ابنِ خلدون کی مختصر حالاتِ زندگی: ابنِ خلدون کا اصل نام عبدالرحمن تھا اور والد کا نام محمد تھا۔عبدالرحمن ابنِ خلدون یکم رمضان732ھ بمطابق 27مئی 1332ء میں تیونس میں پیدا ہوئے۔ والد کے صاحبِ علم ہونے کی حیثیت سے ابتدائی تعلیم گھر پر اُن سے حاصل کی۔تیونس میں طاعون کی وباء پھیلنے سے اُن کے والدین اور دیگر بے شمار افراد اُس کی نذرہوگئے۔ سترہ سال کی عمر میں والدین کا سایہ سرسے اُٹھ جانے کے بعد انہیں کئی مشکلات اور معاشی بدحالی کا سامنا کرنا پڑا۔ انہوں نے قرآن مجید مع ساتواں قرأت کے پڑھا اور حفظ کیا۔ اس کے علاوہ حدیث اور فقہ کی بھی تعلیم حاصل کی۔ والدین کی وفات کے تین سال بعد انہوں نے اپنی مذہبی تعلیم مکمّل کرلی۔ تحصیلِ علم کے بعد روزگارکی فکر میں مبتلا ہوئے اور اپنے احباب کی مدد سے بادشاہ کے دربار تک رسائی حاصل کرلی اور وہاں کاتب کی حیثیت سے ملازمت اختیار کی ۔لیکن ذہنی طورپر وہ اس پیشے کی جانب راغب نہ تھے اور کچھ عرصہ بعد بادشاہ کی نوکری کو چھوڑ دیا۔ وہ بنیادی طور پر نہایت ذہین تھے ایک مرتبہ اعلیٰ منصب کے حصول کے لئے انہوں نے کچھ منفی ہتھکنڈے استعمال کئے اوراس کی پاداش میں مراکش میں جیل کی ہوا بھی کھانا پڑی، تاہم کچھ عرصے بعد جیل سے فرار ہوکر اندلس پہنچ گئے۔اس وجہ سے اُس کے جنوبی ایشیائی مخالف مفکّرین، انہیں ایک سازشی فلاسفر قرار دیتے ہیں۔ انہوں نے اپنی ان تھک کوششوں اور مشاورت سے غرناطہ کے بادشاہ کی کھوئی ہوئی حکومت واپس دلادی تو اس کارنامے سے خوش ہوکر بادشاہ نے انہیں وزارت میں ایک اعلیٰ منصب عطاکیا۔بعدازاں بادشاہ نے انہیں اشبیلیہ روانہ کیا۔ اسی طرح اور بھی کئی ممالک کا سفرکرتے رہے اور اعلیٰ سے اعلیٰ منصب اور عہدے کی تلاش میں رہے۔ لیکن کہیں پر بھی کامیابی حاصل نہ کرپائے۔ آخرکار ساری سرگرمیاں چھوڑ کر افریقہ میں گوشہ نشینی اختیار کرلی اور تمام تر توجّہ سماجی علوم کی تالیف و تصنیف میں صرف کی اور وہاں اپنی شہرۂ آفاق کتاب ’’ مقدمہ ابنِ خلدون‘‘ تحریر کی جوکہ1377ء میں مکمّل ہوئی۔ اس سے انہوں نے اپنے آپ کو ایک عالمگیر فلاسفراورسیاسی و سماجی ماہرکے طورپر متعارف کروایا۔اس کتاب کو عرب وبربر کی تاریخ بھی کہا جاتاہے۔اس کے علاوہ انہوں نے منطق، ریاضی، ادب اور فقہہ پر متعدد کتب تصنیف کیں۔ وہ1406ء میں قاہرہ میں دنیا سے رحلت کرگئے۔ ابنِ خلدون بطورِ ماہرِ سماجیات : سماجی علوم کے شعبے میں ابنِ خلدون دنیا کا وہ پہلا فلاسفر،مفّکر اور ماہرِ سماجیات ہے جس نے سماجیات کو باقاعدہ طور پر دنیا میں متعارف کروایا۔