یکشنبه, اپریل 20, 2025
Homeخبریںافغانستان میں قیام امن بعض ممالک کو پاکستان کی نیت پر شک...

افغانستان میں قیام امن بعض ممالک کو پاکستان کی نیت پر شک ہے ، ،بی بی سی

لندن(ہمگام نیوز)برطانوی نشریاتی ادارے نے اپنی رپورٹ میں الزام عائدکیا ہے کہ پاکستان افغانستان میں قیام امن کیلئے عملی طور پر سنجیدہ اقدامات نہیں اٹھا رہا ، بعض ممالک کو پاکستان کی نیت پر شک ہے جبکہ طالبان کی جانب سے صاف انکار نے چار ملکی گروپ کی مذاکرات کی تیاریوں کو بریک لگا دیئے ہیں،امریکہ کی افغانستان میں موجودگی کو 15 سال ہوچکے ، ابھی مکمل انخلا کا کوئی امکان دکھائی نہیں دیتا ہے۔بی بی سی کے مطابق افغانستان میں ڈاکٹر اشرف غنی کی حکومت اور طالبان کے درمیان براہ راست مذاکرات کی کوششیں بظاہر فی الحال تعطل کا شکار ہیں۔ طالبان کی جانب سے صاف انکار نے چار ملکی گروپ کی تیاریوں کو بھی بریک لگا دیے ہیں، بعض ممالک کو آج بھی پاکستان کی نیت پر شک ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ پاکستان قیام امن کے لیے سنجیدہ ہے لیکن یہ سنجیدگی عملی صورت اختیار نہیں کر پا رہی ہے۔افغانستان میں کابل حکومت اور طالبان کے درمیان براہ راست مذاکرات کی راہ میں حائل رکاوٹوں میں ایک بڑا قضیہ غیرملکی افواج یعنی امریکی فوجیوں کی موجودگی کا ہے۔ طالبان نے مذاکرات سے انکار والے بیان میں واضح طور پر کہا کہ امریکی فوجیوں کے مکمل انخلا تک بات چیت کا کوئی امکان نہیں ہے۔امریکہ کی افغانستان میں موجودگی کو 15 سال ہوچکے ہیں اور ابھی مکمل انخلا کا کوئی امکان دکھائی نہیں دیتا ہے۔ افغانستان کی دن بہ دن تبدیلی ہوتی صورتحال میں اس کے فوجیوں کی تعداد اور واپسی کی تاریخ میں بھی تبدیلیاں آ رہی ہیں۔ایک منصوبہ 2016 کے اختتام تک ماسوائے 1000 فوجیوں کے تمام کے انخلا کا بھی تھا لیکن اب ایسا کچھ نہیں۔کابل میں افغان امریکہ مشترکہ کمیشن کا ایک اجلاس گذشتہ دنوں منعقد ہوا جس میں واضح طور پر کہا گیا ہے کہ 2016 کے بعد بھی امریکی موجودگی دو مقاصد کے حصول کے لیے رہے گی۔ ان میں سے ایک افغان سکیورٹی فورسز کی تربیت اور استحکام اور دوسرا دہشت گردی کے خاتمہ ہے۔امریکی وزیرِ خارجہ جان کیری نے کہا ہے کہ افغانستان میں دو حریف رہنماؤں اشرف غنی اور عبداللہ عبداللہ کے درمیان شراکتِ اقتدار کا معاہدہ ختم کیے جانے کے لیے ابھی کوئی وقت مقرر نہیں کیا گیا۔وزیر خارجہ جان کیری سے جب ان کے دورہ کابل کے دوران رواں سال کے اختتام تک انھیں 5500 تک لانے کی بابت پوچھا گیا تو ان کا جواب تھا کہ صدر باراک اوبامہ اس سلسلے میں فیصلہ عسکری رہنماؤں کے مشورے سے کریں گے۔امریکی فوجیوں کی موجودگی پر طالبان کے علاوہ افغانستان میں ملوث ہر ملک کا اپنا نکتہ نظر ہے۔۔ڈاکٹر اشرف غنی کی حکومت کا طالبان پر الزام ہے کہ وہ مکمل انخلا میں بڑی روکاوٹ طالبان کی جنگی کارروائیاں ہیں۔ قندوز اور ہلمند میں طالبان نے جو جنگی یلغاریں کیں اس کے بعد افغان حکام کے لیے امریکیوں کی موجودگی ضروری بن چکی ہے۔دوسری جانب سیاسی اور مصالحتی عمل کے محاذ پر افغان حکومت کو ایک چھوٹی کامیابی گذشتہ دنوں گلبدین حکمت یار کی حزب اسلامی کی جانب سے اپنی امریکیوں کے مکمل انخلا کی شرط کو واپس لینے سے ملی ہے۔کابل میں افغان حکام سے مذاکرات میں مصروف اس شدت پسند جماعت کا کہنا ہے کہ وہ اب اس شرط پر زور نہیں دے گی۔ حزب کے رہنماؤں کا کہنا ہے کہ فوجیوں کا انخلا ان کی شرط نہیں بلکہ ایک ہدف ہے۔طالبان جہاں غیرملکی فوجیوں کی واپسی کا مطالبہ کر رہے ہیں تو انھیں پھر غیرملکی شدت پسندوں کے مکمل انخلا کی شرط بھی تسلیم کرنی چاہیے۔ وہاں پناہ لیے ہوئے پاکستانی، ازبک اور اوغر شدت پسند بڑی تعداد میں موجود ہیں۔لیکن حکومتِ کابل اور افغان طالبان کے علاوہ کئی ہمسایہ اور خطے کے ممالک کے امریکی فوجیوں کی موجودگی کے بارے میں مختلف سوچ رکھتے ہیں۔ کوئی بھی مستقل یا طویل مدتی موجودگی کے حق میں نہیں۔چند برس قبل تک ایک وقت تھا کہ جب جنرل اشفاق پرویز کیانی کی قیادت میں پاکستان کی سکیورٹی اسٹیبلشمنٹ امریکیوں کے یکسر اور یکدم انخلا کی خواہشمند نہیں تھی۔ اس کا خیال تھا کہ اس سے جو خلا پیدا ہوگا اسے شدت پسندوں کے لیے بھرنا آسان ہو جائے گا۔سیاسی اور مصالحتی عمل کے محاذ پر افغان حکومت کو ایک چھوٹی کامیابی گذشتہ دنوں گلبدین حکمت یار کی حزب اسلامی کی جانب سے اپنی امریکیوں کے مکمل انخلا کی شرط کو واپس لینے سے ملی ہے۔ کابل میں افغان حکام سے مذاکرات میں مصروف اس شدت پسند جماعت کا کہنا ہے کہ وہ اب اس شرط پر زور نہیں دے گی۔ حزب کے رہنماؤں کا کہنا ہے کہ فوجیوں کا انخلا ان کی شرط نہیں بلکہ ایک ہدف ہے۔وہ مرحلہ وار انخلا کے خواہاں تھے۔ اب تازہ پالیسی کیا ہے کچھ واضح نہیں۔ ایک اعلی سرکاری اہلکار کو یہ کہتے سنا کہ امریکہ کو چلے جانا چاہیے۔ افغانوں کو اپنے حال پر چھوڑ دینا چاہیے۔ جہاں تک پاکستان کی بات ہے تو اسے اپنی سرحد پر باڑ یا دیوار جو بھی کھڑی کرکے اپنے آپ کو محفوظ بنا لینا چاہیے۔ ’افغانستان صدیوں سے عدم استحکام کا شکار رہا ہے اور رہے گا، ہمیں اپنا تحفظ یقینی بنانا چاہیے اور بس۔‘ معلوم نہیں کہ یہ اہلکار حکومتی ادارے کی سوچ کا اظہار کر رہے تھے یا یہ ان کی ذاتی رائے تھی۔افغانستان کے ساتھ سرحدی مسائل کے تناظر میں تو ایسا ہوتا دکھائی نہیں دیتا۔ اور اگر باڑ جیسا کوئی انتظام کر بھی لیا جائے تو کیا اس سے بھارت میں مبینہ دراندازی بند ہوسکی ہے؟اس خطے میں بڑے مقاصد اور اہداف لے کر دوسرا بڑا ملک چین اپنا اثر و رسوخ پڑھا رہا ہے۔ مبصرین کے خیال میں چین، روس اور ایران کسی صورت افغانستان میں امریکی افواج کی طویل مدتی موجودگی کے حق میں نہیں ہیں۔ ان کے خیال میں اس سے افغانستان تو شاید مستحکم رہے لیکن خطہ عدم استحکام کا شکار ہوسکتا ہے۔لیکن دوسری جانب امریکیوں کی غیرمعینہ مدت تک موجودگی کو جواز بنا کر ہر ملک اپنے اپنے مفادات کو بڑھانے کی بھی کوشش کر رہا ہے۔ روسی تاجک افغان سرحد پر اپنے فوجی تعینات کرنے کا خواہاں ہے تو چین اور بھارت معاشی اثرورسوخ بڑھانا چاہتے ہیں۔صدر اوبامہ کی خواہش کہ فوجیوں کا جلد از جلد مکمل انخلا کیا جاسکے ان کے دورے اقتدار کے آخری سال میں ہوتا دکھائی نہیں دے رہا ہے۔ امریکی حکام کے مطابق وہ افغانستان میں کم از کم چند ہزار فوجی 2024 تک رکھنے کا ارادہ رکھتا ہے۔یہ امریکہ اور افغان طالبان کو آپس میں طے کرنا ہوگا، ایک دوسرے کو ضمانتیں دینی ہوگی کہ اگر امریکہ فلاں تاریخ تک مکمل انخلا یقینی بناسکتا ہے تو اس کے جواب میں طالبان اپنی کارروائیاں روک دیں گے۔ اگر بات یہاں سے شروع کی جائے تو شاید افغان مصالحتی عمل آگے بڑھ جائے۔

یہ بھی پڑھیں

فیچرز