شنبه, اکتوبر 5, 2024
Homeخبریںافغان مسلہ حل بارے امریکہ کا ایک اور غلط فیصلہ...

افغان مسلہ حل بارے امریکہ کا ایک اور غلط فیصلہ {افغان حکومت پردباواورامریکی امداد میں کٹوتی خود مسلہ ہے مسلےکا حل نہیں } حفیظ حسن آبادی

ہمگام کالم : امریکہ نےاپنے فورسز کیساتھ افغان فورسز اور عام شہریوں کے خلاف تشدد روکنے کومشروط نہ کر کے پہلا قدم ہی غلط رکھا اور اُوپر سے افغان گورنمنٹ کو طالبان امریکہ مذاکرات سے الگ رکھاجس سے کابل حکومت کی اہمیت کو شدید نقصان پہنچا اسکی وجہ سے اب امریکہ اس راہ پر جو بھی قدم اُٹھائے گا اسکانتیجہ بھی منفی ہی نکلے گا۔امریکہ کا افغان حکومت کو باہر رکھ کر طالبان کیساتھ ایک دوسرے پر حملہ نہ کرنے کامعاہدہ دوہزار آٹھ کو منظر عام پر آنے والی طالبان وافغانستان میں موجوداٹلی کے فوجیوں کے درمیان معاہدے کا بد ترین شکل ہے۔ مذکورہ معاہدے کے تحت اٹلی والے طالبان کواپنے اُوپر حملہ نہ کرنے کا ایک مخصوص رقم دیتے تھے جواب میں وہ ایک دوسرے پر حملہ نہیں کرتے تھے ۔یہ راز اُس وقت کھلا جب وہاں امن کا ماحول دیکھ کر فرانسیسی فوجیوں نے جاکر چارج سنھمبال لیا اور اُنھیں اٹلی والوں نے اپنے ایسے خفیہ معاہدے سے لاعلم رکھا اور وہ لاعلمی میں طالبان کے آسان ہدف قرار پائے اور ایک ہی حملے میں اُنکے دس جوان مارے گئے ۔اس واقعہ پر اُس وقت فرانسیسی حکام نے شدید برہمی کا اظہار کیا جبکہ اٹلی کے حکام نے وضاحتیں کیں کہ ہم نےکسی کو ادائیگی{پروٹیکشن پے منٹ} نہیں کی ہے۔ مگر فرانسیسی اپنے اس بیان پر قائم رہےاورافغان خفیہ اداروں نے بھی اس بات کی تصدیق کی کہ پاکستان اور ہرات میں طالبان کو ادائیگی ہوتی رہی ہے۔ ادھر طالبان کمانڈر محمد اسماعیل نے بھی اس بات کا تصدیق کیا کہ اٹلی والے اپنی جان کی امان کی خاطر ہمیں ادائیگی کرتے تھےجو اُنکے جانے کے بعد بند ہوا اور ہم نے کاروائیاں شروع کئے ۔
اُس وقت امریکہ سمیت تمام اتحادیوں نے اس پر شدید غم و غصے کا اظہار کیا ۔اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر اتحادیوں کے پیٹھ پیچھے وہ معاہدہ غلط تھا تو افغانوں کے پیٹھ پیچھے یہ معاہدہ کیسے درست ہوسکتا ہے؟ کہ فی الحال آپ ہمیں جانے دو نہ مارو بدلے میں ہم نہ صرف تمہیں نہیں ماریں گے بلکہ کئی سیاسی و عسکری مراعات بھی دیں گے جبکہ افغانوں کو نہ مارنے کافیصلہ درجنوں شرائط میں لپیٹ کے بعد میں کیا جائیگا ؟
