کوئٹہ(ہمگام نیوز) بی ایس او آزاد کی نویں مرکزی کمیٹی کا اجلاس زیر صدارت مرکزی قائمقام چئیرپرسن بانک کریمہ بلوچ منعقد ہوا۔ جس میں تنظیمی امور ،علاقائی وعالمی سیاسی صورتحال ، تنقید اور آئندہ لائحہ عمل کے ایجنڈے زیر بحث رہے۔پروگرام کی شروعات بلوچ شہداء کی یاد میں خاموشی سے کی گئی۔ اپنے افتتاحی خطاب میں بانک کریمہ بلوچ نے کہا پچھلے تین سال کی مدت میں بی ایس او آزاد کے دوستوں نے تنظیم کو فعال کرنے میں ایک انتہائی اہم کردار ادا کیا ہے خاص کر 2010سے 2012کے دوران بی ایس او آزاد کو چند غلط پالیسیوں کی بناء پر اُس نہج پر پہنچایا گیا تھا کہ بی ایس او آزاد کے لئے سرفیس پر اپنی سرگرمیوں کو زندہ رکھنا مشکل ہو گیا تھا اس دوران تنظیمی ڈھانچہ 70%غیر فعال ہوچکا تھا۔ اُن حالات میں نوجوان گراؤنڈ میں اپنے لئے کوئی تنظیم نہ پاکر مایوسی کا شکار ہو رہے تھے ،پوری بلوچستان میں تنظیم کے چند برائے نام زون رہ گئے تھے۔ مرکزی سینیئر وائس چیئرمین زاکر مجید بلوچ اغواء جبکہ جونئیر جوائنٹ سیکٹری شفیع بلوچ سی سی ممبران کامریڈ قیوم،کمبر چاکر شہید ہو چکے تھے۔ مرکزی چیئرمین کا تنظیم سے رابطہ صرف فیصلوں کی حد تک محدود تھا کابینہ و مرکزی کمیٹی کے کچھ دوست اپنی ذمہ داریوں سے عملاََ کنارہ کش ہو چکے تھے۔ ان حالات میں تنظیم کو فعال کرنے کے لئے سابقہ کابینہ کو تحلیل کرکے نئی آرگنائزنگ باڈی تشکیل دی گئی ۔ آرگنائزنگ باڈی کے ممبران ’’جن میں شہید رضا جہانگیر اور چیئرمین بلوچ خان شامل تھے ‘‘نے سخت ترین حالات میں مشکل فیصلے لے کر تنظیم کو دوبارہ فعال کر کے کونسل سیشن کا انعقاد کیا ۔ ایک محدود مدت تک کے لئے میڈیا میں لیڈر شپ کو ظاہر نہ کرنے اور اپنی عوام کے اندر رہتے ہوئے تنظیمی کاموں کا پرچار کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔اس پالیسی پر کام کرتے ہوئے مختصر مدت کی سخت ترین محنت کے بعد تنظیم کو پورے بلوچستان میں فعال کیا گیا،اس دوران بی ایس او آزاد کی پالیسیوں کو لیکر تنقید کے نام پر بڑے پیمانے پر پروپیگنڈہ شروع کردی گئی،چئیرمین زاہد بلوچ سمیت بی ایس او آزادکی تمام مرکزی لیڈر شپ کے خلاف ہرزہ سرائی کی گئی۔ہم پہلے دن سے ہی اس امر سے بخوبی آگاہ تھے کہ یہ سب کچھ ایک منصوبے کے تحت کیا جا رہا ہے اور ان سب کے پیچھے کیا مقاصد کار فرما ہیں ۔ گزرتے وقت کے ساتھ شہید رضا جہانگیر، چیئرمین زاہد اور بی ایس او کی لیڈر شپ کے خلاف پروپیگنڈوں میں شدت لائی گئی تاکہ عوام کے اندر انکی قا ئدانہ صلا حیتوں کو متنازعہ کیا جائے اور یہ سب کچھ ایک عرصے سے بی ایل اے کے چند زمہ داراں جن میں اسلم، حسن جانان ، سلام صابراوران کے گروپ کی طرف سے کیا جارہا ہے۔ ہم نے ان تمام منفی پروپگنڈے و زہرافشانیوں کو نقصان دہ قرار دیکر تمام جماعتوں کو میڈیا کے بجائے ہر ایک کو اپنے تنظیمی معاملات کو اندرونی رابطوں کے زریعے حل کرنے کی صلاح دی۔