مالک و اسکے حواری 1988 سے کرتے چلے آرہے ہیں، وہی جان محمد دشتی جو کہتے ہیں کہ وہ بلوچ عزت نفس اور اسکی سرزمین و وسائل کا سودا نہیں کریں گے، یا تو ہمیں سمجھ نہیں آتی کہ پارلیمنٹ بااختیار نہیں ہے یا پھر جان محمد دشتی کو کیونکہ ایک ویڈیو میں جہاں جان محمد دشتی اسٹیج پر کھڑے لوگوں سے بات چیت کررہے ہیں جب وہ ” فوج ” کا نام لینا چاہتے ہیں لیکن لے نہیں سکتے اور اسے فووووووووو کہہ کر بات گھول کر دوسری طرف گھماتے ہیں یہیں سے اندازہ ہوجاتا ہے کہ وہ آگے چل کر کتنے بااختیار ہونگے، جان محمد دشتی اگر دشمن نہیں تو دشمن کے کام کو برملا آسان کرنے کی دانستہ یا نادانستہ کوشش ضرور کررہے ہیں، کسی بھی بلوچ کی بلوچی زبان، ثقافت، تہذیب و تمدن کے حوالے سے کی گئی کام اس وقت تک قابل قدر رہ پائیگی جب تک وہ بلوچ اجتماعی مفادات کے ساتھ مخلص اور انکی خیر خواہ ہو، کل اگر پارلیمنٹ میں جاکر جان محمد دشتی بلوچ پر ہونے والی مظالم کی پیمانے کو ذرا بھی کمتر کرسکیں تو میں پہلا شخص ہونگا اسکی اس خدمت کی اعتراف کا مگر جان محمد دشتی کو یہ سمجھنا لازم ہے کہ یہ ریاستی قوتوں کا جبر یکطرفہ نہیں ہے بلوچ پر ہونے والی جبر اسکی آزادی کے جد و جہد کا نتیجہ ہے جو آزادی کے بعد ہی اختتام پذیر ہوسکے گی، اگر جان محمد دشتی و اختر مینگل سمجھتے ہیں کہ وہ جبر کو ختم کرسکتے ہیں تو اسکا مطلب ہے کہ وہ قومی آذادی کی صورت میں اس جبر و جبر کے سوداگروں کا خاتمہ کردیں گے، بصورت دیگر بلوچ قوم کا اس خطے سے مٹ جانا ہی جبر کو کسی نقطہ اختتام تک لاسکتا ہے، وگرنہ کوئی تیسری راہ ہمیں نظر نہیں آتی۔ بلوچستان میں انتخابی عمل کو قوم کے دکھوں کا مداوا جان کر لوگ اس پارلیمنٹ کا حصہ بھی بنے اور وہاں مقصد بھی قومی مفادات سے جڑی ہوئی ہوتی تھی، وہ الگ بحث ہے کہ صوبائی خود مختاری و وسیع تر اختیارات کا حصول بلوچ کے دکھوں کا مداوا تھا کہ نہیں تھا، لیکن ستر کے ابتدائی دنوں میں بلوچ اسی سوچ کے تحت پارلیمنٹ میں گیا، پاکستان میں باقاعدہ انتخاب تو اسکے تخلیق کے 23 سال بعد یعنی 1970 میں جاکر ہوئے اس سے پہلے کسی انتخابی عمل کی باری نہیں آئی، 1970 میں بلوچستان میں نیپ نے حکومت بنائی یہ حکومت خالصتا قوم پرست حکومت ہر گز نہیں تھی بلکہ نیپ میں شامل زیادہ تر لوگ دائیں بازو کے سوچ رکھنے والے تھے، وہ قوم پرست سردار ضرور تھے لیکن اس وقت خطے کی زیادہ تر رجحانات سوویت یونین کے کمیونسٹ بند و بست پر تھے بلوچ اور پشتون بھی اس سے بچ کر نہ رہ سکے، 1970 میں انتخابات لڑ کر آنے والے لوگ کیا وہ قوم پرست تھے یا نہیں تھے، بائیں بازو کے رجحانات رکھتے تھے یا نہیں یا زیادہ بائیں بازو کے سیاست کے گرویدہ تھے یا پھر قوم پرستی کے دلدادہ تھے ان تمام سوالوں کے برعکس ان میں ایک چیز قابل دید تھی وہ تھی اپنے علاقے، اپنی کاز، لوگوں سے کیئے ہوئے وعدوں اور اپنی پارٹی سے اخلاص اور وفاداری کے ساتھ ساتھ مقتدرہ حلقوں کی مفادات کی چوکیدار بننے کے بجائے وہ غریب و پوریا گر کے آواز بننے کے زیادہ قریب تر تھے، چونکہ ستر کے انتخابات کے بعد ون یونٹ ختم ہوچکی تھی اور سب صوبوں کی اپنی اپنی حیثیت بحال ہوچکی تھی اس لیئے ون یونٹ کے دور میں پنجاب سے درآمد کرکے لائے ہوئے نوکر شاہی کی بڑی تعداد کو بلوچستان کے وزیر اعلی سردار عطااللہ خان مینگل نے کہا کہ وہ اپنے اپنے صوبوں میں واپس چلے جائیں، مسئلہ جب گھمبیرتا کی طرف چلی گئی تو عطااللہ مینگل کی حکومت نے یہ رلیف ضرور دی کہ جو لوگ عرصہ دراز سے یہاں آباد ہیں ان کو مقامی تصور کیا جائیگا مگر جو لوگ محض نوکرشاہی کی اختیارات کو سنبھالنے اوربند و بستی امور کو چلانے کے لیئے بلائے گئے ان کو بہرحال واپس جانا ہوگا، بعد میں پاکستان پیپلز پارٹی اور پنجاب کے اس وقت کے وزیر اعلی غلام مصطفی کھر کے مبینہ ترغیب پر جب پنجاب کے تمام نوکر شاہی بلوچستان چھوڑ کر چلی گئی تو ایک انتظامی بحران نے سر اٹھایا اور حالات اس نہج پر پہنچے کہ عطاللہ خان مینگل کوبسیارے معاملات میں بلوچ طلبہ تنظیم کی مدد لینی پڑی، اس سے یہی معلوم ہوتا ہے کہ اس وقت تک پارلیمانی سیاست میں شامل ہونے والے لوگ سیاسی اور فکری بنیادوں پر کرپٹ نہیں تھے وہ بلوچستان کے لیئے حقیقی بنیادوں پر زیادہ سے زیادہ حق خود اردیت چاہتے تھے جو کہ بالاخر ان کی حکومت کی اختتام پر منتج ہوئی لیکن اس وقت کی انتخابی مہم یا مقصد نلکا نالی سڑک صحت اور دیگر ایسی سطحی چیزیں ہرگز نہیں تھیں بلکہ وہ لوگ بلوچستان کی وسیع تر اختیارات کو حاصل کرکے پھر بلوچستان کے انھی وسائل سے ان تمام ثانوی چیزوں کی فراہمی کا سامان کرنا چاہتے تھے، لیکن نواب بگٹی کی سازش اور لندن پلان، عراقی سفارتخانے میں موجود اسلحے کی کیپ اور غوث بخش بزنجو کی ایران کے دورے کے دوران ہونے والی مبینہ بات چیت نے مل کر بھٹو کو رستہ فراہم کیا اور یہ حکومت ختم ہوئی اور مفتی محمود کی حکومت نے سرحد کی صوبائی حکومت سے احتجاجا استعفی دے دیا تھا، اسکے بعد گورنر راج اور پھر ضیاالحق کا مارشل لا یعنی 1970 کے بعد پھر 1988 کو جاکر الیکشن ہوئے اور یہی سے پہلی بار انتخابی سودے بازی کا کھیل بلوچستان کے اندر ان لوگوں نے شروع کی جو کہ ماضی میں سحرِانقلاب کی نوید لے کر بستی بستی کریہ کریہ گھومتے ہوئے آذاد بلوچستان کے نعرے بلند کیا کرتے تھے۔ بی ایس او سے فراغت کے بعد ڈاکٹر مالک و دیگر نے پہلے تو بی این وائی ایم بنالی مگر خاطر خواہ نتائج کی حصول میں ناکام نظر آنے کی صورت میں بی ایس او ایک اور سابقہ چئیرمین ڈاکٹر عبدالحئی کے ساتھ ملکر بی این ایم کے نام سے پارٹی بنا لی اور اس وعدے کے ساتھ پارلیمنٹ میں جانے کی بات کی کہ وہاں جاکر وہ بلوچ قومی حق حاکمیت و ساحل و وسائل پر اختیارات کی بات کو پاکستانی اداروں سمیت دنیا کے سامنے رکھیں گے، اس ضمن میں وہ بی این اے کی اتحاد کی شکل میں نواب بگٹی کی حکومت میں پہلی بار حصہ ٹہرے اس وقت تک نواب خیربخش مری افغانستان اور عطاللہ مینگل و دیگر لندن میں خود ساختہ جلاوطنی کی زندگی گزار رہے تھے، اس سے یہی واضح ہوجاتا ہے کہ 1970 کے باضابطہ ریاستی الیکشن کے بعد 1988 کے انتخابات محض دوسری باری تھی اور یہی وہ سال تھا جہاں بی ایس او کے ان سابقہ لیڈروں نے قومی سوچ کو قومی حق حاکمیت، وسیع تر اختیارات کی حصول اور بلوچ وسائل پر کھلی اختیار پانے کی حقیقی جد و جہد سے ہٹاکر نلکا نالی روڈ اور ٹھیکوں کی بندر بانٹ سمیت مال و زر اور اقربا پروری پر لگا دیا، اس سے بلوچ سماجی و سیاسی خامہ شعور کو ایک اور دھچکہ لگا اور خاص کر مڈل کلاس یعنی سرداری و قبائلی نظام سے آذاد علاقوں میں پاکستان کے ساتھ ساز باز کا نیا دور شروع ہوگیا جہاں مقصد کو گروی رکھ کر عوام کی طاقت یا مینڈیٹ کے بجائے مقتدر حلقوں کی ہمنوائی کو ہی حصول اقتدار کے ساتھ جوڑا گیا، ہر گزرتے سال اور انتخابی دورانیے میں مقتدرہ اداروں کے کاسہ لیسوں کی چاپلوسیوں کی معیار میں اضافہ ہوتا گیا اور عوام کی حق رائے دہی و انکی اس طاقت کو ایک لحاظ سے ختم کردیا گیا اور بلوچ عوام کا اپنے ان منتخب لوگوں سے رابطے کا خلا روز افزوں بنیادوں پر وسیع ہوتا چلا گیا۔ ساحل و وسائل پر اختیارات کی حصول، قومی حق حاکمیت بشمول حق خود ارادیت اور وسیع تر اختیارات کا حصول پاکستانی بند و بست میں ممکن تھا یا نہیں تھا وہ الگ بات ہے اس پر ہم پہلے بھی بات کرچکے ہیں آئندہ بھی بات کرتے رہینگے لیکن 1970 کی نیپ حکومت اور بعد میں آنے والی نام نہاد جمہوری حکومتوں میں یہی ایک بہت گہرا فرق رہا ہے کہ نیپ حکومت کے مطالبات یا نظریات اور عوام سے کئے ہوئے وعدے وعیدیں کتنی ہی غیر منطقی اور زمینی حقائق سے کتنی ہی دور کیوں نہ تھیں لیکن اس وقت کے لوگ اور نیپ حکومت میں شامل افراد اپنے کیئے ہوئے وعدوں، اپنی مطالبات اور نقطہ نظر سے حد درجہ سنجیدہ تھے اور پاکستان کے اندر حقوق کی حصول اور بلوچستان کے لیئے وسیع تر اختیارات کے حصول کی جنگ میں انہوں نے کوئی ساز باز نہیں کی اور اسی وجہ سے ان کی حکومت کو بھٹو نے مقتدر حلقوں کی ایماء پر ختم کیا اور مقتدر قوتوں نے بلوچستان میں ایک سنگین اور خونی جنگ کا آغاز کیا، لیکن آج صورت حال یہ ہے کہ آج کی تاریخ میں چاہے کوئی بھی اس پارلیمنٹ کا رکن بن جائے لیکن وہاں مقتدرہ قوتوں کی مفادات، انکی نقطہ نظر انکی سوچ اور انہی کی مرتب کردہ پالیسیوں کے آگے لیجانے کے سوائے حق و حقوق کے حصول کا کوئی رستہ نہیں ہے، پاکستان سے دوستی اورپاکستان