چهارشنبه, اپریل 23, 2025
Homeخبریںافغانستان میں لڑائی بڑھنے سے دور اور نزدیک کے بہت سے ملکوں...

افغانستان میں لڑائی بڑھنے سے دور اور نزدیک کے بہت سے ملکوں پر اثر پڑے گا. خصوصی سفیر اقوام متحدہ

جنیوا (ہمگام نیوز) مانیٹرنگ نیوز ڈیسک رپورٹس کے مطابق اقوام متحدہ نے اعلانیہ خبردار کیا ہے کہ افغانستان سے غیر ملکی افواج کے انخلاء کے آخری دنوں میں طالبان کی طرف سے حملوں میں تیزی آگئی ہے اور انہوں نے درجنوں اضلاع پر قبضہ کر لیا ہے۔

اقوام متحدہ کی خصوصی سفیر ڈیبورا لائنز نے سلامتی کونسل کو سنگین نتائج کے بارے میں خبردار کیا اور بتایا کہ مئی کے بعد سے جنگجوؤں نے افغانستان کے 370 اضلاع میں سے 50 اضلاع پر قبضہ حاصل کر لیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ افغانستان میں لڑائی بڑھنے سے دور اور نزدیک کے بہت سے ملکوں پر اثر پڑے گا۔

امریکہ اور نیٹو کے ملک ابھی تک گیارہ ستمبر تک انخلا مکمل کرنے کے بارے میں سنجیدہ ہیں۔ تاہم امریکی وزارتِ دفاع نے کہا ہے کہ طالبان کی بڑھتی ہوئی کامیابیوں کے پیش نظر غیر ملکی فوجوں کے انخلاء کی رفتار کم کی جا سکتی ہے۔

ڈبیورا لائنز نے 15 رکنی سلامتی کونسل کو نیویارک میں بتایا کہ طالبان کی حالیہ پیش رفت ان کی طرف سے کارروائیوں میں تیزی کا نتیجہ ہے۔

انہوں نے کہا کہ جن اضلاع پر طالبان قبضہ کرنے کی کوشش کر رہے ہیں ان میں اکثریت ایسے اضلاع کی ہے جو صوبائی دارالحکومتوں سے اردگرد ہیں اور اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ غیر ملکی افواج کے ملک سے نکلتے ہیں وہ ان صوبائی دارالحکومتوں پر قابض ہونا چاہتے ہیں۔

قبل ازیں امریکہ کی وزارتِ دفاع پینٹاگون کے ترجمان جان کربی نے کہا تھا کہ افغانستان سے غیر ملکی افواج کے مکمل انخلاء کی آخری تاریخ گیارہ ستمبر ہی رہے گی لیکن فوجیوں کی واپسی کی رفتار کو کم کیا جا سکتا ہے۔

امریکہ کی وزارتِ دفاع کے حکام نے گزشتہ ہفتے کہا تھا کہ نصف انخلاء ہو چکا ہے۔

افغانستان سے نیٹو اور امریکی فوج کا جب سے انخلاء شروع ہوا ہے اس وقت سے ملک میں تشدد میں تشویش ناک حد تک اضافہ ہو گیا ہے۔

گزشتہ ایک ماہ کے دوران طالبان کی کارروائیوں میں تیزی آئی ہے اور انہوں نے ملک کے 30 اضلاع پر غلبہ حاصل کر لیا ہے۔ مقامی ذرائع ابلاغ کے مطابق انتہا پسند اسلامی گروہ نے سرکاری فوج سے بھاری مقدار میں اسلح بارود چھین لینے کے علاوہ بڑی تعداد میں افغان فوجیوں کو ہلاک اور زخمی بھی کیا ہے۔

امریکی خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس نے پولیس کے حوالے سے خبر دی ہے کہ طالبان نے دفاعی نکتہ نگاہ سے اہم قندوز شہر کو گھیرے میں لے لیا ہے۔

یہ شہر جو ایک عرصے سے طالبان کے نشانے پر ہے سنہ 2015 میں کچھ دنوں کے لیے طالبان کے ہاتھوں میں چلا گیا تھا لیکن اس کے بعد سرکاری فوج نے نیٹو اور امریکی افواج کی مدد سے طالبان کو پسپا ہونے پر مجبور کر دیا تھا۔

افغان سکیورٹی فورسز نے اتوار کو شمال مشرقی صوبے تخار میں طالبان کے حملوں کو پسپا کر دیا اور دو اضلاع پر اپنا قبضہ بحال کر لیا تھا۔

امریکہ کی وزارتِ دفاع کے ترجمان کا کہنا ہے کہ افغانستان میں صورت حال بدل رہی ہے کیونکہ طالبان ضلعی مراکز پر حملے کر رہے ہیں اور تشدد جو پہلے ہی بہت زیادہ ہے اس میں اضافہ ہو رہا ہے۔

انہوں نے کہا کہ اگر انخلاء کی رفتار کو تبدیل کرنے کی ضرورت پڑے یا فوج کو کسی ہفتے یا دن واپس نکالنے کو روکنا پڑے تو اس میں وہ لچک رکھنا چاہتے ہیں۔

‘ہم مستقل اور روزانہ کی بنیاد پر اس چیز کا جائزہ لے رہے ہیں کہ زمینی صورت حال کیا ہے، ہمیں کیا درکار ہو سکتا ہے اور ملک سے نکلنے کے لیے ہمیں کیا اضافی وسائل درکار ہو سکتے ہیں اور اس کی رفتار کیا ہونی چاہیے۔’

انہوں نے کہا کہ یہ سب اہم فیصلے وقت کے وقت کیے جا رہے ہیں۔ امریکہ نے اکتوبر سنہ 2001 میں طالبان کو اقتدار سے علیحدہ کر دیا تھا۔ طالبان القاعدہ تنظیم کے رہنما اسامہ بن لادن اور دیگر سرکردہ ارکان کو پناہ دیئے ہوئے تھے۔

اقوام متحدہ کے ایک اعلی اہلکار نے گزشتہ سال اس بارے میں خبردار کیا تھا کہ القاعدہ کے بہت سے ارکان اب طالبان میں شمولیت اختیار کر چکے ہیں۔

افغانستان کے صدر ڈاکٹر اشرف غنی کا کہنا ہے کہ حکومتی فورسز طالبان کے حملوں کو روکنے کی پوری صلاحیت رکھتی ہیں لیکن اکثر لوگوں کا خیال ہے کہ غیر ملکی افواج کے ملک سے نکلنے کے بعد ملک ایک مرتبہ پھر طالبان کے ہاتھوں میں چلا جائے گا۔

صدر جوبائیڈن نے اس بات کی یقنی دہانی کرائی ہے کہ فوجوں کے انخلاء کے بعد امریکہ افغان حکومت کی پوری مدد کرتا رہے گا لیکن اس میں فوجی مدد شامل نہیں ہو گی۔

یہ بھی پڑھیں

فیچرز