Homeخبریںافغان صدر ڈاکٹراشرف غنی سے اعلی امریکی فوجی جنرلز کی ملاقات

افغان صدر ڈاکٹراشرف غنی سے اعلی امریکی فوجی جنرلز کی ملاقات

کابل (ہمگام نیوز ڈیسک) امریکی فوج کے چیف آف اسٹاف اور اعلی امریکی جنرل، جنرل مارک مائلی نے صدارتی محل میں افغان صدر ڈاکٹر اشرف غنی سے ملاقات کی ہے، جس سے ایک ہی روز قبل امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے لڑائی کے نتیجے میں تباہ حال ملک افغانستان میں کی جانے والی امریکی کوششوں پر تنقید کی تھی۔ تفصیلات کے مطابق اس ملاقات میں دونوں اعلی عہدیداروں نے ’’خود کفالت پر مبنی طویل مدتی اقدام‘‘ پر بھی گفت و شنید کی، تاکہ افغانستان کی حکومت کو اس قابل بنایا جاسکے کہ وہ ’’اپنے پاؤں پر کھڑی ہو سکے‘‘۔افغانستان میں تعینات اعلیٰ امریکی کمانڈر، جنرل آسٹن ’’اسکاٹ‘‘ مِلر بھی جمعرات کو ہونے والی اس ملاقات میں موجود تھے۔ایک روز قبل امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے افغانستان میں کی جانے والی امریکی کوششوں پر تنقید کرتے ہوئے اپنے فوجی قیادت کو آڑے ہاتھوں لیا تھا ۔بدھ کے روز ٹرمپ نے کہا کہ ’’میرے جنرلوں نے جو رقوم مانگیں میں نے ان کو دیں۔ اُنھوں نے افغانستان میں اتنا اچھا کام کرکے نہیں دکھایا‘‘۔ٹرمپ نے کہا کہ ’’میں اُس سے خوش نہیں ہوں جو کچھ اُنھوں نے افغانستان میں کیا، اور مجھے خوش ہونا بھی نہیں چاہیئے‘‘صدر ٹرمپ نے کہا کہ 1980 کی دہائی میں روس نے جو 9 سال تک افغانستان میں جنگ کی تو اُس کا جواز موجود تھا کیونکہ اُس ملک سے دہشت گرد سوویت یونین میں داخل ہو کر وہاں بدامنی پھیلا رہے تھے۔ تاہم اُنہوں نے کہا کہ اس جنگ سے سابقہ سوویت یونین دیوالیہ ہو گیا اور بالآخر ٹکڑے ٹکڑے ہو گیا۔ صدر ٹرمپ نے افغانستان میں مزید پیسہ خرچ کرنے کے حوالے سے سابق وزیر دفاع جنرل میٹس کو سخت تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا، ’’ جنرل میٹس نے 700 ارب ڈالر فراہم کرنے پر میرا بھرپور شکریہ ادا کیا۔ اُنہیں اس کا یقین نہیں تھا۔ جنرل میٹس نے اگلے برس میرا مزید شکریہ ادا کیا جب میں نے اُنہیں 716 ارب ڈالر فراہم کئے۔ اُنہیں اس کا بھی یقین نہیں آ رہا تھا۔ لیکن اُنہوں نے جواب میں انہوں نے میرے لئے افغانستان میں کیا کیا؟ یقیناً کوئی زیادہ اچھا کام نہیں کیا۔صدر ٹرمپ نے افغانستان سے متعلق امریکی فوج کی حکمت عملی کے کچھ پہلوؤں پر بھی تنقید کی۔ اُن کا کہنا تھا کہ اُنہوں نے جرنیلوں کو چار یا پانچ ہفتے قبل کچھ علاقوں کے بارے میں بتایا جہاں طالبان اور داعش موجود تھے اور وہ ایک دوسرے کے خلاف لڑ رہے تھے۔ اُن کا کہنا تھا، ’’میں نے اُن سے کہا کہ وہ اُنہیں ایک دوسرے کے خلاف کیوں لڑنے نہیں دیتے؟ ہم اس میں کیوں مداخلت کر رہے ہیں؟ میں نے اُن سے کہا کہ اُنہیں لڑنے دیں کیونکہ یہ دونوں ہمارے دشمن ہیں۔ اُنہوں نے کہا کہ جناب ہم اسے روکنا چاہتے ہیں۔ پھر اُنہوں نے مداخلت کی اور اُن کے درمیان لڑائی روک دی۔ یہ سب سے عجیب بات ہے جو میں کبھی دیکھی ہو۔ صدر ٹرمپ نے کہا کہ امریکہ کے فوجی منصوبوں کو عوام کے سامنے پیش نہیں کرنا چاہئیے اور یوں اُنہیں دشمن کے ہاتھ نہیں لگنے دینا چائیے۔

Exit mobile version