اسی لئے اُسے سماجیات کا بانی کہا جاسکتاہے۔دنیا میں پہلی مرتبہ انہوں نے انسانی گروہوں کی سماجی زندگی کا ابتداء ‘ ارتقاء اور زوال کی روشنی میں گہرائی سے مطالعہ اور مشاہدہ کیااور سماجیات کی بنیاد انسانی گروہ کو قرار دیااور ایک نئے علم کی بنیاد رکھی ۔ اس علم کو ’’علم العمران‘‘ کے نام سے یادکیا گیا۔انسانی سماج کے مطالعہ اور مشاہدہ کے دوران انہوں نے اپنی مشہور زمانہ کتاب’’ مقدمہ‘‘ تصنیف کی۔یہ کتاب سماجیات یا عمرانیات کی پہلی کتاب شمار کی جاتی ہے۔ یہ کتاب چونکہ عربی زبان میں تھی اسی لئے مغربی مفّکرین اس سے پوری طرح استفادہ نہ کرسکے اس کی وجہ اُن کی عربی زبان سے ناوقفیت قرار دیا جاتاہے۔ مفکّرین کا خیال ہے کہ یہی وجہ تھی کہ وہ اپنا جائز مقام حاصل نہ کرپائے لیکن بعد میں اُن کی یہ کتاب اپنی اہمیت اور علمی گہرائی کے باعث شہرۂ آفاق ثابت ہوئی۔ اس کتاب کا اصل نام’’ العبر‘‘تھا جبکہ ’’مقدمہ‘‘ اس کی پہلی جلد تھی جو کہ سب سے زیادہ مشہور ہوئی۔اس کی کُل چار جلدیں تھیں ، اس نے علم عمرانیات یا سماجیات کی ابتداء اور ارتقاء پر گہرے اور دورس اثرات چھوڑے۔اسی لئے بہت سے مفّکرین کے نزدیک ابنِ خلدون پہلا حقیقی ماہرِ سماجیات ہے جس نے سب سے پہلے سماجی مسائل کا تجزیہ اور مشاہدہ کرکے علمِ سماجیات کی بنیاد ڈالی اور دوسرے سماجی مفّکرین سے کہیں پہلے سماجی مسائل اور ان کے پہلوؤں پر سیرحاصل بحث کی اور ان کی نوعیت اور اہمیت کو دنیا کے سامنے تفصیل کے ساتھ اجاگرکیا۔ انسانی زندگی کا کوئی ایسا پہلو نہیں جس پر انہوں نے اپنے خیالات کا اظہار نہ کیا ہو۔ اُن کی عظمت کا اعتراف اہلِ یورپ نے بھی برملا طورپر کیا ہے۔ ان کے حوالے سے آرنلڈٹائن بی کہتے ہیں: ’’ ابنِ خلدون کے ’’مقدمہ‘‘ نے مطالعہ تاریخ کے لئے مجھے وہ بصیرت بخشی جس سے میری نظرنے اس دنیا کے پردے کو چیر کر دوسری دنیا کا نظارہ کیا۔‘‘ گمپلووز اُن کے بارے میں اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہتے ہیں: ’’ عرب ماہرِ سماجیات ابنِ خلدون مغرب کے ایک ممتاز مفکّرمیکاولی سے کہیں بہتر ہے‘‘۔ اُن کے جاندار نظریے کی عظمت کے پیشِ نظر، ہارنس کہتے ہیں : ’’ اطالوی مفکرّ ویکوسے زیادہ ابنِ خلدون کو یہ حق پہنچتاہے کہ اُسے فلسفہِ تاریخ کا بانی کہا جائے کیونکہ اس کا نظریہ کہیں زیادہ معتبر اور جدید ہے۔‘‘ وہ ایک نامورمؤرخ، ماہرسماجیات، ماہرمعاشیات ، ایک بہتریں سیاسی مفکّر اور انسانی سماجی مسائل میں دلچسپی لینے والے طالبِ علم تھے۔ چود ھویں صدی میں انہوں نے اپنے افکار کی روشنی میں افریقہ کی تاریک سماج کو چراغاں کیا۔ انہیں بطورِ پولیٹیکل سوشیالوجسٹ اور ماہرسماجیات متعارف کروانے میں ان کی تالیف ’’العبر‘‘ نے نمایاں کردار ادا کیا۔ اس کتاب کی پہلی جلد کو ’’مقدمہ‘‘ کا نام دیا گیا اور اس کی اہمیت اصل کتاب سے بھی زیادہ تھی اسی لئے ’’ مقدمہ ابن خلدون‘‘ ان کا مرکزی شناخت بن گیا۔انہوں نے جن ممالک کی سیر وسیاحت کی ان کے معاشرتی احوال کا تفصیلی جائزہ لے کر اُن کا تذکرہ پیش کیا اور ہر معاشرتی مسئلہ کے فلسفے کو واضح کیااورمختلف اقوام کے عروج و زوال کی تفصیلی داستانیں رقم کیں۔ سماجیات کے حوالے سے اُن کی تصنیفات اور تحریریں انہیں سماجیات کا بانی اور ایک مستند پولیٹیکل سوشیالوجسٹ کے طورپر متعارف کرتی ہیں۔ بعض یورپی مفکّرین کے نزدیک پہلا ماہرِ سماجیات آگسٹ کومٹے کو کہا جاتاہے۔مگر بعض مفکّرین تاریخی حوالے سے بیان کرتے ہیں کہ آگسٹ کومٹے کے پیش کردہ سماجی حقائق وہی ہیں جسے ابنِ خلدون450سال قبل پیش کرچکے تھے۔ اسی وجہ سے مشرقی اور مغربی مفکّرین کے درمیان سماجیات کے بانی کے تعین کے حوالے سے اختلاف پایا جاتاہے اور اس بنا پر ابنِ خلدون کے ماننے والے انہیں ایک ماہرسماجیات کے ساتھ ساتھ علمِ سماجیات کا بانی بھی قرار دیتے ہیں۔ ابنِ خلدون معاشرہ، ریاست، حکومت کی ابتداء، گروہی زندگی، عصبیت اور ثقافت کے علاوہ دیگربے شمار سماجی موضوعات پر روشنی ڈال چکے ہیں اور اس حوالے سے کئی نظریات پیش کرچکے ہیں۔ اُن کے نظریات میں عصبیت کو مرکزی حیثیت حاصل ہے کیونکہ اُن کے پیش کردہ تمام نظریات عصبیت کے محور میں گھومتے ہیں۔ زیرِ بحث نظریہ ’’قوموں کے عروج و زوال‘‘ کے پس منظرمیں بھی نظریہ عصبیت کی کارفرمائی نظرآتی ہے۔ اُن کے مطابق جذبۂ عصبیت مشکلات کے وقت لوگوں کے لئے ایک ڈھالی کی سی حیثیت اختیار کرلیتاہے۔ اس نظریے کی رو سے ایک فرد چاہے اُس کا تعلق کسی بھی گروہ ، خاندان یا قبیلے سے ہو، وہ تعلق کی بنیادپراپنے گروہ، خاندان یا قبیلے کو دوسروں سے برتر خیال کرتاہے۔اس کا یہ تصوّر عصبیت ہے اور یہ ایک فطری عمل ہے۔ قوموں کے عروج و زوال کا نظریہ: ابنِ خلدون کے پیش کردہ تمام نظریات میں سے اس نظریہ کو سب سے زیادہ عالمگیر شہرت حاصل ہے اور دنیا بھرکے سیاسی اور سماجی فلاسفر اس کو اقوام اور ریاست کے حوالے سے ایک مستند اور جامع نظریہ تسلیم کرتے ہیں جبکہ بعض مشرقی مذہبی مفکّرین نے اس نظریے پر تنقید بھی کی ہے۔کیونکہ اُن کی نظر میں ریاستوں کی تشکیل قومی نہیں بلکہ مذہبی جذبے کے تحت عمل میں لائی جاتی ہیں۔