واشنگٹن (ہمگام نیوز ) ورلڈ ریفیوجی ڈے کے موقع پر فری بلوچستان موومنٹ کے کارکن عزیز بلوچ نے امریکہ کے شہر لاس اینجلس میں جاگراتی تنظیم کے جانب سے منعقد کیے گئے تقریب میں شرکت کرکے شرکاء کو بلوچستان میں ہونے والے سنگین انسانی حقوق کی پامالیوں کے متعلق آگاہی دیتے ہوئے بلوچستان میں ایران اور پاکستان کے جرائم کی روک تھام کےلئے بین الاقوامی برادری کو کردار ادا کرنے پر زور دی۔
تقریب کے مہمان خاص ڈاکٹر مدن لعل نے کہا “خودمختاری اور آزادی کے لیے بلوچ قوم کی جائز جدوجہد بین الاقوامی برادری کے حمایت کی مستحق ہے
تنظیم کی جانب سے ایک قرارداد منظور کیا گیا کہ بلوچ قومی جدوجہد کی تائید کرنا بھارت کی اخلاقی اور سفارتی ذمہ داری بنتی ہے
فری بلوچستان موومنٹ کے کارکن عزیز بلوچ نے کہا “بلوچستان قبضے کی دن سے لیکر آج تک کئی مسائل کا سامنا کر رہی ہے یقیناً قبضہ بذاتِ خود تمام مسائل کی جڑ ہے جو بڑے پیمانے پر بلوچ نوجوانوں کی گمشدگی، تعلیم یافتہ بلوچوں کی ٹارگٹ کلنگ، اور عام آبادی پر اندھا دھند حملوں کی باعث ہے۔
عزیز نے کہا” 25,000 سے زائد بلوچ پاکستانی فورسز کے عقوبت خانوں میں غیرانسانی تشدد کا سامنا کررہے ہیں۔ انھوں نے کہا پاکستان مزہبی اقلیتوں کی بنیادی حقوق کو بھی سلب کرری ہیں جس میں ہندو، عیسائی، اور ہزارہ برادری شامل ہیں لیکن اس ضمن میں فری بلوچستان موومنٹ کا موقف واضح ہے ہم ان پر ڈھائے گئے تمام ریاستی مظالم کی بھر پور مزمت کرتے ہیں۔ عیسائی برادری اور ہندو پچھلے کئی صدیوں سے بلوچستان میں امن کے ساتھ رہ رہے ہیں لیکن جب بلوچ قومی تحریک اپنے نئے مرحلے میں داخل ہوئی تو پاکستانی انٹیلجنس ایجنسی ،آرمی اور ان کے حمایت یافتہ ڈیتھ اسکواڈ نے بلوچستان میں بسنے والے مذہبی اقلیتوں پر حملے کرنا شروع کیا جس کا مقصد بلوچ قومی تحریک کو دنیا کے سامنے مذہبی و فرقہ ورانہ کشمکش ظاہر کرنا ہے۔
عزیز بلوچ نے فری بلوچستان موومنٹ کے رہنما حیربیار مری کی ایک پیغام کا اقتباس پڑھا، جس میں حیربیار نے کہا تھا۔ “کہ ہندو ، عیسائی پادری اور دیگر مزہبی اقلیتیوں پر حملے پاکستان کی اصل شکل کو عیاں کرتی ہے انھوں نے اپنے پیغام میں کہا کہ ریاست پاکستان مذہبی نفرتوں کی بنیاد پر وجود میں بنایا گیا ۔ جب تک پاکستان کی وجود برقرار ہے مذہبی اقلیتوں پر اس طرح کے حملےرونما ہوتے رہینگے۔ بلوچ قوم اور مذہبی اقلیتوں کے خلاف نفرتوں کو فروغ دینے جیسی پاکستان کی جرائم پر دنیا نوٹس لے.”
عزیز نے کہا “ہم بلوچ قوم دیگر نسلی گروہوں اور مذہبی اقلیتوں کے متعلق اپنے سیکولر ثقافت کے ساتھ روادار ہیں جیسا کہ چارٹر آف لبریشن میں یہ شق واضح ہے آزاد بلوچستان کے اندر تمام مذاہب سے تعلق رکھنے والے لوگ اور دیگر نسلی گروہ مساوات اور برابری کے ساتھ رہیں گے۔
عزیز بلوچ نے مزید کہا “انڈین اور امریکی پاکستان کے دوغلے پن کی متعلق اپنے اقوام کو آگاہی دیں” امریکہ پچھلے تیس سال سے پاکستان کو معاشی کمک پہنچا رہی ہے۔ لیکن اس کے بدلے امریکہ کو جو مل رہے ہے وہ پاکستان کی جانب سے افغانستان میں امریکی فوجیوں پر حملے اور امریکہ مخالف ریلیاں ہیں۔ تمام مذہبی گروہ، جو امریکہ پر حملے اور ان کو برباد کرنے کی دھمکی دیتے ہیں۔ ،کو پاکستان کی انٹليجنس ایجنسی کی حمایت حاصل ہے ۔طالبان اور دیگر مذہبی گروہ کے لیے پاکستان کی زمین ایک جنت کی مانند ہے جو یہ دہشت گرد وہاں سے ڈیورئنڈ لائن کو پار کر کے امریکی فوجیوں پر حملہ کرکے پھرٹ واپس اپنے محفوظ ٹھکانوں پر جاتے ہیں جن کو پاکستان کی کسی بھی فوجی چک پوسٹوں پر کوئی روک تھام نہیں یے .
