دوشنبه, اکتوبر 14, 2024
Homeآرٹیکلزافغانستان کے بدلتے حالات کا بلوچ قومی تحریک پر اثرات (وسیم آزاد...

افغانستان کے بدلتے حالات کا بلوچ قومی تحریک پر اثرات (وسیم آزاد بلوچ)

گزشتہ چند سالوں سے دنیا کے حالات عموماً اور جنوبی اور وسطی ایشیاء کے حالات خصوصاً جس تیزی سے بدل رہے ہیں وہ یقیناً خطے کے حالات و واقعات پر نظر رکھنے  والوں کے لئے ایک حد تک حیران کن ہیں۔ امریکی راج کی یکتائی اور بلا شرکت غیر دنیا پر معاشی و تزویراتی حکمرانی کو روس کے انہدام کے نصف صدی بعد کسی ایسی قوت کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے جو بہت کم وقت میں اپنی تیز رفتار ترقی سے دنیا کے تمام ممالک کو پیچھے چھوڑ کر اب امریکہ کو آنکھیں دکھا کر دنیا کو اپنی بنائی ہوئی معاشی زنجیروں میں جکڑ کر سامراجی تخت پر بیٹھنے کیلئے دن رات ایک کررہا ہے، جو کہ ایک غیر معمولی بات ہے جسے نظر انداز نہیں کیا جاسکتا. چین کے عزائم نے امریکہ کو زمین پر اپنی بادشاہت کا دفاع کرنے کے لئے ایک بار پھر سے پوری قوت کے ساتھ حرکت میں آنے کیلئے مجبور کردیا ہے۔ قانون فطرت ہے کہ کوئی بھی ایک طاقت ہمیشہ کے لیے تخت نشین نہیں رہ سکتا۔ طاقت کو تخت نشینی کے بعد بھی مسلسل اپنی پوزیشن کا نئے ابھرنے والی طاقتوں سے دفاع کرنا پڑتا ہے جس کا نتیجہ یقیناً تصادم کی صورت میں نکلتا ہے۔ عالمی طاقتوں کے درمیان تصادم کا نتیجہ پھر چاہے وہ جس سطح پر بھی ہو انسانیت کے لئے تباہ کن ہے۔ لیکن جو اقوام پہلے سے ہی تباہی کے  دہانے پر ہیں وہ ایسے حالات کو اپنے لئے امید کی کرن کے طور پر دیکھتے ہیں، کیونکہ انسانی تاریخ میں ایسے تصادم کے نتائج میں جغرافیائی سرحدوں کی تبدلی یقینی ہے۔
چین اور امریکہ کی طرف سے نئی صف بندیوں کا سلسلہ شروع ہوا ہے تاکہ دوستوں کو بڑھایا اور دشمنوں کو کم سے کم کیا جائے۔ ایسے حالات میں عالمی طاقتوں کی طرف سے کسی کو نظر انداز کرنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ دنیا کی تمام اقوام و ممالک اپنی اہمیت کا اپنی ضرورتوں کا اندازہ لگا کر مستقبل کو اپنی بصیرت و ادراک سے دیکھ کر فیصلہ کررہے ہیں کہ انھیں اس کھیل میں کس کی طرف سے کھیلنا چاہیے۔ دنیا کے نقشے پر موجود ملکوں کے علاوہ وہ اقوام جو اپنی آزادی و خود مختاری کے لئے لڑرہے ہیں ان کے لئے بھی یہ موقع غنیمت سے کم نہیں۔ وہ اپنی بہتر پالیسیوں کے ذریعے اپنی اہمیت منوا سکتے ہیں اور اپنی تاریخی جدوجہد کو منزل سے ہمکنار کرسکتے ہیں۔ لیکن یہ سب اتنا آسان بھی نہیں کہ تاریخ کے تجربات کا گہرائی سے مشاہدہ کئے بغیر, موجودہ حالات پر باریک بینی سے غور و فکر اور مدِ مقابل دونوں طاقتوں کی سیاسی، معاشی اور عسکری قوت سے بخوبی واقفیت کے بغیر، کوئی فیصلہ فائدہ مند ثابت ہو۔
ان حالات میں اگر ہم بلوچ قوم کی بات کریں تو ماضی اور حال میں ہمیں کوئی خاص فرق نظر نہیں آتا۔ ماضی میں برطانیہ کی واپسی اور بعد میں روس کی افغانستان آمد دونوں مواقعوں پر بلوچ قیادت کی پالیسیوں میں ایک حد تک تزبزب اور وقت و حالات سے  عدم مطابقت نے بلوچ قوم کی غلامی کو طوالت دی اور غلامی کی زنجیریں جنھیں کمزور یا ٹوٹنا چاہیے تھا مزید مضبوط ہوتی گئیں. جس کا خمیازہ آج تک بلوچ قوم کو بھگتنا پڑرہا ہے. موجودہ تحریکی ابھار بھی آج کل ایسی ہی حالت کا شکار ہے جہاں بلوچ قومی کاز کو عالمی و علاقائی طاقتیں اپنے لئے بلیک میلنگ کارڈ کے طور پر استعمال کرتی نظر آتی ہیں۔ امریکہ کی افغانستان آمد اور ایران و پاکستان پر دباؤ کی ضرورت، تحریک طالبان پاکستان کی تشکیل، کراچی میں مہاجروں کو استعمال میں لا کر سندھ میں قومی تضاد کو ابھارنا یا پھر ایران میں بلوچ سنی تنظیموں کی فرقہ وارانہ کاروائیاں، اگر ان مخصوص حالات پر جو کہ 2000 کہ بعد اس خطے میں رونما ہوئے غور کریں تو ہمیں سمجھنے میں زیادہ آسانی ہوگی کہ بلوچ قوم اور ریاست پاکستان کے درمیان موجود تضاد کو ایک مرتبہ پھر سے خوب استعمال کیا گیا اور خاص کر اس صدی کی پہلی دہائی میں، اب کی تو بات ہی اور ہے گو کہ ہمیشہ سے طاقتور اور سیاست پر اثر انداز ممالک کا یہ شیوہ رہا ہے کہ تضادات پیدا کرکے چھوڑ دینا، تاکہ بوقت ضرورت وہ انہی تضادات کو ابھار کر اپنے مفادات کا تحفظ یقینی بنائیں۔