امریکہ کے اس فیصلے کی وجہ سے اس وقت عام افغان شہری اور افغان حکومت بدترین مشکلات کا شکار ہیں جس کی وجہ سے اس ریجن میں اپنی بقا کی جنگ لڑنے والی مظلوم قومیتیں بلوچ ،پشتون سندھی سمیت امریکہ اورتمام مہذب دنیا کے مفادات براہ راست متاثر ہوں گے ۔جبکہ ان کے مقابلے میں پاکستان اپنی دوغلی پالیسیوں باعث اپنا اعتبار کھونے کے باوجود اب پھر سے امریکہ کو آسانی سے دھوکہ دینے کی پوزیشن میں آچکا ہے۔جس سےاس بات کے امکانات قوی ہوگئے ہیں کہ امریکہ و اتحادی افغانستان میں امن تو نہیں لاسکیں گے البتہ پاکستان پر انحصار بڑھا کر خود اپنی شکست کا سامان ضرور کریں گے۔
چونکہ امریکہ بیس سال افغانستان میں موجود رہنے کے باوجود ایک آزاد ،خود مختار اور بااختیار الیکشن کمیشن نہیں بنا سکا کہ جس کے فیصلے سب کیلئے قابل قبول ہو ، نہ ہی ایسا ادارہ بنا سکا جو الیکشن کمیشن کے فیصلوں پر عمل درآمد کو یقینی بنا سکے ۔نتیجے میں اس لاپروائی اور ایڈاکیزم کے شکار پالیسیوں کا فائدہ اُٹھاکرپاکستان و ایران کے اشاروں پر افغان انتخابات کے نتائج کو نہ صرف متنازعہ بنایا گیا بلکہ ایک ملک میں دو صدر کے مضحکہ خیز اعلان کا تماشا لگا کر پوری دنیا میں کابل میں حکومت سازی کا مذاق بنایاگیا۔
تاسف کی بات یہ ہےکہ امریکہ کے فیصلوں کا تمام بوجھ و دباو صرف اورصرف کابل حکومت پر پڑا رہا جسے گھیرے میں لاکے طالبان نے امریکیوں پر حملہ نہ کرنے اور اُنھیں کسی حد تک نیوٹرل کرکے پاکستان و اسکے اتحادیوں کی مدد سے یکدم پورے ملک میں حملوں میں شدت وتیزی لایا یوں فوجیوں اور عام شہریوں کے جانی و مالی نقصان کے دباوکیساتھ طالبان سے پانچ ہزار قیدیوں کو آزاد کرنے کا امریکی وعدہ بھی کابل حکومت کے کندھوں پر لادا گیا حالانکہ اس سلسلے میں اُسے پہلے اعتماد میں نہیں لیاگیا تھا اور نہ ہی ا س پیچیدہ عمل کا فارمولا طے کرنے کی زحمت اُٹھانے کی ضرورت کسی نے محسوس کی ۔
کابل اگر لم سم {ازبک،چیچن،ترکمن،ایغور،پاکستانی ،عرب و سنگین جرائم میں ملوث}سب قیدیوں کو طالبان کے فہرست مطابق رہا کرتاہے تو عوام میں غم و غصہ سمیت ملکی قوانین کی خلاف ورزیاں ہوں گی اگر ایسا نہیں کرتاہے تو اتحادیوں سمیت حکومت مخالف حلقوں کوتنقید کا موقع ملتا ہےاور یہ تاثر دیا جاتا ہےکہ کابل حکومت امن نہیں چاہتاہےاور طالبان کے قیدیوں کے رہائی میں رخنہ اندازی کررہاہے ۔ٹھیک ایسے ہی عبداللہ عبداللہ کے خود کو صدر نامزد کرنے کی سزا امریکی امداد کٹوتی کی صورت میں کابل کی اُس حکومت کو دی گئی جسکو امریکہ سمیت پوری دنیا نے تسلیم کرکے مبارکبادیاں دی تھیں ۔
اب اگر امریکی دباو کے نتیحے میں بداعتمادی کی بنیاد پر اشرف غنی اور عبداللہ عبداللہ پھرسے مشترک حکومت کی عمارت کھڑی کرتے ہیں تو وہ مجبوری سےگذشتہ پانچ برس کی طرح شایدآگے پانچ برس بھی قائم رہے مگر وہ کسی بھی صورت مضبوط،فعال نہیں ہوسکتاکہ جسکی اس وقت افغانستان کو کسی بھی وقت سے زیادہ ضرورت ہے۔
