دبئی (ہمگام نیوز ) امریکہ اور برطانیہ نے ہفتے کے روز یمن میں حوثی باغیوں کے 36 ٹھکانوں پر حملے کیے۔ گذشتہ ہفتے کے آخر میں امریکی فوجیوں پر ہونے والے مہلک حملے کے بعد ایران سے منسلک گروپوں کے خلاف امریکی کارروائیوں کا یہ دوسرا دن تھا۔
پینٹاگون نے کہا کہ حملوں میں ہتھیاروں کو گہرائی میں دفن کر کے ذخیرہ کرنے والی تنصیبات، میزائل سسٹم، لانچرز اور دیگر صلاحیتوں کو نشانہ بنایا گیا جو حوثیوں نے بحیرۂ احمر کی جہاز رانی پر حملہ کرنے کے لیے استعمال کیے ہیں اور مزید کہا کہ اس نے ملک بھر میں 13 مقامات کو نشانہ بنایا۔
سات اکتوبر کو اسرائیل پر فلسطینی گروپ حماس کے مہلک حملے کے نتیجے میں اسرائیل-حماس جنگ شروع ہونے کے بعد سے یہ شرقِ اوسط میں تنازعہ پھیلنے کی تازہ ترین علامت تھی۔
امریکی وزیر ِدفاع لائیڈ آسٹن نے کہا، “یہ اجتماعی کارروائی حوثیوں کو واضح پیغام دیتی ہے کہ اگر وہ بین الاقوامی جہاز رانی اور بحری جہازوں پر اپنے غیر قانونی حملے بند نہیں کرتے تو وہ مزید نتائج بھگتتے رہیں گے۔”
حوثی فوج کے ترجمان یحیی سریع نے کہا کہ امریکی حملوں کا “جواب اور نتائج ضرور ہوں گے۔”
اردن میں ایک چوکی پر ایران کے حمایت یافتہ مزاحمت کاروں کے ڈرون حملے میں تین امریکی فوجیوں کی ہلاکت پر امریکہ کی آشکار ہوتی ہوئی فوجی انتقامی کارروائی کی امریکی مہم۔۔ اور یمن کے حملے ایک دوسرے کے متوازی جاری ہیں۔
جمعہ کے روز امریکہ نے اس انتقامی کارروائی کی پہلی لہر انجام دی اور عراق اور شام میں ایران کے اسلامی انقلابی سپاہ (آئی آر جی سی) اور اس کی پشت پناہی کرنے والی ملیشیاؤں سے منسلک 85 سے زائد اہداف کے خلاف حملے کیے جن میں مبینہ طور پر تقریباً 40 افراد ہلاک ہوئے۔
جہاں واشنگٹن عراق، شام اور اردن کے فوجی مراکز پر امریکی فوجیوں پر حملے کا الزام ایران کی حمایت یافتہ ملیشیا پر لگاتا ہے، وہیں یمن کے ایران سے منسلک حوثی بحیرۂ احمر میں تجارتی جہازوں اور جنگی جہازوں کو باقاعدگی سے نشانہ بنا رہے ہیں۔
یمن کے سب سے زیادہ آبادی والے علاقوں پر قابض حوثی کہتے ہیں کہ ان کے حملے فلسطینیوں کے ساتھ اظہارِ یکجہتی کے لیے ہیں کیونکہ اسرائیل نے غزہ پر حملہ کیا ہے۔ لیکن امریکہ اور اس کے اتحادی انہیں اندھا دھند اور عالمی تجارت کے لیے خطرہ قرار دیتے ہیں۔
بحیرۂ احمر کے بڑھتے ہوئے تشدد کے پیشِ نظر بحری نقل و حمل کے بڑے اداروں نے اہم تجارتی راستے کو بڑی حد تک ترک کر کے افریقہ کے گرد طویل راستے اختیار کر لیے ہیں۔ اس سے اخراجات میں اضافہ ہوا ہے جو عالمی افراطِ زر کے بارے میں تشویش پیدا کرنے کا سبب بنا ہے جبکہ مصر کو بحیرۂ احمر سے نہر سویز تک آمد و رفت کرنے والے جہازوں سے ملنے والی اہم غیر ملکی آمدنی میں کمی آئی ہے۔
ماہرین کا بیان ہے کہ یمن کے بارے میں بائیڈن کی ابھرتی ہوئی حکمتِ عملی کا مقصد حوثی مزاحمت کاروں کو کمزور کرنا ہے لیکن وہ اس گروپ کو شکست دینے یا ان کے مرکزی سرپرست ایران پر براہِ راست حملہ کرنے کی کوشش سے بہت پیچھے ہے۔