کے اندر رہتے ہوئے بلوچ قومی نمائندگی کا معیار صرف اور صرف ریاستی مقتدر قوتوں کی گماشتگی ٹہر گیا ہے، یہی نوشتہ دیوار ہے چاہے اس میں اختر مینگل لاکھ دھائی دے کہ وہ پارلیمنٹ جاکر بلوچ کی حق و حقوق کے حصول کو ممکن بنائیں گے یہ خود ہی احمقوں کی کی جنت میں رہنے والی بات ہوگی، تلخ تجربات وغلط و بے جا توقعات کے ساتھ پارلیمانی سیاست کو آزمانے کے بعد یہ برملا کہا جاسکتا ہے کہ بلوچستان میں پاکستان کے وفاقی انتظام و انتخابی دنگل کا نقطہ اختتام 1970 میں نیپ حکومت کے خاتمے کے ساتھ ساتھ ہوچکا تھا اس کے بعد بلوچستان میں جتنی بھی بند و بستی حکومتیں آئیں وہ مقتدرہ کی پس پردہ حمایت سے ہی آئیں اور آگے جاکر یہی نام نہاد عوامی نمائندے انہی قوتوں کی ایجنڈوں کو پایہ تکمیل تک پہنچاتے رہے، بی این ایم کے مالک، وحید و اکرم اور عبدالحئی جیسوں نے کمال مہارت کے ساتھ بلوچ کے قومی سوچ کو نہ صرف پارلیمنٹ کی طرف موڑا بلکہ انکی وسیع تر اختیارات کے حصول کی کوششوں کو بھی نکیل ڈٓال دیا، اسے بد قسمتی کہیں یا حالات کا جبر کہ مکران و جھالاوان سمیت بلوچستان کے طول و عرض میں اس قدر مقبولیت حاصل کی کہ بلوچ کی سیاست پورے نوے کی دہائی اور ازاں بعد نلکہ نالی اور ٹھیکہ و بندر بانٹ کی گرد گھومتی ہوئی دکھائی دی۔ سال 2002 میں ہونے والی عام انتخابات ہی وہ انتخابات تھے جہاں ایک حد تک ووٹ و نوٹ کی سیاست سے لوگوں کی کنارہ کشی کے واضح نہ سہی مگر آثار نظر آتے تھے لیکن 2008 کے عام انتخابات تک پہنچتے پہنچتے عام بلوچوں میں ایک واضح سیاسی لائن نظر آنے لگی تھی اور لوگ انتخابات سے نہ صرف کنارہ کش تھے بلکہ وہ آذادی پسند سیاسی و عسکری پارٹیوں کی بہت زیادہ حمایتی بن گئے تھے اور انہیں یہ یقین ہو چلا تھا کہ ووٹ و نوٹ کی سیاست جھوٹ کی سیاست ہے اور آذادی پسند سیاسی حلقے ہی اصل میں اس قوم کی نمائندہ جماعتیں ہیں اور یہی بنیادی نظریات بلوچ قوم کو منزل مقصود تک پہنچائیگی گو کہ انتخابات ہوئے پولنگ اسٹیشن بھی لگے لیکن ماضی کے نسبت اس بار بلوچ عوام کی موجودگی خاصی حد تک کم ہوچکی تھی لیکن 2013 کے آتے آتے انتخابی اکھاڑا بالکل خالی خولی رہا، نہ صرف بہت سارے روایتی امیدواروں نے انتخابی اکھاڑے میں قدم رکھنا مناسب نہیں سمجھا بلکہ بہت سارے حلقوں میں روایتی منتخب نمائندوں کے برعکس بہت ہی نئے چہرے نمودار ہوئے جو کہ فوج کے خاص وناس تھے، قدوس بزنجو و ڈٓاکٹر مالک اور ثنااللہ زہری سے لے کر دوسرے کئی روایتی انتخابی امیدواروں تک اکثریتی امیدواروں کے جھولی میں محض پانچ سو سے آٹھ سو ووٹ آئے وہ بھی فوج کی نگرانی میں ڈٓالے ہوئے وہ ووٹ تھے جو کہ بہت ہی مخصوص علاقوں کی پولنگ اسٹیشنوں سے کاسٹ ہوئے یا کاسٹ کروائے گئے لیکن مجموعی صورتحال یہی تھی کہ بلوچ عوام ان انتخابی میدان سے تنگ آکر اپنے لیئے الگ راہوں کے امید میں آذادی پسند لوگوں سے آس لگائے بیٹھے تھے۔ اس وقت بھی فوج موجود تھی، فوج کے کارندے موجود تھے اور ریاستی اداروں کی سرپرستی میں چلنے والے ڈیتھ اسکواڈ کے لوگ بھی انہی علاقوں میں موجود تھے لیکن وہ عوام کو مجبور نہ کرسکے کہ آکر ووٹ و الیکشن میں ساجھے دار بن کر اپنی رائے دہی کو استعمال کریں، فوج اور اسکے دیگر بہی خواہ بلوچ مقامی گماشتوں نے کئی علاقوں میں لوگوں کو گھروں سے نکل کر انتخابی عمل میں حصے لینے کی تلقین کی اور حکم عدولی کی صورت میں انتقامی کاروائیوں کی دھمکی بھی دی، لیکن اس کے باوجود لوگ گھروں سے نہیں نکلے اس سے یہ بات تو کم از کم ثٓابت ہوتی ہے کہ اگر اپنی زہن اور خواہش شامل نہ ہو تو کوئی بھی طاقت آپکو کوئی کام کرنے پر مجبور نہیں کرسکتی ڈر کے آگے امید کی کرن اگر باقی رہے تو ڈر کو شکست دی جاسکتی ہے اور اسکا نظارہ ہم نے پچھلے الیکشن میں خاص کر بلوچستان میں بھرپور انداز میں دیکھا اور تجربہ کیا وہی امید کی کرن تھی اور اسی آس اور بھروسے پہ لوگوں نے ممکنہ پاکستانی جبر کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے انتخابی عمل سے حتی الوسع حد تک کنارہ کش رہنے کی کوشش کی، کسی بھی قومی جدوجہد میں امید ہی وہ عنصر ہے جو لوگوں کو اس بات پر ابھارتی ہے کہ بے منزل ہی سہی بے جادہ ہی سہی سفر جاری رکھنا ہے چاہے کتنی کھٹن اور مشکلات کا امکانی خوف موجود رہے لیکن پھر بھی مقصد کی بوجھ کو کاندھوں پر لادے چلتے جانا ہے، لیکن امیدیں کیا ابھی بھی اس طرح برقرار ہیں یا اس باری اس انتخابی اکھاڑے کے رنگ و روپ نئے بہروپ میں ڈھل کر لوگوں کے سامنے آئیں گے یہ وہ سوال ہے جو آذادی پسند حلقوں میں اضطراری کیفیت کا باعث بنا ہوا ہے، اگر ایسا ہوا تو ان امیدوں کی محور ٹوٹ کر بکھرنے کی زمہ دار کون ہونگے، ریاست، ریاستی گماشتے، پارلیمانی پارٹیاں، معاشرے میں پنپتی ہوئی خوف کی فضا، عوامی خامہ شعور یا پھر کچھ آذادی پسند پارٹی اور انکی طرف سے دی ہوئی پالیسیاں، یہ جواب خیر انتخابات کے بعد ہی مکمل اور واضح بنیادوں پر دی جاسکتی ہے کہ آیا انتخابات میں عوامی جھکاؤ کس طرف رہی لیکن اس سے پہلے اس انتخابی گہما گہمی میں کیا کچھ چیزوں کی وضاحت ہمارے سامنے کھل کر نہیں ہوا یا ان کے بھید نہیں کھلے ہیں، کیا ہم اندازہ نہیں لگا سکتے کہ اس بار عوامی جھکاؤ کس طرف ہوگی اور اگر ہوگی تو کیونکر ہوگی اگرعوام نے اس بار ماضی کی نسبت زیادہ انتخابی عمل میں حصہ لیا تو اس ناکامی کا سہرا کس کے سر باندھا جائے گا۔ اگر واقعی اس بار لوگ گھروں سے انتخابی معرکے میں حصے لینے کو نکلے تو اس کے لیئے ریاستی جبر یا فوج کی موجودگی کوئی قابل قبول توجیح نہیں ہوسکتی ہے کہ لوگ اس بار اس لیئے انتخابی عمل میں حصہ لینگے کہ فوج کی بھاری نفری بلوچستان کے سارے علاقوں میں تعینات ہےمسئلہ قبضہ یا ریاستی فوج کی موجودگی کا نہیں کیونکہ وہ تو روز اول سے نہ صرف موجود رہا ہے بلکہ اپنا زور لگاتا رہا ہے کہ کسی نہ کسی طرح اپنی قبضے کو دوام اور سند قبولیت بخشواؤں مسئلہ مزاحمت کی سوچ کا ہے، امید کا ہے اور اس امید پر قربان ہونے یا اس امید کے پاداش میں ملنے والی سزا کو برداشت کرنے کے لیئے زہنی طور پر تیار رہنے کا ہے، ابھی گزشتہ سال مردم شماری ہوئی اسی طرح سب لوگوں نے ساری سیاسی جماعتوں نے اپیلیں کی اور عسکری تنظیموں نے لوگوں کو دھمکایا مگر ہم نے دیکھا کہ لوگ اس میں شامل رہے اور فوج نے باقاعدہ گھر گھر جاکر معلومات اکٹھی کیئے اور بلوچستان کے طول و عرض میں سرکاری نوکری کرنے والے لوگ با امر مجبوری اس میں شامل رہے، کیونکہ شامل رہنے اور نہ رہنے کی نفع و نقصان کے تخمینے میں انکو اس بار نقصان کا پلڑا بھاری دکھا، اور مقتدرہ حلقے اس میں کامیاب ہوگئے اس کے بعد تو یہی ہونا چاہیئے تھا کہ زمہ دار حلقے اس بابت سوچتے کہ کیوں اور کیسے عوام نے امید کے دامن کو چھوڑ کر آج ڈر اور خوف سے نباہ کرلی ہے، کیوں وہی لوگ جو آج سے پانچ سال پہلے بغیر کسی اپیل کے ریاستی انتخابات سے دور تھے آج کیوں وہ مردم شماری اور انتخابی دنگل میں جانے کے لیئے مجبور کیئے جانے پر مجبوری کو قبول کررہے ہیں کیوں ان لوگوں کے دلوں میں اس مجبوری کے سامنے مزاحمت کے جذبات نہیں ابھر رہے، آج بلوچستان میں جو کچھ ہورہا ہے، جو کچھ ماضی قریب میں ہوا ہے اور جو کچھ ہونے جارہا ہے اسکو سمجھنے کے لیئے دور جانے کی ضرورت نہیں چند عسکری تنظیموں کی غیر زمہ دارانہ رویوں اور اپنی عوام کی دی ہوئی طاقت کو عوام کے خلاف استعمال کرنے کی جو گھناؤنی پالیسیاں رہی ہیں وہی اس چیز کی بنیادی وجہ ہے کہ آج لوگوں کی امیدوں کے دروازے پر تالا لگ چکا ہے اور عوام بہ حالت مجبوری ریاستی بیانیے کے ساتھ دل پر پتھر رکھ کر جارہے ہیں یا اسے قبول کررہے ہیں، ماضی میں جب امیدوں کے محور نہیں ٹوٹے تھے تو لوگ کہتے تھے کہ ہم مردم شماری نہیں کریں گے، ہم انتخابی عمل کا حصہ نہیں بنیں گے چاہے اسکے لیئے ہمیں ہر قسم کی سزا دی جائے ہم برداشت کریں گے کیونکہ ہمارے ہی بھائی اور قوم کے نوجوان ہماے بچوں کی مستقبل کے لیئے ہر قسم کی تکالیف اور سختی کو خندہ پیشانی سے قبول کرتے ہوئے اپنا فرض نبھا رہے ہیں سو یہ ہماری فرض ہے کہ ہم کار سرکارمیں معاون نہ بنیں اور ریاست کی بیانیے کو تقویت نہ پہنچائیں یہی ہمارا فرض ہے ادنی ہی سہی لیکن یہ بھی ایک زمہ داری ہے، سرکار کی نوکری کرنے والوں نے کہا کہ ہم سرکاری تنخواہ اٹھانے کے باوجود اس کام میں حصہ دار نہیں بنیں گے اور مجبور کرنے پر استعفی دیں گے لیکن اپنے قوم کے خلاف نہیں جائیں گے بچوں کو بھوکا