Homeخبریںآزادی صحافت کے دعویدار زرد صحافت کے اصولوں پہ عمل پیرا ہیں...

آزادی صحافت کے دعویدار زرد صحافت کے اصولوں پہ عمل پیرا ہیں :بی ایل ایف

کوئٹہ(ہمگام نیوز) بلوچستان لبریشن فرنٹ (بی ایل ایف) کے ترجمان گہرام بلوچ نے ایک اخبار میں شائع ایک خبر پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ ریاست اپنی کمزور گرفت اور دنیا کو بلوچستان کا غلط نقشہ پیش کرنے کیلئے ریاستی کنٹرولڈ میڈیا کا سہارا لے رہی ہے۔ اخبار میں جس طرح سے پورٹس اینڈ شپنگ کی وزارت کو بی ایل ایف اور دیگر مزاحمتی تنظیموں کی جانب سے بلوچوں کو دیئے جانے کی مطالبے کا ذکر کیا ہے، وہ ایک سفیدجھوٹ اور صحافتی اصولوں کے منافی ہے۔ اس طرح کی خبریں شائع کرنے سے قبل میڈیا کو ہمارا موقف بھی سننا چاہیے مگر چونکہ یہ میڈیا ریاست کے ماتحت ہے اور بلوچوں کی کسی بھی خبر و موقف کو منظر عام پر لانا ان کیلئے زہر قاتل ہے اسی لئے آزاد صحافت کے دعویدار زرد صحافت کے اصولوں پر عمل پیرا ہیں بلوچستان میں فورسز کی کارروائیاں، بلوچوں کا اغواء اورنسل کشی کی حد تک پہنچ چکے ہیں مگر میڈیا کے اداروں نے آنکھیں بند کی ہوئی ہیں جبکہ دوسری جانب ریاست کے جھوٹے بیانات کی شہہ سرخی بنانے کیلئے بے تاب نظر آتے ہیں۔ ترجمان نے کہا کہ ہمارا ایجنڈا ایک ہے اور وہ ہے بلوچستان کی آزادی، کسی عہدیدار یا وزارت کو تبدیل کرانا نہ کبھی ہمارا مقصد تھا اور نہ ہے۔ کامران مائیکل اور حاصل بزنجو دونوں ریاستی پیرول پر کام کرتے ہیں۔ ہمارے لئے پاکستان کے وفاق پرست، عام فورسز اور آمر سب برابر ہیں۔ یہ سب ہم پر ایک ہی طرح ظلم ڈھا رہے ہیں اور ہم ان سب کو ایک ہی نظر سے دیکھتے ہیں اصل میں ریاست پاکستان اپنی کمزوریاں چھپانے اور سرمایہ کاروں کو خوش کرنے کیلئے اپنے کنٹرولڈ میڈیا میں اس طرح کے جھوٹے شوشے چھوڑتا رہتا ہے۔ ہم پاکستان و چین سمیت تمام ممالک و قوموں اور اداروں کو خبر دار کرتے ہیں کہ وہ اس طرح کی خبروں پر یقین کرکے گوادر سمیت بلوچستان کے کسی بھی علاقے کا رخ نہ کریں۔ بلوچ قوم کی مرضی و منشاء کے بغیر کوئی بھی منصوبہ پایہء تکمیل تک نہیں پہنچ سکتا۔ پاکستانی ریاست سرمایہ کاروں کو اس طرح کی طفل تسلیاں دیکر بلوچستان لاکر ان کا سرمایہ ڈبونا چاہتے ہیں۔ پاکستانی ریاست حاصل خان یا نیشنل پارٹی کے کسی رکن یا کسی اور وفاق پرست شخص کو پورٹس اینڈ شپنگ کی وزارت کا قلمدان سونپ کر انہیں مالی طور پر مضبوط کرنا چاہتا ہے، کیونکہ مختلف علاقوں میں ان ہی کے ڈیتھ اسکواڈ نیشنل پارٹی کے مرکزی اور ضلعی رہنماؤں کی سربراہی میں کام کر رہے ہیں۔ ان کے کارکنوں کی شکل میں سینکڑوں مخبر بھرتی کےئے گئے ہیں۔ بلوچوں کو یہ چال سمجھنی ہے، اور نیشنل پارٹی سمیت دوسری نام نہاد قوم پرستوں کی چالوں میں نہیں پھنسنا چاہئے کیونکہ پاکستان بھی یہی چاہتا ہے کہ بلوچ کے ہاتھوں بلوچ کا خون بہے۔ یہ بلوچوں کی مخبری، اغواء اور قتل اور آپریشنوں میں براہ راست ملوث ہیں۔ منشیات فروشی کا عالمی سرغنہ امام بھیل نیشنل پارٹی کے چھتری تلے نام نہاد قوم پرستی کا لبادہ اوڑھ کر بلوچستان و دنیا میں منشیات کا زہر پھیلا رہا ہے اس طرح ان کی اصلیت عوام کے سامنے آشکار ہو نے کے بعد ریاستی میڈیا اور زرد صحافت انہیں ایک پردے میں چھپانے کی ناکام کوشش کر رہی ہیں، اس کوشش میں بی ایل ایف اور دیگر مزاحمتی تنظیموں کو گوادر پورٹ چلانے کی اجازت اور مزاحمت نہ کرنے جیسے سفید جھوٹوں کا سہارا لیا جارہا ہے۔ گوادر پورٹ اور چائنا پاکستان اقتصادی راہداری کی تکمیل بلوچ قوم کی زیست و موت کا مسئلہ ہے۔ جس میں بلوچ قومی شناخت کو مٹا کر بلوچوں کو اپنی ہی سرزمین پر اقلیت میں تبدیل کرنے کی سازشیں ہو رہی ہیں۔ گوادر پورٹ، ریلویز اور دوسری اسکیموں کی تکمیل سے پہلے ہی گوادر کو بلوچوں کیلئے نو گو ایریا بنا دیا گیا ہے۔ دس ہزارفورسز اور دیگر اسپیشل فورس تعینات کئے گئے ہیں۔ اس صورتحال میں کسی وزارت کی تبدیلی کے مطالبے کا مضحکہ خیز بیان پاکستان کی ناکام پالیسیوں اور بلوچ قوم کے سامنے اسکی اخلاقی اور نفسیاتی شکست کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔

Exit mobile version