ابنِ خلدون کے مطابق ریاستیں قومی جذبے کے تحت تشکیل پاتی ہیں اور قوموں کے عروج و زوال کے پس منظر میں جذبۂ عصبیت یا قوم پرستی کارفرما ہوتی ہے لہٰذا جہاں عصبیت کمزوری کا شکار ہوتی ہے تو اقوام کمزور ہوجاتی ہیں اور جہاں عصبیت طاقتور ہوتی ہے تو وہاں اقوام کی جڑیں بھی مضبوط ہوتی ہیں۔انہوں نے اس نظریے کو اپنے گہرے تاریخی اور سماجی مطالعہ کی بنیادپر قائم کیا ہے۔اس نظریے کو پیش کرنے کے لئے انہوں نے بحیثیتِ تاریخ دان از خود یورپ اور افریقہ کے سماجی اتارجڑھاؤ کا گہرا مطالعہ کیا ہے اور اس نظریے کو قائم کیاہے۔ ان کے خیال میں قومیں ابتداء، نشونما،عروج اور زوال کے ادوار سے گزرتی ہیں۔ یہ ایک چکّر ہوتاہے جوہمیشہ جاری رہتاہے۔ وہ اقوام کی زندگی کا ایک مکمّل چکّر 120سال بیان کرتاہے۔جس میں ابتدائی مرحلہ40سال ارتقائی عمل کا ہوتاہے ۔ اُن کا خیال ہے کہ اس دور میں کوئی منظم حکومت نہیں ہوتی۔ دوسرا مرحلہ بھی 40سال پر محیط ہوتاہے ۔ اس میں ابتداء اور ارتقاء کی ملی جلی کیفیت ہوتی ہیں اور اس دور میں لیڈرشپ کی کمی دور ہوجاتی ہے اور عوام سماجی اور معاشی طورپر نسبتاً بہتر زندگی گزارنے کے اہل ہوجاتی ہے اور حکومتیں مستحکم ہوجاتی ہیں۔اس کے بعدآخری40سال میں اقوام بتدریج تنزلی کی طرف گامزن ہوتی ہیں۔ اُن کے مطابق اس طرح120سال میں ابتداء، ارتقاء اور تنزلی کے تمام مراحل مکمّل ہوجاتے ہیں۔اُن کے نظریے کی روسے اقوام کے عروج اور زوال کے پانچ ادوار ہوتے ہیں جن میں سے وہ گزرتی ہیں۔ 1۔ پہلا دور، ریاست کا ظہور: جب اقوام پر عصبیت کا جذبہ شدّت سے موجود ہوتاہے اور اسی شدید جذبۂ عصبیت کے باعث لوگوں میں اتحاد و اتفاق فطری طورپر پایاجاتاہے۔ یعنی جب قبائل خانہ بدوشی یا بدوی حالت میں رہتے ہیں تو وہ اپنی منفرد خصوصیات کو برقرار رکھتے ہیں۔ یہ وہ خصوصیات ہوتی ہیں جو انہیں دوسرے قبائل سے ایک الگ شناخت مہیاّکرتی ہیں۔ اس دور میں وہ محنت کے عادی ہوتے ہیں۔ نہایت کٹھن زندگی گزارتے ہیں اور بے مثال جرأت و بہادری کا مظاہرہ بھی کرتے ہیں۔ اس صورت میں انہیں کمزور اقوام پر قبضہ کرنے اور ان پر حاوی ہونے کی شدید خواہش ہوتی ہے۔لیکن ریاست میں معاشی تنگ دستی اور لوگوں کی ناتجربہ کاری کے باعث وہ دوسری اقوام پر غلبہ حاصل کرکے مزید خطرات مول لینے سے قاصر رہتے ہیں۔ اسی لئے وہ اپنی چھوٹی سی طاقت کو کنٹرول میں رکھ کر اپنے عوام کی اصلاح کو ترجیح دیتے ہیں۔ اس دور میں عوام کی طرف سے بغاوت یا دشمنی کے ممکنہ خطرے کے پیش نظر ان پر زیادہ ٹیکسوں کے بوجھ ڈالنے سے اجتناب کیا جاتاہے۔