اس حکمتِ عملی میں محدود فوجی حملوں اور پابندیوں کو ملایا گیا ہے اور اس کا مقصد یہ لگتا ہے کہ حوثیوں کو سزا تو دی جائے لیکن شرقِ اوسط میں ایک وسیع تنازعے کے خطرے کو محدود کرنے کی کوشش کے ساتھ۔
امریکہ نے گذشتہ کئی ہفتوں میں حوثی اہداف کے خلاف ایک درجن سے زیادہ حملے کیے ہیں لیکن یہ اس گروپ کے حملوں کو روکنے میں ناکام رہے ہیں۔
حوثی فوج کے ترجمان سریع نے سوشل میڈیا پر ایک بیان میں کہا کہ بحیرۂ احمر میں گروپ کی مداخلت جاری رہے گی۔
سریع نے کہا، “یہ حملے ہمیں ہمارے اخلاقی، مذہبی اور انسانی ہمدردی کے مؤقف سے پیچھے نہیں ہٹا سکتے جو غزہ کی پٹی کے باہمت فلسطینی عوام کی حمایت میں ہے۔”
سمندری اور فضائی حملوں کی تازہ ترین لہر سے محض چند گھنٹے قبل امریکی فوج کی سینٹرل کمانڈ نے بیانات جاری کیے جس میں گذشتہ روز ہونے والے دیگر زیادہ محدود حملوں کی تفصیل دی گئی جن میں چھ کروز میزائلوں کو نشانہ بنانا بھی شامل تھا۔ حوثی باغی ان میزائلوں کو بحیرۂ احمر میں بحری جہازوں کے خلاف استعمال کرنے کی تیاری کر رہے تھے۔
یمن میں صبح 4 بجے (0100 جی ایم ٹی) کے قریب امریکی فوج نے حوثیوں کے ایک جہاز شکن کروز میزائل کو بھی نشانہ بنایا جو حملہ کرنے کے لیے تیار تھا۔
برطانوی وزیرِ دفاع گرانٹ شیپس نے کہا، “یہ کشدیگی میں کوئی اضافہ نہیں ہے۔ ہم پہلے ہی حوثی حملوں میں ملوث لانچر اور ذخیرہ کرنے کی جگہوں کو کامیابی سے نشانہ بنا چکے ہیں اور مجھے یقین ہے کہ ہمارے تازہ حملوں نے حوثیوں کی صلاحیتوں کو مزید کم کر دیا ہے۔”
امریکہ نے کہا کہ اتوار کے حملوں کو آسٹریلیا، بحرین، کینیڈا، ڈنمارک، نیدرلینڈز اور نیوزی لینڈ کی حمایت حاصل تھی۔ امریکی سینٹرل کمانڈ نے کہا کہ حملوں میں میزائل کی صلاحیت کے علاوہ ڈرون ذخیرہ کرنے اور چلانے کی جگہوں، ریڈارز اور ہیلی کاپٹروں کو نشانہ بنایا گیا۔
ایران سے منسلک گروپوں کے خلاف حملوں کے باوجود پینٹاگون نے کہا ہے کہ وہ ایران کے ساتھ جنگ نہیں چاہتا اور نہ ہی وہ یہ سمجھتا ہے کہ تہران بھی جنگ چاہتا ہے۔ امریکی ریپبلکن ڈیموکریٹ صدر جو بائیڈن پر دباؤ بڑھا رہے ہیں کہ وہ ایران کو براہِ راست ضرب لگائیں۔
یہ واضح نہیں تھا کہ تہران ان حملوں کا کیا جواب دے گا جو براہِ راست ایران کو نشانہ نہیں بناتے بلکہ اس کی پشت پناہی کرنے والے گروپوں کو نقصان پہنچاتے ہیں۔
ایران کی وزارتِ خارجہ کے ترجمان ناصر کنعانی نے ایک بیان میں کہا کہ عراق اور شام میں حملے “امریکہ کی ایک اور مہم جوئی اور تزویراتی غلطی کی نمائندگی کرتے ہیں جس کے نتیجے میں صرف کشیدگی اور عدم استحکام میں اضافہ ہوگا۔”
عراق نے اپنے ملک میں امریکی حملوں کے بعد باضابطہ احتجاج کرنے کے لیے بغداد میں امریکی ناظم الامور کو طلب کیا۔
حوثی فوج نے ایک بیان میں کہا کہ امریکہ اور برطانیہ نے یمن پر کل 48 فضائی حملے کیےجن میں سے 13 صنعا اور صنعا گورنری میں کیے گئے۔ دیگر 11 تَعِز گورنری اور 9 حدیدہ گورنری میں کیے گئے۔