کراچی ( ہمگام نیوز ) بلوچ یکجہتی کمیٹی کراچی زون کے رہنماؤں نےپریس کانفرنس کرتے ہوئے کہاکہ
گزشتہ ایک ماہ سے زائد عرصے سے ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ سمیت بلوچ یکجہتی کمیٹی کی پوری قیادت غیر قانونی طور پر جیلوں میں قید ہے۔ اور کراچی سمیت بلوچستان کے متعدد علاقوں میں پرامن سیاسی اجتماع پر پابندی عائد کی گئی ہے۔
انھوں نے کہاکہ ہم آج اس پریس کانفرنس کے توسط سے بلوچ یکجہتی کمیٹی پر ہونے والے حالیہ کریک ڈاؤن کے پس منظر اور موجودہ صورتحال کو آپ صحافی حضرات کے سامنے رکھنا چاہتے ہیں۔
مارچ کے مہینے میں بلوچستان میں جعفر ایکسپرس پر ہونے والے ایک مسلح حملے کے بعد ریاست نے اس مسلح حملے کو ہمارے پر امن سیاسی تنظیم کے خلاف جواز کے طور پر استعمال کیا اور ہمارے پرامن سیاسی تنظیم کے خلاف بدترین کریک ڈاؤن کررہی ہے۔
بلوچ یکجہتی کمیٹی ایک پرامن سیاسی تنظیم ہے جس نے نہ کبھی پر تشدد سیاست کی ہے اور نہ کبھی تشدد کی حمایت کی ہے۔ ہماری شروع دن سے موقف اور جدوجہد کے طریقہ کار واضح ہے کہ ہم بلوچستان میں ریاست کی جبر اور بربریت کے خلاف پرامن طریقے جدوجہد کررہے ہیں اور آج تک ہمارے کسی بھی اجتماع اور احتجاج میں ایک گملہ تک بھی نہیں ٹوٹا ہے لیکن ہماری تنظیم شروع دن سے ریاست کی پرتشدد پالیسیوں اور بدترین کریک ڈاؤن کا سامنا کررہی ہے۔
پریس کانفرنس میں رہنماؤں نے کہا کہ بلوچستان میں جعفر ایکسپریس پر حملے کے بعد ریاست نے سب سے پہلے بلوچ یکجہتی کمیٹی کے خلاف میڈیا مہم شروع کیا اور ہماری پرامن سیاسی تنظیم کو جعفر ایکسپرس پر ہونے والے مسلح حملے کے ساتھ گھناؤنے طور پر لنک کرنے کی کوشش کی گئی اور ہم سے غیر ضروری اور زبردستی مذمت کی مطالبہ کیا گیا ہے، لیکن ہمارا موقف شروع دن سے واضح ہے کہ ہم پرتشدد سیاست و جدوجہد کے حامی ہے اور نہ ہی کسی بھی قسم کی تشدد کی حمایت کرتے ہیں اور ہمارے موقف آن دی ریکارڈ میڈیا پر موجود ہے اور ہم متعدد مرتبہ اپنے موقف کو میڈیا کے سامنے لاچکے ہیں۔ لیکن اس باجود ہماری تنظیم کو بدترین کریک ڈاؤن کا سامان ہے۔
جس طرح جعفر ایکسپرس پر حملے کے بعد بلوچستان حکومت کی جانب سے نے مشکوک انداز میں متعدد لاشوں کو کوئٹہ کے ایک قبرستان میں دفنایا گیا تھا اور کچھ لاشیں سول اسپتال کوئٹہ کے سرد خانے میں رکھ کر کسی کو ان تک رسائی نہیں دی جا رہی تھی، اس المیے کے دوران جبری گمشدگی کے شکار بلوچ افراد کے خاندانوں میں تشویش اور خوف کی لہر دوڑ گئی تھی۔