ایسے حالات میں جب کابل حکومت داخلی وخارجی دباو کا شکار ہے امریکی ایلچی زلمے خلیل زاد کایہ بیان کہ ہندوستان افغانستان میں اپنے معاملات ٹھیک کرنے براہ راست طالبان سے بات چیت کرےبظاہر کابل پر ایک اور دباو حکمت عملی لگتا ہے تاکہ وہ آنکھیں بند کرکے وہی کرے جو اُسے کہا جاتا ہے مگر حقیقت میں یہ اپنی نوعیت کا غیرمنطقی و غیر سنجیدہ ترین بیان ہے جو کسی ملک کے نمائندے نے کبھی بھی دی ہوگی ۔کیا مسٹر خلیل زاد امریکہ سمیت دنیا کے کسی بھی ملک کو یہ مشورہ دے سکتا ہے کہ وہ نائجیریا میں اپنے معاملات درست کرنےبوکوحرام،صومالیہ میں الشباب ،عراق ،سوریا ولیبیامیں داعش والقاعدہ اور ہندوستان کشمیر میں حزب المجاحدین ،جیش محمد و لشکر طیبہ وغیرہ سے براہ راست بات چیت کریں ؟یقیناًوہ ایسی بے بنیاد بات کہیں بھی نہیں کرسکتا ہے تو وہ کیوں ہندوستان کو افغان حکومت کو بائی پاس کرکے براہ راست طالبان سے معاملات طے کرنے کا ایسا مشورہ دے رہا ہے جہاں وہ امریکہ کانمائندہ نہیں بلکہ طالبان و داعش وغیرہ کا پیغام رساں معلوم ہوتا ہو؟
اگریہ بیان کابل پر دباو بڑھانے ویہ تاثر دینے دیا گیا ہے کہ امریکہ طالبان کو اقتدار سونپنے ریجن میں راہ ہموار کررہی ہے لہذا جوکہا جاتا ہے بلا چون و چرا قبول کرکے حکم کی تکمیل کرو نہیں تو طالبان کو انتقال اقتدار کاکام شروع ہوچکا ہے یا طالبان کو خوش کرنے کیلئے امریکہ نے جیسےستمبر دوہزار اٹھارہ سے آپ کیلئے آسانیاں پیدا کی ہیں وہ سلسلہ جاری ہےیا اس کا براہ راست یہ مطلب لیا جائے کہ امریکہ نے فیصلہ کیا ہے کہ طالبان کوحکومت سونپنے کا فیصلہ کیاجا چکاہے اور وہ یہ بات چھیڑکر ردعمل کامشاعدہ کرنا چاہتے ہیں لیکن مذکورہ بالاتما م باتوں میں سے کوئی بھی بات ہو وہ درست نہیں کیونکہ ہر توضع و تشریح سے بادی النظر میں امریکہ کی نااُمیدی شکست کااندیشہ اور راہ فرار کی تلاش کاعندیہ ملتا ہے جوافغانستان و دنیاکے موجودہ حالات کے پیش نظر تباہ کن ہے۔
جب کہ حقیقت میں امریکہ کو کابل حکومت کے پیچھے کھڑے ہوکر اُسے ہرلحاظ سے مضبوط کرتا نہ کہ اُس پر دباو بڑھاتا ۔یہ دباو جس نے کابل کو زیر بار کیا ہے اصل میں یہ دباو پاکستان پربڑھا کر اُسے راہ راست پر لانے کی کوشش کرنی چاہیے تھی اور مسٹر خلیل زاد کو ہندوستان و ریجن میں کسی انتہا پسند گروہ سے براہ راست معاملات طے کرنے کا مشورہ دینے کی بجائے اُن سے آزادی پسند بلوچوں و پشتونوں کو مدد کرنے کی سفارش کرنی چاہیے تھی جواپنی کھوئی ہوئی آزادی کے بازیابی کیلئے روز اول سے تنہالڑتے آرہے ہیں ۔ہمیں یقین ہے کہ آج بھی اگر اُنھیں دنیا کی طرف سےسفارتی، اخلاقی اور ہر طرح کی مدد ملے وہ اس عالمی دہشتگردی کی جنگ میں امریکہ ،ہندوستان و افغانستان کا فطری اتحادی بن کر اُنکی مشکلیں آسان کرسکتی ہیں۔

یہ بھی پڑھیں

فیچرز