کیونہ اس سے ابتداء میں ہی ریاست کو انتشار کا شکار ہونا پڑتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ حکمران خود کو عوام دوست ثابت کرنے کے لئے اُن سے نرمی کے ساتھ پیش آتے ہیں اور سادہ زندگی بسرکرنے کو اپنا شعار بناتے ہیں اور یوں پورا معاشرہ محنت اور جفاکشی کی علامت کے طور پر سامنے آتاہے۔ 2۔ دوسرا دور، ریاست کا ارتقاء: دوسرے دورکی شروعات خودمختاری اور برتری کے احساس سے ہوتاہے۔یہ تصوّر سب سے پہلے حاکم کے ذہن میں ابھرتاہے کہ وہ اپنی ریاست کے عوام میں سب سے برتر انسان ہے۔اسی لئے اُن کے احکامات ،حاکمیت ، طاقت اور قوّت کو تسلیم کرنا عوام پرفرض ہے اور عوام کو یہ ہر حال میں تسلیم کرنا چاہیے۔اس طرح آہستہ آہستہ غیرمنظّم جمہوریت سے بادشاہت یا پھر موروثی حکومت کا قیام عمل میں آتی ہے جس کا اظہار شخصی حکمرانی کے ذریعے کیا جاتاہے اور حکمران ڈکٹیٹر کی حیثیت سے اپنی حکمرانی کو مزید تقویت دینے کی کوشش کرتا ہے، اسی غرض سے تنخواہ دار فوج کے قیام کو عمل لاجاتاہے تاکہ مادی وسائل پر اپنی حکومت کو مزید مستحکم اور طاقتور بنایا جاسکے۔ 3۔ تیسرا دور، ریاست کا عروج : یہ وہی دور ہوتاہے جس میں ریاست اور قوم مادی اعتبارسے ترقی کی راہ پر گامزن ہوتاہے۔اس میں حکمران اور عوام دونوں کے انداز اور طرزِ زندگی بدل جاتے ہیں۔عوام اپنے چھوٹے چھوٹے عصبیتی جذبوں سے نکل کر قومی عصبیت کے دائرے میں داخل ہوجاتے ہیں اور حکمران اُسے اپنے حق میں استعمال کرتاہے اور اپنی طاقت میں اضافہ کرتاہے اور پوری قوم کو دوطاقتوں پر منظّم کرتاہے۔ پہلا حکمران کی طاقت اور دوسرا قوم کی طاقت کہہ کر دونوں کو لازم و ملزوم قرار دیتاہے۔ملک میں موجود تمام اقوام سے رابطے اور تعلق اسی نتیجے میں بڑھاتاہے۔اس سے ذاتی اور علاقائی عصبیت کا جذبہ ماند پڑجاتاہے۔ اس صورت حال میں حکمران اپنی طاقت کے بل بوتے پر عالی شان عمارات نت نئے اور بلند و بالا مقبرے اور مزارات تعمیر کرواتاہے۔ اس کے علاوہ دیگر یادگاروں اور عام لوگوں کی بھلائی کے امور کی طرف بھی خصوصی توّجہ دی جاتی ہے۔اس سارے کام کے لئے کثیررقم وہ عوام پر ٹیکس لگاکرحاصل کیا جاتاہے اور عوام تعمیر و ترقی اور خوشحالی کو دیکھ کر بخوشی یہ رقم بطورِ ٹیکس ادا کرتے ہیں۔ اس طرح حکمران اور عوام کے باہمی اتحاد اور مجموعی قومی عصبیت کی بناپر قوم ترقی کی انتہائی منازل تک پہنچ جاتی ہے اور دیگر بین الاقوامی معاشروں میں بھی قدرو منزلت کا درجہ حاصل کرلیتی ہے۔ 4۔ چوتھا دور، ریاست کا زوال: اس دور میں عروج کے بعد زوال شروع ہوجاتاہے کیونکہ عروج ہمیشہ برقرار رہنے والی صورت حال نہیں ہوتی بلکہ شان اور رتبہ ، طاقت اور آرام و آسائش کی بدولت اقوام کا ایک ایسی حالت اور دور میں داخل ہوجانا لازمی امر بن جاتی ہیں جہاں سوائے سستانے، دولت ضائع کرنے اور کاہلی کے انہیں اور کوئی کام نہیں ہوتا۔ گویا اقوام میں ایک ٹھہراؤ پیداہوجاتاہے، لوگ محنت ومشقت سے کنارہ کش ہوجاتے ہیں اور عیش و عشرت، تن آسانی اور آرام طلبی کے عادی ہوجاتے ہیں۔اس عیش پرستی کے نتیجے میں ملک کے مختلف حصّوں میں شورشیں اور بغاوتیں جنم لیتی ہیں اور عیش و نشاط میں دھت ہونے کے باعث حکمران ان بغاوتوں کو دبانے میں ناکام ہوجاتے ہیں اور مملکت ٹوٹ پھوٹ اور زوال کا شکار ہوجاتی ہے۔اس صورتِ حال سے قبل جو افراد ریاست کی دفاع کے لئے ہروقت تیار رہتے تھے اور طاقت و اقتدار کی بنا پر کوئی بھی ان کی طرف آنکھ اٹھانے کی جرأت نہیں کرسکتاتھا۔ اب اس حالت میں اگر کوئی حملہ آور نمودار ہوتو یہ اس قابل بھی نہیں ہوتے کہ اُسے پیچھے دھکیل سکیں۔لہٰذا اپنی جان کی حفاظت کو پہلی ترجیح سمجھ کرخود پیچھے رہ جاتے ہیں اورانہیں مجبوراً دوسروں کی مدد حاصل کرنا پڑتی ہے تاکہ ریاست کا دفاع ممکن بنایاجاسکے۔اس طرح ایک قوم جو ایک دور میں اپنے رعب اور دبدبہ کی بدولت دوسروں کے لئے خوف اور دہشت کی علامت تھی اب کسی پڑوسی طاقت کا شکار ہوجاتی ہے اور وہ قوم جوتہذیب کے عروج پر تھی، زوال کی جانب گامزن ہوجاتی ہے۔ 5۔ پانچواں دور، ریاست کا خاتمہ: پانچواں دور پچھلے دور کا ایک تسلسل ہوتاہے اور ریاستی زوال کی انتہا اس دور کی سب سے بڑی علامت ہوتی ہے۔ اس آخری دورمیں پوری قوم انتشار اورتفریق کا شکار ہوجاتی ہے۔ اتحاد، اتفاق اور یکجہتی کا مکمل طور پر خاتمہ ہوجاتاہے۔ حکمرانوں کی غلط پالیسیوں اور عیش پرستی کی بدولت عوام آپس میں دست و گریباں ہوجاتے ہیں۔ معاشی بدحالی، انتشاراور بدنظمی انتہائی عروج پرہوتی ہے۔ لوٹ مار، قتل و غارت گری سمیت ہر قسم کی معاشرتی و سماجی برائیاں اور جرائم جنم لیتے ہیں۔ ایسے میں کوئی تیسری بڑی طاقت ان پر حملہ کرکے انہیں مغلوب کرلیتی ہے اور ریاست پر طاقتور قوم کا قبضہ ہوجاتاہے اور یہ قوم مٹ جاتی ہے۔ ابنِ خلدون کے نظریہ عصبیت سے مراد وہ قومی جذبہ ہے جو قوم کے مختلف قبائل کو ایک مخصوص زبان، ثقافت ، تہذیب اور جغرافیہ سے تعلق کی بنیاد پر آپس میں جوڑتاہے اور یہی جذبہ ایک مخصوص جغرافیہ پر بسنے والے انسانوں کو آپس میں اکھٹا رہنے اور زندگی گزارنے کا موقع فراہم کرتاہے۔ جس کے باعث وہ اپنے آپ کو دوسروں سے الگ تصور کرتے ہیں اور ان کا یہی جذبہ اُن کے لئے ایک ریاست کے ظہورکو عمل میں لانے کے لئے مددگار ثابت ہوتی ہے۔