کیونکہ پچھلے کئی سالوں سے ریاستِ کسی بھی مسلح حملے کے پاداش میں اپنے قید خانوں سے جبری گمشدگی کے شکار افراد کو نکال کر انہیں ماورائے عدالت قتل کر کے جعلی مقابلوں میں مارنے کا دعویٰ کرتی ہے، یا کسی مسلح حملے میں مارے جانے والے مسلح افراد کے ساتھ جبری گمشدگی کے شکار افراد کو بھی قتل کر کے ان کی لاشیں وہیں رکھ دی جاتی ہیں اور انہیں بھی مسلح افراد ظاہر کیا جاتا ہے۔ اس طرح کے متعدد واقعات رونما ہو چکے ہیں اور ہمارے پاس بحیثیت تنظیم ان کا ڈیٹا بھی موجود ہے۔
لہٰذا اس بار بھی یہی صورتحال تھی، جبری گمشدگی کے شکار افراد کے اہلِ خانہ ہر روز سول اسپتال کوئٹہ کے چکر لگا رہے تھے، اور ان کا مطالبہ نہایت ہی سادہ اور پاکستان کے آئین و قانون کے مطابق تھا کہ ان لاشوں تک ہمیں رسائی دی جائے یا ان کی شناخت ظاہر کی جائے تاکہ معلوم ہو سکے کہ آیا یہ لاشیں ہمارے پیاروں کی ہیں یا نہیں۔
اس آئینی و قانونی مطالبے کے پاداش میں ریاست نے جبری گمشدگی کے شکار افراد کے لواحقین کو بدترین تشدد کا نشانہ بنایا اور پھر متعدد متاثرہ خاندانوں کے افراد کو جبری گمشدگی کا نشانہ بنایا۔
بلوچ یکجہتی کمیٹی نے اس جبر اور درندگی کی مخالفت کی، متاثرہ خاندانوں کے لیے آواز اٹھائی اور ان کے ساتھ کھڑی رہی، جس کے پاداش میں بلوچ یکجہتی کمیٹی کی قیادت اور کارکنان کو بدترین ریاستی کریک ڈاؤن کا سامنا ہے۔
انھوں نے کہاکہ ہماری تنظیم کے خلاف حالیہ کریک ڈاؤن 19 مارچ کو شروع ہوا اور اس وقت تک جاری ہے۔ جس میں ہمارے تنظیم کے سربراہ ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ اور ہمارے مرکزی رہنما صبغت اللہ شاہ، بیبگر بلوچ، بیبو بلوچ، گلزادی بلوچ، لالا وہاب بلوچ، اور اور مجھ سممیت سمیت ہمارے 200 کے قریب کارکنان کو گرفتار کیا گیا تھا۔ جس میں سے اب تک صرف مجھے اور لالا وہاب کو رہا کیا گیا ہے لیکن ڈاکٹر ماہ رنگ سمیت ہمارے باقی تمام دوست غیر قانونی طور پر قید میں ہے۔ جبکہ اب تک اس کریک ڈاؤن میں ایک کمسن بچہ سمیت تین لوگ شہید درجنوں زخمی ہوچکے ہیں اور ظلم و ستم اس لیول تک پہنچ چکی ہے کہ ہمارے پرامن مظاہرے پر فائرنگ کرکے کمسن بچہ سمیت تین لوگوں کو قتل کیا گیا اور اس کی ایف آئی آرز بھی ڈاکٹر ماہ رنگ سمیت ہمارے دیگر رہنماؤں کی خلاف درج کی گئی ہے۔
ہماری تنظیم بلوچ یکجہتی کمیٹی پر ریاستی کریک ڈاؤن کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ ہم بلوچستان میں ریاست کے انسانی حقوق کے پامالیوں، تشدد اور نا انصافیوں کے خلاف آواز اٹھاتے ہیں اور پرامن جدوجہد کرتے ہیں۔ ریاست پاکستان ہماری پرامن جدوجہد کو تسلیم کرنے کے بجائے اور ہمیں انصاف فراہم کرنے کے بجائے ہمارے جدوجہد کو متنازعہ کرنے کے لئے ہم پر مختلف بے بنیاد الزامات لگاتا ہے اور مسلسل ہمارے پرامن کارکنان پر تشدد اور طاقت کا استعمال کرتی ہے۔
