افغانستان میں جو حکومت وحدت ملی کے تحت انتہائی تاخیر سے تشکیل پارہی اور اس سے قبل تاحال نئی قیادت جس سمت رواں ہے اُس سے نہ صرف زخم خوردہ افغانستان بلکہ پوراخطہ نئے مصائب سے دوچارہوسکتاہے ۔ قطع نظر اس بات سے کہ اشرف غنی کے ترجیحات میں ملک میں قیام امن اولیت رکھتا ہے مگر وہ جس نئی حکمت عملی کے تحت یہ امن حاصل کرنا چاہتے ہیں وہ کسی بھی صورت ممکن نہیں اُوپر سے تمام مسائل کی موجودگی میں اُسے دو نئے مشکلات پاکستان کی طرف سے تحفے میں ملنے والے ہیں پہلہ طالبان کے مختلف گروپس کو داعش کے جھنڈے تلے جنگ کیلئے کمر بستہ کیا جائے گا دوسرا طالبان پر کوئی اثر و رسوخ استعمال کرنے کے کسی بھی زمہ داری سے بری الذمہ ہونا ۔ اب اسمیں کوئی شک نہیں کہ امریکہ یا افغانستان پاکستان سے داعش سے بات چیت میں مدد کی درخواست یاکچھ کرو کامطالبہ نہیں کرسکتے کیونکہ اس نے اب تک طالبان والقاعدہ لیڈروں کو پناہ و سفارتی سہولیات فراہم کرنے \”نام کمایا \”ہے داعش کی سرپرستی کیلئے نہیں ۔ظاہر وہ اپنے آپکو اس سے بھی لاعلم و بے بس دکھائے گا کہ اب تک داعش میں جتنے بھی لوگ جارہے ہیں اور اُس کیلئے بھرتیاں کررہے ہیں سب کے سب طالبان کے صفوں سے نکل رہے ہیں جیسے : داعش کی بیعت کرنے والے طالبان کمانڈر ملا روف علیزئی ۔ امیرداعش ہلمند ، حافظ سعید خان اورکزئی ۔ امیر داعش خراسان ، گلزمان الفاتح ۔ امیرداعش خیبر ایجنسی ، خذیفہ ۔ امیرداعش حلقہ دیر ، عمر منصور ، شیخ مسلم دوست ۔ ا میرداعش خیبر ایجنسی ، غلام رسول ۔ امیرداعش وزیرستان ، طلحہ ۔ امیرداعش لکی مروت ، حافظ دولت ۔ امیرداعش کرم ایجنسی ، خالد منصور ۔ امیرداعش ہنگو ، شیخ مفتی حسن ۔ امیرداعش پشاور قاری ہارون ، شیخ محسن ۔ امیرداعش کُنڑ افغانستان ، ابوعبداللہ ۔ ننگرہار افغانستان رہی بات طالبان سے بات چیت کی تو اس سوال پر ہم اپنے پچھلے کئی مضامین میں بحث کرچکے ہیں ۔گویا دونوں صورتوں میں پاکستان صرف ایک مطالبہ کیا جاسکتا ہے کہ وہ ان شدت پسندوں کے خلاف آپریشن کرے جس کا مطلب ہے پاکستان کو مزید مالی مدد دیا جائے کہ جس

کیلئے پاکستان پشتونوں کی نسل کُشی مختلف ناموں اور مختلف فرنٹ سے کررہا ۔ اوریہ بات یقینی ہے کہ امریکہ و اتحادیوں کے پاکستان کو دئے جانے والے مدد کا حشر ماضی میں ہوا ہے اب بھی اُس سے کچھ الگ نہیں ہونے والا۔ کیونکہ امریکہ پاکستان پر لاکھ عدم اعتماد کا اظہارکرنے کے باوجود اُسکے امداد کے درست استعمال کا میکانزم نہیں بنا سکا ہے۔ اشرف غنی حکومت کی نئی پالیسیاں افغانستان کے سابقہ حکمرانوں کے پالیسیز کے عین متضادہے جس کے تحت پاکستان کے توسیع پسندانہ عزائم کوصرف نظر کرکے اُس سے خیرکی تمنا رکھی جارہی ہے۔ جسکی ایک جھلک آپ کے اقتدار میں آنے کے فوراًبعد افغانستان کے دیرینہ و آزمودہ دوست ہندوستان کے سیکورٹی مشیر اجیت دوال سے گفتگو میں دکھائی دیتی ہے۔ \”President Ghani told Indian National Security Advisor Ajit Doval that Afghanistan would no longer seek Indian military aid. Second, he made a series of hugely concessional offers to Pakistan. Third, Pakistan will host the next Heart of Asia Ministerial instead of India. Fourth, Afghanistan, China and the U.S. now appear to accept that Pakistan will never allow transit trad to India through its twrritory.\” یہی وجہ ہے کہ سابق افغان صدر آحمد کرزئی انتہائی تشویش میں برہم نظر آرہے ہیں۔