لیکن بجائے اس کے کہ ہمار ی ثالثی کردار کو نیک نیتی سے لیکر اس پر بحث کا آغاز کیا جائے الٹا بی ایس او آزاد کے خلاف پروپگنڈوں اور اس کی غیر جانبدارانہ کردار پر بے بنیاد سوالات اٹھاکر تنظیم میں انتشار پیدا کرنے کی کوشش کی گئی جو تا حال شدت کے ساتھ جاری ہے جن کا مقصدصرف یہ ہے کہ بلوچ عوام اور بی ایس او کے ممبران کو تنظیم سے بدظن کیا جاسکے ۔جس کیلئے ایک منصوبے کے تحت بی ایس او کی مرکزی قیادت کے ناموں کو ایکسپوز کرنے سے لیکر مختلف زونوں میں رابطہ کر کے باقاعدہ بی ایس او کو تقسیم کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ جس سے دشمن کاکام بڑی حد تک آسان ہو رہا ہے۔انہوں نے کہا کہ بی ایس او کی تاریخ میں بی ا یس او کو متعدد بار تقسیم کرنے کی کوشش کی گئی،جس میں وفاق پرست پارلیمانی پارٹیوں کا ہاتھ تھا جن کا مقصد نوجوانوں کو بی ایس او کے نظریے سے مایوس کر کے چند مفادات کے گرد جمع کرنا تھا لیکن اس بار بی ایس او آزاد کو تقسیم کرنے کی کوششوں میں آزادی کا نام لینے والے گروپ کے چند لوگوں کا ہاتھ ہے۔جنہوں نے چند تنظیمی ذمہ داروں سے رابطہ کر کے انہیں تنظیمی آئین کے خلاف کام کرنے پر اکسایا۔ بارہا تنظیمی آئین کی خلاف ورزی کرنے پر فارغ کئے گئے لوگوں کو استعمال کرکے ایک نئی بلاک آئینی بلاک کے نام سے تنظیم کے خلاف تشکیل دی گئی جسے آنیوالے وقتوں میں تنظیمی شکل دے کر بی ایس او آزاد کے خلاف لا کھڑا کرنے کی مکمل منصوبہ بندی کر کے اسے آئینی بی ایس او آزاد قرار دے کر بلوچ عوام اور نوجوانوں کو گمراہ کرنے کی کوشش کی جائے گی ۔ جس کی شروعات تنظیم کے ترجمان (سگار) کے نام سے ایک جعلی سگار کا اجراء کرکے تنظیمی رازوں، لیڈر شپ اور پالیسیوں کے خلاف بدنیتی پر مشتمل ہرزہ سرائی کرنا ہے۔ یہ سب کچھ 2012میں روزنامہ توار میں امداد بلوچ نامی(فرضی نام) شخص کی جانب سے لکھے گئے ایک آرٹیکل کے بعد شروع کیا گیا جو کہ تسلسل کے ساتھ جاری ہے۔
بی ایس او آزاد جو کہ بلوچستان کی سب سے بڑی اسٹوڈنٹس تنظیم ہے ۔ اس کی لٹریچر و علمی سرگرمیوں سے خائف ہو کر ہی ریاست نے ممبران و تنظیمی سرگرمیوں پر پابندی عائد کر رکھی ہے۔بی ایس او آزاد ایک کیڈر آرگنائزیشن ہے، جس نے قومی تحریک کے لئے ہر وقت کیڈرز پیدا کیے ہیں۔بی ایس او آزاد آج اپنی تاریخ کی خطرناک ترین تجربے سے گزر رہی ہے۔ہم پر یہ بھاری زمہ داری عائد ہوتی ہیکہ کس طرح اس قومی تنظیم کے خلاف پروپگنڈہ کرنے اور تنظیم کو انتشار کا شکار کرنے کی کوششوں کو ناکام بنائیں۔سیاسی صورتحال کے ایجنڈے پر بحث کرتے ہوئے رہنماؤں نے کہا کہ آج انسانی ہمدردی کی بنیاد پر کوئی قوم یا ریاست کسی دوسری ملک یا قوم کی مدد نہیں کرتی۔کیونکہ ہر قوم کے اپنے مفادات ہیں اور وہ اپنے قومی مفادات کو اولیت دیتے ہوئے انہی مفادات کے تحت دوسرے اقوام کی مدد کرتے ہیں۔ہمیں اپنے عوام کی سیاسی تربیت کرکے انہیں آزادی و انسانی برابری کے نظریے پر تیار کرکے متحرک کرنا ہوگا ۔ کیونکہ انسانی ہمدردی کے بنیاد پر کوئی اپنے مفادات کو قربان کر کے دوسری اقوام کی مدد نہیں کرتا۔