رکھیں گے، تکالیف سہیں گے معاشی پریشانیوں کو مقصد پر ہر گز ٖغالب نہیں آنے دیں گے کیونکہ ہمارے ہی بھائی اور قوم کے جوان بھوکے پیٹ اور بے سرو سامانی کے عالم میں دشمن سے مڈبھیڑ میں مصروف ہیں تو اتنی چھوٹی قربانی ہمارا بھی فرض بنتا ہے لیکن افسوس یہی ہے کہ عام عوام کی پذیرائی اور انکی اس چھوٹے سے فرض کو قدر کی نگاہ سے دیکھنے کے بجائے کچھ قوتوں نے دشمن سے بڑھ کر اپنے ہی لوگوں کو بندوق کے نوک پر رکھ کر انکی بے جا قتل و غارت گری شروع کردی۔ اسی لیئے آج وہ سوچ غائب ہوچکی ہے کہ ہم قربانی دیں گے کیونکہ ہمارے بھائی قربانی دے رہے، کل تک فوج اور ریاستی اداروں کی حکم عدولی پر ملنے والی سزا بہت ہی حقیر معلوم ہوتی تھی کیونکہ یہ امید زندہ تھا کہ بھائی لڑ رہے ہیں اور بھوکے پیٹ اور پیاس کی غضب ناک شدت کو بھی خاطر میں نہ لاتے ہوئے بے غرض اور بے لوث لڑ رہے ہیں اگر انکے اس پہاڑ جیسی تکلیف کے سامنے ہمیں کوئی چھوٹی موٹی تکلیف بھی ہوئی ہم یا ہمارے بچوں کو مارا گیا غائب کیا گیا یا انکی معاشی رسد پر قدغنیں لگائی گئی یا پھر ہمیں علاقہ بدر کیا گیا تو اس امید سحر کا جس کا ہم سے وعدہ کیا گیا ہے اس امید کے آگے یہ بہت ہی ادنی قیمت ہوگی، لیکن گزشتہ سال کی مردم شماری اور اس سال کی انتخابی اکھاڑے کی ممکنہ کامیابی کے آثار کو دیکھ کر لگتا ہے کہ امید سحر اب خون آشام اور ہیبتناک یادوں میں تبدیل ہوچکی ہے اور اب لوگ اس ادنی قربانی کی قیمت بھی ادا کرنے کو تیار نہیں کیونکہ کچھ حلقوں نے قومی جنگ کے نام پر اس قوم سے اتنا کچھ چھینا ہے کہ اب آرزؤں کو مقتل گاہ میں رکھا گیا ہے، خواب آنکھوں سمیت جل بجھ چکے ہیں، اوراسی قوم کی طاقت کو لے کر صرف قوم کے لوگوں کو قتل نہیں کیا گیا ہے بلکہ اس کے ساتھ ساتھ ان امیدوں کو بھی قتل کیا گیا ہے جو ایک عام بلوچ کو پاکستانی جبر کے سامنے سینہ تھان کر کھڑے ہونے کی ہمت عطا کرتی تھی، اگر اس بار بلوچستان میں انتخابی اکھاڑے میں ریل پیل نظر آئی تو آذادی پسند سیاسی کارکنوں کو ضرور ان گریبانوں تک اپنی ہاتھ پہنچانے ہونگے کہ جن کی وجہ سے آج قوم ریاستی بیانیے کے ساتھ کھڑا ہونے پر مجبور ہوچکی ہے، عوامی مفادات پر مبنی پالیسیاں اور اصول و ضوابط پر کاربند رہتے ہوئے ہم نے اپنی قوم کو ریاستی بیانیے کے خلاف جاتے ہوئے کل بھی دیکھا تھا اور اگر پالیسیوں میں بہتری اور طریقہ ہائے کار میں سدھار لائی گئی تو قوم کو ایک بار پھر ہم امیدوں کے محور سے جڑے دیکھیں گے، اس بار جو کچھ ممکنہ بنیادوں پر ہونے جارہا ہے اسکا دوش ہم قومی شعور کو نہیں بلکہ ان چند بچکانہ سیاسی حلقوں کو دیں گے کہ انہوں نے قوم کووسیع قومی بیانیے کے ساتھ ملانے کی بجائے چور اچکوں کی طرح طاقت کی نشے میں چور ہوکر قوم کو ریاستی بیانیے کی جانب زبردستی دھکیلا ہے۔