واشنگٹن(ہمگام نیوز ) اسرائیل اور حماس کے درمیان جنگ کے اثرات امریکہ میں ‘اسلامو فوبیا ‘کے بڑھتے ہوئے واقعات کے ساتھ ساتھ یہود مخالف سرگرمیوں کی صورت بھی ظاہر ہونے لگے ہیں۔ متحارب کمیونٹیز کے افراد میں تشدد کے واقعات بھی رپورٹ ہو رہے ہیں۔
امریکہ اور مغربی ممالک میں اسلام اور مسلمانوں سے نفرت کے واقعات کو ‘ اسلامو فوبیا ‘ کا نام دیا جاتا ہے ، یہ واقعات عام طور پر ہوتے رہتے ہیں۔ اسی طرح کے واقعات اگر دنیا کے کسی اور ملک میں ہوں تو اسے عدم رواداری اور مذہبی انتہا پسندی کانام دیا جاتا ہے۔ البتہ امریکہ میں یہ ‘اسلام و فوبیا ‘ کے نام سے مشہور اور ملفوف ہے۔
واضح رہے امریکہ جو کہ کثیر مذہبی و قومی شناختوں کے حوالے سے دنیا کا ایک اہم ملک ہے میں اسرائیل اور حماس جنگ کے دوران سب سے پہلا واقعہ ایک ستر سال سے زائد کے امریکی شہری کے ہاتھوں قتل ہونے والا کم سن مسلمان بچہ تھا ۔ اس بچے کو اور اس کی ماں کو محض مسلمان ہونے کی وجہ سے امریکی مالک مکان نے خنجر سے نشانہ بنایا تھا۔
اب پر تشدد واقعات کے پھیلاو کا خدشہ ظاہر کیا جارہا ہے۔ علاوہ ازیں سوشل میڈیا اور آن لائن دوسروں کو ہراساں کیے جانے کے واقعات کی شکایات بھی آرہی ہیں۔
‘دی کونسل آف اسلامک ریلیشن’ ( کئیر) نامی ادارے نے بتایا ہے کہ اسے 774 ایسی شکایات موصول ہوئی ہیں۔ یہ شکایات فلسطینیوں اور عرب شہریوں کے خلاف تعصب برتنے کے واقعات سے متعلق ہیں اور سات اکتوبر کے بعد سامنے آئی ہیں۔
یہ بھی بتایا گیا ہے کہ دو ہزار پندرہ سے اب تک اس نوعیت کے واقعات کی بلند ترین سطح ہے۔ مجموعی طور پر یہ 2022 میں سامنے آنے والی شکایات سے تین گنا ہیں۔
اس بارے میں ‘اینٹی ڈیفیمیشن لیگ ‘ ( اے ڈی ایل ) کا کہنا ہے کہ سات اکتوبر کے بعد سے امریکہ میں یہود مخالف واقعات میں 388 فیصد اضافہ ہو گیا ہے۔
ان میں 312 واقعات تشدد اور ہراساں کیے جانے سے متعلق ہیں۔ جبکہ 190 واقعات کا سبب براہ راست اسرائیل اور حماس کی جنگ بنی ہے۔
‘کئیر’ کے مطابق ایک 18 سالہ فلسطینی کو بروکلین میں تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ مسجدوں میں موت کی دھمکیاں دی گئیں اور ایک چھ سالہ بچے کو چھرا گھونپ دیا گا۔ امریکی حکام کا کہنا ہے کہ یہ واقعہ اسے فلسطینی ہونے کی وجہ سے ٹارگٹ کرنے کے باعث پیش آیا۔
‘ اے ڈی ایل ‘ نے اپنے پاس رجسٹرڈ واقعات میں ان شکایات کا بھی ذکر کیا ہے جو آن لائن ہراساں کرنے وغیرہ سے متعلق ہیں۔ ان واقعات کا تعلق حماس یا اسرائیل مخالف دونوں اطراف سے ہے۔
امریکی جسٹس ڈیپارٹمنٹ نے اس صورت حال کے بارے میں کہا ہے ‘ بڑھتے ہوئے واقعات کو مانیٹر کیا جارہا ہے۔ دوسری جانب صدر جوبائیڈن جنہوں نے اسرائیل کا دورہ کر کے اپنی مکمل حمایت اسرائیل کے پلڑے میں ڈالی تھی اور بحری بیڑے تک بھجوا دیے ہیں۔ انہوں نے بھی امریکہ میں عوام کے درمیان اس نئی لہر کی مذمت کی ہے۔
امریکہ کی سابق وزیر خارجہ ہلیری کلنٹن کو بھی ایک سماجی فورم پر حالیہ دنوں نے حاضرین کی طرف سے اسرائیل اور فلسطینیوں کے بارے میں امریکی پالیسی کے خلاف سخت سوالات اور تنقید کا سامنا کرنا پڑا تھا۔