شروع دن سے اگر بلوچ قوم عالمی سامراجوں کے مفادات کو سمجھ کر ان سے الجھنے یا انھیں پورا کرنے کی جدوجہد کے بجائے اپنے کمزور پوزیشن میں اپنے قومی مفادات کے دفاع کے لئے خود اپنی پالیسیاں بناتا اور انھیں پورا کرنے کے لئے بہتر لائحہ عمل ترتیب دے کر آگے بڑھتا تو یقیناً آج بلوچ قوم کی پوزیشن میدان میں الگ ہوتی۔ آج جب حالات اس نہج پر پہنچ چکے ہیں کہ 20 سالوں تک مسیحا سمجھ کر جس کا انتظار کیا گیا اور خود اپنی پالیسیاں تشکیل دینے اور انھیں پایہ تکمیل تک پہنچانے کے لئے وسیع پروگرامز بنانے کے بجائے بلوچ اسٹیک ہولڈرز نے جس قوت پر اندھا اعتماد کیا وہ خود اپنی واپسی کی فکر میں پچھلے چند سالوں سے  سرگرداں پھررہا تھا۔ جو اب 20 سالہ جنگ کو ختم کرکے اپنے اتحادیوں کے ساتھ واپسی کا فیصلہ کر چکا ہے۔ اس فیصلے کے اثرات یقیناً براہ راست بلوچ تحریک پر پڑینگے۔
خطے کے موجودہ حالات کا اندازہ چند ایک بلوچ رہنماوں کو پہلے سے تھا اور باقی چند اپنے دھن میں مگن تھے، جہنوں نے اپنی آنکھوں پر خود ہی پٹی باندھے رکھی۔ اول الذکر جن کو حالت کا اندازہ بہت پہلے سے تھا اس دوران بھی وقت کی کوئی کمی نہ تھی۔ لیڈرشپ کی ذمہ داریاں نبھاتے ہوئے اجتماعی راستہ نکالنے کی بجائے اپنے لئے چور راستوں کا انتخاب کیا گیا۔ اپنے تمام ساتھیوں کیلئے ایسے حالات پیدا کئے گئے کہ ہر فرد انفرادی طور پر یہ فیصلہ کرے کہ اسے کیا کرنا ہے۔ اس عمل کا مقصد ناکامی کا بوجھ دوسروں کے کندھوں پہ ڈالنے کہ سوا اور کچھ بھی نہیں تھا گو کہ امریکہ اور اس کے اتحادیوں کی طرف سے بلوچ تحریک کو باقاعدہ کوئی ایسی سپورٹ نہیں ملی جس کا بلوچ رہنماء انتظار کرتے رہے، البتہ افغانستان میں ان کی موجودگی سے بلوچ تحریک کسی نہ کسی طرح توانائی حاصل کرتی رہی۔
تحریک کے موجودہ فیز میں سیاسی اور اخلاقی سپورٹ کے علاوہ ہمیں بلوچ تحریک میں افغان سرزمین کی تاریخی اہمیت پر بحث کرنے کی ضرورت نہیں بلکہ اتنا کہنا کافی ہوگا کہ افغانستان میں حالات کی تبدیلی نے سردار خیر بخش مری جیسے پر فکر انسان کو واپسی کے لئے مجبور کردیا تھا آنے والے دنوں میں اک بار پھر سے تاریخ خود کو دہرانے کے چکروں میں ہے۔ لیکن افسوس سے کہنا پڑرہا ہے کہ بلوچ تحریک کے اسٹیک ہولڈرز کو کوئی متبادل ابھی تک نظر نہیں آرہا، سوائے ایران کے جو کہ پاکستان کی طرح خود بلوچ سرزمین پر قابض ہے۔ بحیثت قوم اگر آج ہم بہت سی مجبوریوں کی وجہ سے متحد نہیں ہوسکتے تو کم از کم ہمیں ایسے کسی عمل سے گریز کرنا چاہئے جس سے ہمیں تقسیم کرنے کی سامراجی پالیسیوں کو توانائی ملے۔ ان حالات میں بلوچ رہنما اگر ایران کے آپشن کا استعمال کرتے ہیں تو یہ ایک ایسی غلطی ہوگی جس کے تباہ کن اثرات سے ہماری آنے والی نسلیں خود کو نکال نہیں سکیں گی۔
اب بھی وقت ہے کہ بلوچ قوم کی رہنمائی کے دعویدار اپنی ذاتی حیثیتوں کو عالمی سطح پر منوانے کے بجائے بہتر سفارت کاری کے ذریعے قومی مفادات کا دفاع کرنے کے لئے مشترکہ لائحہ عمل طے کریں جس کا بنیادی نقطہ بلوچ دوست قوتوں سے اپنے رابطے استوار کرنا، قومی تحریک کو گروہی شکل سے نکال کر اجتماعی شکل دے کر عوامی شرکت کو یقینی بنانا ہو بجائے اس کے کہ کسی کا دست نگر بن کر بلوچ اجتماعی مفادات کا سودا کرنا ہو۔
یہ بھی پڑھیں

فیچرز