جبکہ اس تمام عرصے میں ڈاکٹر ماہ رنگ، صبغت اللہ شاہ جی، بیبگر بلوچ، بیبو بلوچ اور گلزادی بلوچ سمیت تمام سیاسی اسیران کو جیل کے اندر مختلف طریقوں سے ہراساں کیا گیا ہے اور تحقیق و تفتیش کے نام پر انہیں سنگین دھمکیاں دی گئی ہیں۔
جب یہ دباؤ اور دھمکیاں ناکام ہوئیں، تو 24 تاریخ کی رات آٹھ بجے کوئٹہ پولیس اور سی ٹی ڈی کے اہلکاروں نے جیل میں غیر قانونی طور پر داخل ہو کر ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ، بیبو بلوچ اور گلزادی بلوچ کو بدترین تشدد کا نشانہ بنایا۔ اسی دوران بیبو بلوچ کو ہدہ جیل کوئٹہ سے جبری طور پر لاپتہ کر دیا گیا۔ 24 گھنٹے کی جبری گمشدگی کے بعد بیبو بلوچ کو پشین جیل منتقل کر دیا گیا، جہاں ان کی بیرک اور واش روم تک میں نگرانی کے لیے کیمرے نصب کیے گئے۔
بلوچ یکجہتی کمیٹی کی قیادت پر جیل میں ہونے والا یہ ظلم و ستم اس لیے جاری ہے تاکہ انہیں ذہنی دباؤ میں لا کر اپنے سیاسی اصولوں اور پروگرام سے دستبردار ہونے پر مجبور کیا جائے، اور بلوچستان میں انسانی حقوق کی پامالیوں کے خلاف ان کی آواز کو دبایا جا سکے۔
انھوں نے کہاکہ جیل میں ہونے والے ان پرتشدد واقعات اور بیبو بلوچ کی پشین جیل منتقلی کے خلاف ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ، بیبو بلوچ، گلزادی بلوچ، صبغت اللہ شاہ جی اور بیبگر بلوچ گزشتہ پانچ دنوں سے جیل میں بھوک ہڑتال پر بیٹھے تھے۔ ان کی صحت تیزی سے خراب ہو رہی تھی اور ان کی حالت نہایت تشویشناک تھی اس لئے کل شام جبری گمشدگی کے شکار افراد کے خاندان، سیاسی اسیران کے خاندان اور سینئر وکلاء پر مشتمل گروپ نے جیل میں ڈاکٹر ماہ رنگ، صبغت اللہ اور بیبگر سے ملاقات کرکے انہیں بھوک ہڑتال ختم کرنے پر آمادہ کیا۔
جیل کے اندر ہمیں اپنے ان رہنماؤں کی صحت اور جان کے حوالے سے شدید خدشات لاحق ہیں۔ اگر اس دوران ان کی زندگی کو کوئی نقصان پہنچتا ہے تو اس کی مکمل ذمہ داری ریاست پاکستان، حکومت بلوچستان، کوئٹہ پولیس اور کوئٹہ انتظامیہ پر عائد ہوگی۔
آخر میں کہاکہ ہم اس پریس کانفرنس کے توسط سے اقوام متحدہ اور انسانی حقوق کی تنظیموں سے اپیل کرتے ہیں کہ وہ ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ، صبغت اللہ شاہ جی، بیبو بلوچ، بیبگر بلوچ اور گلزادی بلوچ کی رہائی کے لیے فوری کردار ادا کریں اور ان کی زندگیوں کا تحفظ یقینی بنائیں۔