واشنگٹن (ہمگام نیوز) امریکی سینٹر برنی سینڈرز نے اعلان کیا ہے کہ وہ اسرائیل کو جارحانہ جنگی امریکی اسلحے کی فراہمی رکوانے کے لیے قرار داد میں ایک مسودہ پیش کریں گے۔ ان کا یہ اعلان ایک ایسے موقع پر سامنے آیا ہے جب غزہ میں اسرائیلی جنگ کا ایک سال مکمل ہونے والا ہے اور فلسطینیوں کی ہلاکتوں کی تعداد اکتالیس ہزار سے بھی متجاوز ہو چکی ہے ۔ دوسری جانب امریکی صدارتی انتخاب بھی محض چالیس بیالیس دن دور رہ گیا ہے۔

برنی سینڈرز ایک آزاد سینیٹر ہیں مگر ان کی ڈیمو کریٹس کے ساتھ غیر معمولی قربت ہے۔ ان کا نام ایک معتبر حیثیت کا حامل ہے حتی امریکہ میں موجود غیر ملکی شہری بھی ان کے لیے گرمجوشی رکھتے ہیں۔

ان کے مطابق وہ اسرائیل کو اسلحے کی مزید سپلائی روکنے کے لیے اپنا مسودہ اگلے ہفتے کے دوران کانگریس میں پیش کریں گے۔

امریکی قانون’ دی یو ایس آرمز کنٹرول ایکٹ’ کانگریس کو اختیار دیتا ہے کہ وہ بیرون ملک بھیجا جانے والا اسلحہ روک سکتی ہے۔اس کے لیے کانگریس سے ایک قرار داد کی منظوری ضروری ہوتی ہے۔

اگرچہ امریکی کانگریس نے ایسی کوئی بھی قرارداد پاس نہیں کی ہے ۔

تاہم اگر کوئی قرارداد دائر بھی کی جاتی ہے تو وہ بعض اوقات ماضی کے صدور کو محض شرمندہ کرنے والی سخت ناراضگی کے اظہار پر مبنی بحثوں کا باعث بنتی ہیں۔

سینیٹر برنی سینڈرز نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ ‘ ایک تباہ کن جنگ کو جاری رکھنے کے لیے اسرائیل کو مزید جارحانہ ہتھیار فراہم کرکے امریکہ اپنے اور بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی کا ارتکاب کرے گا۔ ‘

اس سے قبل صدر جو بائیڈن کو غزہ میں اسرائیلی جنگی مہم کے دوران اپنے ساتھی ڈیموکریٹس کے ان مطالبات کا سامنا کرنا پڑا ہے کہ وہ اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو کی حکومت پر دباؤ ڈالیں کہ وہ فلسطینی علاقے میں تباہ کن انسانی بحران کو کم کرے۔ جوبائیڈن کو اپنی صدارتی انتخابی مہم کے دوران بھی بہت رد عمل دیکھنا پڑا۔ تاہم بعد ازاں ڈیمو کریٹس نے جوبائیڈن کی جگہ کملا ہیرس کو اپنی صدارتی امیدوار نامزد کر دیا ہے۔

اپنے اعلان میں برنی سینڈرز نے اس امر کی نشاندہی کی ہے کہ ‘جو بائیڈن انتظامیہ نے گذشتہ ماہ اسرائیل کو 20 ارب ڈالر سے زیادہ کے ہتھیاروں کی فروخت کی منظوری دی ہے۔ اس اسلحے میں غزہ میں دسیوں ہزار شہریوں کی ہلاکتوں سے منسلک نظام بھی شامل ہیں۔ ‘

گویا ایک طرف امریکہ جنگ بندی کا کہہ رہا ہے تو دوسری طرف جنگی آگ بھڑکائے رکھنے کے لیے جنگی اسلحہ بھی دیے جارہا ہے۔

برنی نے اس تناظر میں کہا کہ ایسے ہتھیاروں کی برآمدگی کے لیے 1961 کے’ فارن اسسٹنس ایکٹ’ اور ‘آرمز ایکسپورٹ کنٹرول ایکٹ’ میں شامل انسانی حقوق کی دفعات کی خلاف ورزی ہوگی۔

اس بارے میں وائٹ ہاؤس نے فوری طور پر تبصرہ کرنے کی درخواست کا جواب نہیں دیا ہے۔

غزہ میں قائم فلسطینی وزارت صحت کے مطابق اسرائیل کی فوج نے اب تک غزہ کے تقریباً 23 لاکھ لوگوں کے گھر تباہ کر کے انہیں بے گھر کر چکی ہے۔ غزہ کی مسلسل سٹریٹجک ناکہ بندی سے مہلک بھوک اور بیماری میں اضافہ ہوچکا ہے جبکہ 41,000 سے زائد فلسطینی جاں بحق ہو چکے ہیں۔ جن میں ستر فیصد بچے اور خواتین ہیں۔

ادھر امریکی حکام کہتے ہیں کہ امریکہ نے اسرائیل کا سب سے بڑا اتحادی اور ہتھیار فراہم کرنے والا ملک ہونے کے ناطے اکتوبر 2023 سے غزہ جنگ کے آغاز کے بعد سے اسرائیل کو 10,000 سے زیادہ انتہائی تباہ کن 2,000 پاؤنڈ (900 کلوگرام) کے بم اور ہزاروں ‘ہیل فائر میزائل ‘ فراہم کر چکا ہے۔ بین الاقوامی خبر رساں ادارے کے مطابق یہ اعدادو شمار رواں سال ماہ جون تک ہیں۔