دبئ ( ہمگام نیوز ) ویب نیوز کے مطابق امریکی حکومت نے گذشتہ جمعہ کو ایران پر اقتصادی پابندیوں کے دوسرے مرحلے پرعمل درآمد کا اعلان کیا جس کا عملی نفاذ سوموار سے کردیا گیا ہے۔ نئی اقتصادی پابندیوں میں ایران کے نہایت حساس شعبوں کو ہدف بنایا گیا جن میں تیل، گیس، بینکاری نظام، توانائی اور ٹرانسپورٹ جیسے شعبے شامل ہیں۔ کہا جا رہا ہے کہ ایران میں ولایت فقیہ کے نظام کے قیام کے بعد چار عشروں میں ایران پر اب تک کی یہ سب سے خوفناک اقتصادی پابندیاں ہیں۔
ان پابندیوں کے نفاذ سے قبل امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایران کو اپنا قبلہ درست کرنے کا موقع دیا۔انھوں نے ایران کے سامنے دو آپشن پیش کیے تھے کہ وہ اپنا رویہ بدلے یا اقتصادی تباہی کے لیے تیار رہے لیکن ایرانی قیادت نے امریکا کی طرف سے دی گئی ڈھیل کو مسترد کردیا اور امریکی شرائط ماننے سے صاف انکار کیا۔ تین نومبر کو ایرانی رہ برِ اعلیٰ آیت اللہ علی خامنہ ای نے متوقع امریکی پابندیوں کے بارے میں بات کرتے ہوئے کہا کہ تہران کے خلاف واشنگٹن کی پابندیاں پہلا موقع نہیں۔ ان سے ایران کم زورنہیں ہوگا بلکہ یہ اسے خود انحصاری کی منزل سے ہم کنارکریں گی۔
ایرانی عہدیداروں کی جانب سے اصرار کے ساتھ یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ انہوں نے 5 نومبر سے لاگو ہونے والی امریکی پابندیوں کا مقابلہ کرنے کی تیاری کر رکھی ہے۔ سوائے ‘نمبر گیم’ کےان پابندیوں سے اور کوئی تبدیلی نہیں آئے گی مگر ایرانی حکام کے بیانات اور زمینی حقیقت میں کھلا تضاد ہے۔ ایران میں مہنگائی میں اضافے کی تازہ لہر اس کا واضح ثبوت ہے۔
امریکا کی ایک فارسی ویب سائیٹ”اذاعۃ الغد” کی رپورٹ میں بھی امریکا کی ایران پر عاید کی جانے والی پابندیوں کے اس کے اقتصادی ڈھانچے پر مرتب ہونے والے اثرات کا جائزہ پیش کیا گیا ہے۔ اس رپورٹ کو “ایرانی اقتصادیات پابندیوں کے شکنجے میں” کا عنوان دیا گیا۔