عزیز بلوچ نے کہا” مجھے یقین ہے انڈیا سب سے بڑی جموریت اور ہمارا ہمسایہ ہونے کے ناطے بلوچستان ، خیبرپختون خواہ اور سندھ میں پاکستان کے مظالم کے خلاف آواز اٹھانا جاری رکھیں گے۔ خطے اور پوری دنیا کے لیے پاکستان ایک ناسور کی شکل اختیار کرتی جارہی ہے اس لیے اب اس ناسور کوجڑ سے اکھاڑ پھینکے کی ضرورت ہے۔ نریندرمودی کے تقریر کے بعد ،جس میں انھوں نے بلوچستان کا نام منشن کیا، پاکستان کی جانب سے بلوچستان میں مظالم اورجبری گمشدگیوں میں اضافہ ہوا ہے۔ لیکن بدقسمتی سے اس بیان کا تحقیق نہیں کیا گیا.”جس طرح پاکستان نے کشمیر کو اپنے خارجہ پالیسی میں شامل کیا اسی طرح ہندوستان بھی بلوچستان میں انسانی حقوق کی پامالیوں کے متعلق ایک آفشنل پالیسی اختیار کرکے ہندوستان اور بین الاقوامی فورَمز پر قوم کی جائز جد وجہد کی حمایت کرے۔
عزیز بلوچ نے مزید کہا بلوچ قوم کی نسل کشی پچھلے 70 سالوں سے جاری ہے لیکن یو این اور دیگر انسانی حقوق کے علمبرداروں نے بلوچستان کے مسئلے کو لے کر چھپ ساد لی ہے۔ ہم نے ہمیشہ کہا کہ یو این او اور بین الاقوامی کمیونٹی کی خاموشی پاکستان کو حوصلہ دے رہی ہے کہ وہ بلوچستان میں بنگلہ دیش کی تاریخ کو دہرائے پاکستان بلوچستان میں عین وہی جرائم کو دھرا رہی ہے جو آج بنگلہ دیش میں اپنی مزہبی پراکسیوں کے ساتھ مل کر آزادی کے جنگ کے دوران بنگالیوں پر ڈھائے تھے. پاکستانی قابض فورسز کے ہاتھوں آبادیوں پر بمباری، تعلیم یافتہ بلوچ نوجوانوں کی ٹارگٹ کلنگ ،جبری گرفتاریاں ،اور بلوچ بچیوں اور عورتوں لکی عصمت دری روز کا معمول بن چکی ہے۔ UNICEF کے مطابق2005 میں ملٹری آپریشن کے دوران بلوچستان میں 84،000 افراد بے گھر ہوئے جبکہ ہزاروں کی تعداد میں لوگ افغانستان اور مغربی ممالک میں مہاجرین کی زندگی گزارنے پر مجبور ہوگئےتب سے بلوچوں کا اپنی مادر وطن سے نقل مکانی جاری ہے فوجی آپریشن ، ریاست کی حمایت یافتہ ڈیتھ اسکواڈ کی مظالم اور بڑے پیمانے پر قربت کی وجہ سےلوگ اپنے آبائی گھروں کو چھوڑنے پر مجبور ہوئے ہیں۔ ہم بلوچوں کی بھی دوسرے انسانوں کی طرح سارے خواہشات ہیں ہم ایک محفوظ ،سکیولر اور ایک سیکولر معاشرے میں زندگی بسر کرنا چاہتے ہیں جہاں ہمارے بچوں کو تعلیم اور ایک اچھی مستقبل میسر ہو
فری بلوچستان موومنٹ کے ممبر عزیز بلوچ نے آخر میں شرکاء سے درخواست کرتے ہوئے کہا” بلوچستان میں پاکستان کی جرائم کے متعلق اپنے لوگوں ،تعلیمی ادارے ،میڈیا اور سیاست دانوں کو آگاہ کریں ، یو این او اور دیگر بین الاقوامی فورم میں آپ کی حکومتی نمائندگان سے درخواست ہے کہ وہ بلوچستان میں پاکستان اور ایران کے مظالم پر آواز اٹھائے۔