جمعه, اکتوبر 11, 2024
Homeآرٹیکلزانسان اور آزادی از پاولو فریرے (تحریر: زبیر بولانی)

انسان اور آزادی از پاولو فریرے (تحریر: زبیر بولانی)

 

انسان یا تو آزاد ہوتا ہے یا نہیں۔ وہ بیک وقت آزاد اور غلام نہیں ہوسکتا۔ یہ تو ممکن ہے کہ اسے جیل میں بند کردیا جائے، قید کر لیا جائے اور اسے اپنے احکامات پر عمل کرنے کیلئے مجبور کر دیا جائے۔ تاہم آزاد انسان ان مجبوریوں میں سے اپنی چوائس یعنی متبادل راستے تلاش کرتا ہے جواس کے آزاد وجود کو برقرار رکھتے ہیں۔ آزادی اور غلامی کے درمیان کوئی درمیانی راستہ نہیں اپنایا جا سکتا۔ یا تو وہ ایک فاعل کے طور پر کائنات کو اپنے ارادوں کے مطابق ڈھالتا ہے یا اس کےمطابق ڈھل کر اپنی شناخت کھو دیتا ہے۔کیونکہ آزادی انسان کا وہ حقیقی شعوری جوہر ہے جس کا وجود اس کے شعور کے شعور میں مضمر ہے۔

انسان معاشرے میں رہتا ہے وہ معاشرہ جہاں انسان ڈھلتے ہیں انکی سوچ پنپتی ہے ان کے آئیڈیل بنتے ہیں انسانی وسائل تخلیق ہوتے ہیں یہی انسانی معاشرے کی ترقی اور متنزل کا سبب ہوتے ہیں۔ مستقبل میں انسانوں کیلئے تعمیر یا تخریب کا باعث بنتے ہیں۔انسان اپنی آزادی کے استعمال سے ہی انسانیت سے واقف ہو سکتا ہے۔ آزادی سے محروم ہو کر وہ انسانی صفات سے ہاتھ دھو بیٹھتا ہے۔ انسان اور غیر انسان کے درمیان جدلیاتی کشمکش صدیوں پرانی ہے۔ جب ایک انسان نے دوسرے انسان کواپنا غلام بنایا اسے اپنے حکم کے تعمیل کیلئےاستعمال کیا اور حکم نا ماننے پر تشدد کیا۔ ظلم اور جبر کیخلاف سوچنے والے غلاموں کو تختہ دار پر لٹکا دیا گیا۔ شعور کی بیداری کیساتھ ساتھ حاکموں پر یہ بات واضح ہوگئی کہ دوسرے انسان کو اپنے حکم کیلئے استعمال کرنے کیلئے ضروری ہے کہ اسے اس حد تک گھٹیا بنا دیا جائے کہ وہ ہر طرح کے احکامات مانتے ہوئے حیل و حجت نہ کرے بلکہ خاموشی سے سنے اور عمل کرے۔ یہ بھی کہا جاسکتا ہےکہ حاکموں نے اس طرح کا رویہ حیوانوں سے بھی سیکھا ہے۔ جو انسان کا حکم مانتے ہوئے نہ تو احتجاج کرتے ہیں اور نہ بغاوت۔ وفاداری کا صرف فریضہ نبھاتے ہیں بعض اوقات یہ گالی ایسے نوکر یا غلام کو بھی دی جاتی ہے جو مالک کی وفاداری کرنے سے کوتاہی برتتا ہے کہ اس سے زیادہ کتا وفادار ہے جو مالک کا گھر نہیں چھوڑتا۔

اسطرح غلام پر کتے کو ترجیح دی جاتی ہے۔ مالک کے خلاف آواز اٹھانے والے انسان کو باغی، دہشتگرد، نمک حرام جیسی منفی قدروں اور نفرت کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ خواہ وہ حقیقت میں سچ ہی کہے۔ اس عمل کو نوآبادکاروں نے بہت حد تک سائنسی بنا کر پیش کیا ہے۔ ایسے طریقے اور نظریات استعمال کئے کہ دیسی نو آبادیاتی لوگ اپنی انسانی شناخت کھو کر ہر لحاظ سے غیر انسانی بن جاتے ہیں۔