کسی سے بھی زیادہ اُنھیں اس چیز کا پتہ ہے کہ جس طرح پاکستان نے مجاہدین سے دوستی و اُنکی سرپرستی کی اوربعد میں جونہی اُنھوں نے اپنے فیصلوں میں خودمختاری دکھانے کی کوشش کی تو اُنھیں آپس میں لڑا کراُنکے خلاف طالبان کو بھرپور قوت کیساتھ تخت نشین کیا اورفغانستان کو اپنا پانچواں صوبہ بنانے کا منصوبہ بنایا۔اب ٹھیک وہی کچھ نئی افغان قیادت کیساتھ کررہا جوچیز مجاہدین کے تختہ اُلٹنے کا سبب بنا وہ اُن کے درمیان اقتدار کا کشمکش تھا یہاں بھی وحدت ملی کی حکومت بنانے کے باوجود ایک ہیجانی کیفیت موجود ہے جو نئی کابینہ چننے تاخیر کا سبب بنا۔اس پر سوا یہ کہ اشرف غنی کے پشتون علاقوں میں سینکڑوں کے حساب سے طالبان داعش میں شامل ہورہے ہیں مقامی معلومات کے مطابق ہلمند جیسے اہم صوبے میں داعش کا امیر جو کبھی طالبان کا مقامی کمانڈر ہوا کرتا تھا ڈھائی تین سو گاڑیوں کے قافلے کیساتھ علاقے میں دندناتا پھرتاہے۔ اس کا مطلب ہے کہ یہ پدیدہ کسی بھی وقت سارے کے سارے منظر نامہ کو تبدیل کرکے رکھدے گا جس سے سب سے پہلے وحدت ملی متاثر ہوگی۔ امریکہ اور اس کے اتحادیوں اور خاص کر روس ووسطیٰ ایشیائی ممالک کیلئے جو چیز سب سے زیادہ قابل تشویش ہے وہ یہ کہ افغانستان داعش کا منزل نہیں ایک پڑاؤ ہے جو وسطیٰ ایشیا میں توانائی خزانوں تک پہنچنے سے قبل اُن کے راستوں پر قبضہ کرنے کی غرض سے زیرتسلط ہونا لازمی ہے۔اس تناظر میں جو منظرنامہ بننے جارہا اُس میں افغانستان متاثر ہوگا ہی لیکن اس سے وسطیٰ ایشیا اور روس کس طرح داخلی مشکلات کا شکار ہوں گے وہ ایک الگ بحث ہے۔ امریکہ اور روس کے درمیان جو کشیدگی اور روس پاکستان کے درمیان جو مصنوعی قربت بڑھی ہے وہ پاکستان،طالبان اور داعش جیسے قوتوں کیلئے بہترین فرصت ہے جو مذکورہ بڑی قوتوں کواُنکے خلاف مشترکہ حکمت عملی بنانے کی راہ میں رکاوٹ ہوگی۔ افغانستان کا پاکستان کیساتھ غیر حقیقی قربت کی وجہ سے امریکہ روس سمیت علاقائی قوتوں کے درمیان طاقت کا توازن برقرار رکھنے والا ہند نئی افغان پالیسی میں پیچھے دھکیلا جائیگا جس سے نہ صرف افغانستان میں ترقیاتی کام اورمجموعی اقتصادی ترقی کی رفتار شدید متاثر ہوگی بلکہ پہلے سے جنگ زدہ ملک میں بیروزگاری وبدحالی کی ایسی لہر دؤڑے گی جولاکھوں نوعمر اور نوجوانوں کو دہشتگردوں کے جنگ کا ایندھن بنانے کا کام آسان کرے گی۔ اگر افغانستان کی نئی حکومت کی ترجیحات میں پاکستان اولیت رکھتی ہے یا اس پرانحصار کی طرف مائل ہے تو بلوچ بارے افغان پالیسی ایکسواَسی ڈگری تبدیل ہوگی جوبذات خود افغان اور مہذب دنیا کو ایک فطری اتحادی سے محروم کردے گی۔پاکستان بارے جس دوغلی پالیسی نے امریکہ کو ایک کامیاب معرکہ سے ناکام لوٹایاوہی دوہری پالیسی اگر بلوچ بارے افغانستان اپنائے گی تو پاکستان کیلئے آسانیاں اور باقی تمام کیلئے مصیبتیں پیداہوں گی۔ گوکہ بلوچ اپنی آزادی کی جنگ لڑرہی جو1839ء سے جاری ہے ا ور اُسکا براہ راست افغانستان سے کوئی لینا دینا نہیں مگر اُس تحریک میں موجودہ حرارت ایک بہت بڑے علاقے کوکسی حد تک افغانستان مخالف سرگرمیوں سے محفوظ رکھ رہا ہے۔ اِسکی زندہ مثال بلوچستان کے پشتون علاقوں میں شدت پسندوں کی موجودگی اور کوئٹہ شوریٰ وطالبان رہنماؤں کی سرگرمیوں کی مسلسل رپورٹیں ہیں جب کہ بلوچ علاقوں میں فقط وہاں شدت پسندوں کے اثرورسوخ کے شواہد ملتے ہیں جہاں بلوچ تحریک آزادی کے اثرات کم اور پاکستانی سردار ونواب و سرکاری ملاؤں کا اثرنفوذ زیادہ ہے۔اِسی حقیقت کی بنیاد پر کہاجاسکتا ہے کہ بلوچ نہ صرف اپنی بقا اور آزادی کی جنگ لڑ رہی بلکہ پوری دنیا کے اُس جنگ کا فحال حصہ ہے جودہشت گردی کے خلاف عالمی طور پر لڑی جارہی ہے لہذابلوچ کو نظرانداز کرکے یا اُسے اُس کا جائز مقام دئے بغیر یہ جنگ جیتنے کا خواب بھی شرمندہء تعبیر نہیں ہوسکتا ۔