انہوں نے کہا کہ اگر دنیا کی بدلتی ہوئی سیاسی صورت حال کا ہم نے باریک بینی سے جائزہ لیتے ہوئے بلوچ تحریک کے اندرونی انتشار پر قابونہ پایا تو بلوچ قومی تحریک ایک ناقابل تلافی نقصان سے دوچار ہوسکتا ہے ،۔کیونکہ چھوٹی سی غلطی کسی بڑے سانحے کا سبب بن سکتی ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ بلوچ قومی آزادی کی جنگ لڑنے والی تنظیموں (بی ایل اے اور یو بی اے ) کے درمیان آپسی لڑائی کسی بھی طور قومی تحریک کے لئے نیک شگون نہیں۔اس طرح کی کاروائیوں سے دشمن بلوچ قومی تحریک کو عالمی سطح پر غلط رنگ دے کر اور اندرونی صفوں میں اپنے لوگوں کو متحرک کر کے تحریک کے خلاف بد گمانیاں پیدا کرنے میں کامیاب ہو جائیگی جس سے بلوچ قومی طاقت منتشر ہو کر رہ جائے گی ۔ریاست اس عمل سے فائدہ اٹھا کر بلوچ قومی تحریک کو دنیا کے سامنے خانہ جنگی کا نام دینے میں بڑی حد تک کامیاب ہو سکتا ہے، ایسے مسائل جو آپسی گفت و شنید اور تنظیمی اداروں کے اندر حل ہو سکتے ہیں انہیں میڈیا میں لاکر اچھالنا اور اپنی طاقت کو ایک دوسرے کے خلاف استعمال کرنا قومی تحریک کو مذید نقصان سے دو چار کردے گی ۔بی ایس او آزاد پچھلے دو سالوں سے ان مسائل کو حل کرنے میں ثالثی کا کردار ادا کررہی ہے اس حوالے سے مختلف تنطیموں اور پارٹیوں سے مختلف زریعوں سے رابطے کئے ہیں ۔اور آزادی پسند تنظیموں کے درمیان موجود اندورنی ا ختلافات اور غلط فہمیوں کو دور کرنے کیلئے بی ایس او آزاد اپنی ثالثی کا کردار آئندہ بھی ادا کرتی رہے گی ۔رہنماؤں نے کہا کہ اگر ہم خطے کی صورتحال کا جائزہ لیں تو امریکہ و نیٹو افغانستان میں ایک دہائی سے زائد سے قیام کے بعد واپسی کی راہ لئے ہوئے ہیں۔جس سے خطے میں نئی صورتحال جنم لینے کا خدشہ ہے۔ کیونکہ پاکستان جیسی ریاست’’ جوکہ پوری دنیا کے دہشت گردوں کے لئے ایک محفوظ پناہ گاہ ہے‘‘ کو اس کے حال پر چھوڑ کر اور ایک غیر محفوظ افغانستان کو غیر منظم حکومت کے حوالے کر کے خطے کے لئے مزید مشکلات پیدا کی ہیں۔ افغان حکومت تمام تر سفارتی بیانات کے باوجود یہ جانتی ہیکہ پاکستان کسی صورت ایک مستحکم افغانستان کی حامی نہیں ہے۔پاکستان و افغانستان کے درمیان سرحدی تنازعات ناقابل تردید حد تک موجود ہیں سابقہ افغان صدر حامد کرزئی کی ایک پاکستانی ٹی وی چینل کو دی گئی انٹرویو افغان عوام کے ذہن کی عکاسی کرتی ہے۔انہوں نے کہا پوری دنیا میں مذہبی شدت پسندی کے نام پر وسائل حاصل کرنے کے لئے انسانیت کا قتل عام کیا جارہا ہے اس سے سامراجی دہشت گردی اور وسائل حاصل کرنے کے لئے انکی توسیع پسندانہ ذہنیت ظاہر ہوتی ہے۔اگر ان حالات میں بھی ہم نے ایک مضبوط پارٹی اور ایک مشترکہ لائحہ عمل کے تحت کام کرنے کی پالیسی تشکیل نہیں دی تو عالمی طاقتیں ایک بے خبر قوم کو آسانی سے نگل سکتی ہیں۔سردار و نواب قومی تحریک کو گروی رکھ کر شہداء کی خون کاآسانی سے سودا لگا سکتے ہیں اجلاس میں تنقید ی نشست اور آئندہ لائحہ عمل کے ایجنڈوں پر بحث کرتے ہوئے آئندہ کے لئے حکمت عملی مرتب کی گئیں۔آخر میں مرکزی انفارمیشن سکریٹری کیلئے سنٹرل کمیٹی نے متفقہ طور پر مرکزی انفارمیشن سیکرٹری کا انتخاب کیا۔