تہران (ہمگام نیوز) مانیٹرنگ نیوز ڈیسک رپورٹس کے مطابق تہران اور نئی دہلی نے ایرانی کے زیر قبضہ مقبوضہ بلوچستان کے بندرگاہ چاہ بہار منصوبہ جلد مکمل کرنے پر اتفاق کرلیا بھارت کے وزیر خارجہ نے امریکا کی جانب سے اقتصادی پابندیوں کے باوجود ایران کے دورے کے دوران مذکورہ پیش رفت سے متعلق آگاہ کیا. واضح رہے کہ چاہ بہار بندرگاہ بھارت، ایران اور افغانستان کے اشتراک سے تیار ہورہی ہے جو بحر ہند میں پاکستان کے زیر قبضہ بلوچستان گوادر پورٹ سے تقریباً 100 کلومیٹر مغرب میں واقع ہے‘بندرگاہ کی تعمیر کا کام ایران پر پابندیوں میں کمی کے باوجود تعطل کا شکار رہا تھا لیکن پھر امریکا نے ایران کے ساتھ 2015 کے جوہری معاہدے سے دستبردار ہونے کے بعد مزید اقتصادی پابندیاں لگادی گئیں.
ابھی بھارتی وزیر خارجہ سبرامنیم جیشنکر نے اپنے ٹوئیٹ میں کہا کہ ابھی ایک بہت نتیجہ خیز ایران مشترکہ کمیشن کا اجلاس اختتام ہوا۔انہوں نے کہا کہ ہمارے اشتراک سے تمام منصوبے کا جائزہ لیا گیا اور اب ہمارے چاہ بہار منصوبے کو تیز کرنے پر اتفاق ہوا.واضح رہے کہ بھارتی وزیر خارجہ ایران میں دو روزہ دورے پر تھے واشنگٹن نے جوہری معاہدے سے دستبرداری اختیار کی اور زیادہ سے زیادہ دباﺅکی مہم کے تحت تہران پر پابندیاں عائد کردی گئیں جس کا مقصد تہران کے علاقائی کردار اور میزائل نیوکلیئر پروگرام کو کم یا ختم کرنا ہے.
ایران کے صدر حسن روحانی نے بھارتی وزیر خارجہ کے ہمراہ مشترکہ نیوز کانفرنس میں کہا کہ اس منصوبے سے خطے میں تجارت کو فروغ ملے گا‘انہوں نے کہا کہ چاہ بہار زاہدان، ذد آپ ریلوے ٹریک کو مکمل کرنا اور اسے ایران کی قومی ریلوے سے جوڑنے سے چاہ بہار بندرگاہ کا کلیدی کردار بن جائے گا.
ایرانی صدر حسن روحانی نے کہا کہ علاقائی تجارت میں انقلاب آسکتا ہے اور ایک مختصر راستے پر سامان کی نقل و حرکت میں مدد مل سکتی ہے‘حسن روحانی نے کہا کہ علاقائی سلامتی کو برقرار رکھنا ایران اور بھارت کے لیے انتہائی ضروری ہے.
انہوں نے کہا کہ موجودہ صورتحال میں جہاں امریکا یکطرفہ پابندیوں عائد کررہا ہے ہمیں دو طرفہ تعاون کو جاری رکھنے کی کوشش کرنی چاہیے انہوں نے وضاحت کیئے بغیر کہا یہ صورتحال یقینی طور پر قائم نہیں رہے گی اور بقول ان کے امریکا جلد یا بدیر ایران کے خلاف اپنا زیادہ سے زیادہ دباﺅ ختم کرنے پر مجبور ہوجائے گا . یاد رہے امریکہ نے مئی میں کچھ ممالک کے لیے پابندیوں میں تخفیف کو ختم کردیا تھا جس کے بعد بھارت نے تہران سے تیل کی خریداری معطل کردی تھی جس کے بعد ایران کے محصولات کا سب سے بڑا ذریعہ ختم ہوگیا تھا‘ تعلقات میں کشیدگی کے باوجود ایران اور بھارت نے شراکت داری کو آگے بڑھانے اور آگے بڑھنے کی کوشش کی. مزید یہ کہ عالمی بحری جہاز رانی کے اہم تجارتی بحری روٹ ھرمزگاہ انھی پورٹس کے پاس سے ہو کر گزرتی ہیں ،جہاں ہونے والے معائدوں میں بلوچ قوم کی کوئی مرضی و منشاء شامل نہیں کیا گیا ہیں ۔
واضع رہے بلوچ قومی ملکیت ایران اور پاکستان کے زیر قبضہ مقبوضہ بلوچستان کے جڑواں پورٹس چاہ بہار و گوادر کے عالمی اہمیت کے حامل ڈیپ سی پورٹس میں بلوچ قوم کی مرضی و منشاء کے خلاف انڈیا ایران افغانستان چائنا اور پاکستان کی جانب سے تجارت و عسکری مقاصد کے معائدے بلوچ قوم کے وسیع تر قومی مفاد سے برائے راست ٹکراو ہیں اور ایسے معائدوں کے طویل مدتی اثرات بلوچ کے وسیع تر مفاد اور قومی بقاء کیلئے سنگین خطرہ ہیں ۔