انسان کا اپنی آزادی کے وصف کی شناخت کا سوال سادہ لیکن گہرہ اور پیچیدہ ہے۔ ایک دفعہ اگر وہ اس سچائی کو پالے تو دوسری باتیں ثانوی بن جاتی ہیں۔وہ آزاد انسان خود سماج کو تبدیل کرنے کا منصوبہ بناتا ہے۔اپنا فاعلی کردار ادا کرتا ہےآزاد انسان پانی کی طرح اپنے راستے کا تعین خود کرتا ہےکچھ لوگ اس سے انارکی پھیلنے کے اندیشے کا اظہار کر سکتے ہیں۔ تاہم انارکی پھیلنے کا اعتراض ان لوگوں کی طرف سے آسکتا ہے جو ذہنی طور پر دوسرے انسانوں کو حکم دینے اور کنٹرول کرنے کی بیماری میں مبتلا ہوجاتے ہیں۔ ہر حکم ایک شخص کی خواہش کو دوسرے پر ٹھونسے جانے کے عمل کی ترجمانی کرتا ہے۔چنانچہ مظلوم کا رویہ ایک محکم رویہ ہے جو حاکم کی رہنمائی کے تحت متعین ہوتا ہے۔ حاکم ہمیشہ اپنے مفادات کیلئے منصوبے بناتا ہےاور اپنے ماتحتوں کو اس پر عمل کرنے کیلئے مجبور کرتا ہے۔اس لیئے آزادی کے بغیر ہر قسم کی ترقی اور خوشحالی فریب ہے آزادی تحفے کے طور پر نہیں ملتی بلکہ جدوجہد کے نتیجے میں حاصل ہونے والاثمر ہے۔ تاریخ میں آزاد انسان ہی تاریخی کردار ادا کرتے ہیں جسکی بنیاد پر قوموں کا انحصار ہوتا ہے آزادی انسان کے اندر سے پھوٹنے والا چشمہ ہوتا ہے جو دوسروں کو سراب کرنے کیلئےآزاد سوچ کی کوکھ سے جنم لیتا ہے اور ویران ذہنوں کو آباد کرتا ہے۔
غلام بنانے کا مطلب انسانی خصوصیات سے محرومی ہے ۔اس کا وجود اپنے لئے نہیں ہوتا جس کے تحت وہ اپنے آپ کو مفعول بنا کر کائنات کے مطابق ڈھالتا ہے۔ وہ شعور جس میں ایک انسان سب سے پہلے یہ ادراک کرتا ہے کہ وہ مظلوم ہے اور یہ بھی ادراک کرتا ہے کہ اس کے خلاف ظلم کرنے والا کوئی ظالم ہے تیسرا اس حقیقت کا گیان کرتا ہے کہ وہ ان حالات کو بدل سکتا ہے اور رفتہ رفتہ سماج میں سیاسی ،سماجی، اور ثقافتی تضادات کو سمجھنا شروع کر دیتا ہے اور یہی ایک آزاد انسان کی پہچان ہے کہ وہ آزاد ہواوں کی طرح اپنا راستہ خود تلاش کرتا ہے۔ خواہ اسے انارکی کہاجائے یا باغیانہ روش، آزادی کے بغیر ترقی کرنا ایسے ہی ہے جیسے مرغی کے بغیر انڈہ، آزادی اور ترقی ایک دوسرے سے ایسے جڑے ہیں جیسے مرغی اور انڈہ، مرغی کے بغیر آپ کوئی انڈہ حاصل نہیں کر سکتے اور انڈے کے بغیر آپ کوئی مرغی حاصل نہیں کرسکتے۔ اسی طرح آپ آزادی کے بغیر ترقی نہیں کر سکتے اور ترقی کے بغیر آپ جلد ہی آزادی کھو دیں گے۔

یہ بھی پڑھیں

فیچرز