دوسری طرح یوں کہا جاسکتا ہے کہ نظریۂ عصبیت دراصل قوم پرستی کا جذبہ ہے جس کاتعلق کسی قوم سے ہوتا ہے اور قوم کا تعلق کسی مخصوص جغرافیہ سے ہوتی ہے۔ اس حوالے سے وہ بیان کرتے ہیں کہ ’’ہرقبیلہ یا گروہ خواہ کتناہی سادہ ہو اقتدارحاصل کرنے کی زبردست خواہش رکھتاہے۔ یہی وہ خواہش ہے جومعاشرے اور مملکت کو جنم دیتی ہے۔ اسی خواہش کے تحت غلبہ حاصل کرنے کی اُمنگ پیدا ہوتی ہے اور دفاع کا جذبہ پیدا ہوتاہے۔‘‘ ان تمام خصوصیات کو انہوں نے عصبیت قرار دیا ہے اور سیاسی معاشرے کی قوت کا بنیادی ذریعہ بھی عصبیت ہی کو قرار دیا ہے۔ ان کا نظریہ’’ قوموں کے عروج و زوال‘‘ عصبیت کی دوسری کڑی ہے جو ایک قوم کی طرف سے جذبہ عصبیت کے تحت قائم کردہ ریاست کے مختلف مراحل کو بیان کرتاہے۔ اُن کے مطابق ریاست کی تشکیل کے لئے کسی قوم کا ایک جغرافیہ پر قبضہ ہونا اورقوم کے افرادمیں قوم پرستی اور باہمی اتحاد کے جذبے کا ہونا اور اُس جذبے کوپروان چڑھانا لازمی امر ہوتے ہیں۔ یعنی کہ ریاست کی تشکیل اور بقاء میں جذبہ عصبیت یا قوم پرستی کو بنیادی اہمیت حاصل ہے۔ اگر جذبۂ عصبیت میں شدّت ہوتی ہے تو قوم کے افراد اپنی ریاست کے قیام اور بقاء میں کامیابی حاصل کرسکتے ہیں اگر یہ جذبہ ماند پڑجاتی ہے تو اُس کے ساتھ ریاست کی بقاء بھی خطرے میں پڑ جاتی ہے۔ریاست کی تشکیل اور بقاء کے حوالے سے اُن کے بیان کردہ دورانیے کا انحصار بھی اقوام کی جذبۂ عصبیت یا قوم پرستی پر منحصر ہے جتنے عرصے میں اقوام اپنے جذبۂ عصبیت کو شدّت کے ساتھ برقرار رکھ سکتے ہیں تو اُن کے ریاست کی بقاء کا دورانیہ بھی وہی عرصہ ہوگا۔ جب کہ بعض جنوبی ایشائی مذہبی مفّکرین ،ابنِ خلدون کے اس نظریے پر تنقید کرتے ہیں اورریاست کی تشکیل اوربقاء کے حوالے سے مذہبی جذبے کو ضروری خیال کرتے ہیں اُن کے مطابق ریاست کی تشکیل اور بقاء میں قوم پرستی کے جذبے کی نہیں بلکہ مذہبی جذبے کی ضرورت ہوتی ہے۔ لیکن ابنِ خلدون نے ریاست کی تشکیل کے لئے مذہبی جذبے سے زیادہ قومی جذبے کو ضروری قرار دیا ہے اور ریاست میں طرزِ حکومت کے دو طریقے بیان کئے ہیں ۔ پہلا دینی حکومت، یعنی جس کی بنیاد شرع پر قائم ہوتی ہے اور دوسرا عقلی حکومت، جس کی بنیاد دنیاوی اصولوں پر قائم ہوتی ہے۔ اُن کے مطابق جذبۂ عصبیت کے تحت ریاست کی تشکیل کے بعدیہ اقوام پر منحصر ہے کہ وہ اپنے ریاستوں میں کس طرح کی حکومت کے قیام کو عمل میں لاتے ہیں اور کس قدر اپنے جذبۂ عصبیت کو برقرار رکھ کر اپنے ریاست کی بقاء کو ممکن بناسکتے ہیں۔ ********