واشنگٹن (ھمگام انٹرنیشنل) امریکہ کی جانب سے جاری کی گئی انسانی حقوق سے متعلق سالانہ رپورٹ میں انڈیا میں ’انسانی حقوق سے متعلق اہم مسائل‘ کا ذکر کیا گیا ہے۔

برطانوی خبر رساں ادارے رائٹرز کے مطابق امریکی محکمہ خارجہ نے کہا ہے کہ پیر کو منظرعام پر آنے والی رپورٹ میں انڈیا میں مذہبی اقلیتوں، اختلاف کرنے والے افراد اور صحافیوں کو نشانہ بنانے کے واقعات شامل ہے۔

یہ رپورٹ امریکی وزیرخارجہ انتونی بلنکن کے اس بیان کے ایک برس بعد سامنے آئی ہے، جس میں انہوں نے کہا تھا کہ امریکہ انڈیا میں کچھ سرکاری حکام، پولیس اور جیلوں کے نگرانوں کی طرف سے کی جانے والی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر نگاہ رکھے ہوئے ہے۔

واضح رہے کہ قریبی اقتصادی تعلقات اور خطے میں چین کے مقابلے کے لیے امریکہ کے لیے انڈیا کی اہمیت کافی زیادہ ہے۔ اس لیے عام طور پر انڈیا پر امریکی تنقید کم ہی ہوتی ہے۔

انڈیا میں انسانی حقوق کے اہم مسائل میں حکومت یا اس کے کارندوں کی جانب سے ماورائے عدالت قتل کی مصدقہ رپورٹس شامل ہیں۔

رپورٹ میں شہریوں پر تشدد، ان کے ساتھ غیرانسانی یا توہین آمیز سلوک، پولیس اور جیل حکام کی طرف سے سزا دینے، سیاسی قیدی بنانے اور نظر بندیوں سمیت صحافیوں کی بلاجواز گرفتاریوں کا حوالہ دیا گیا ہے۔

انسانی حقوق کی تنظیمیں انڈیا کے وزیراعظم نریندر مودی کی ہندو قوم پرست جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے تحت حالیہ برسوں میں انسانی حقوق کی بگڑتی ہوئی صورتحال پر تسلسل کے ساتھ تشویش کا اظہار کر رہی ہیں۔

ہیومن رائٹس واچ نے کہا ہے کہ انڈین حکومت کی پالیسیاں اور اقدامات مسلمانوں کو نشانہ بناتے ہیں جبکہ مودی کے ناقدین کا کہنا ہے کہ ان کی ہندو قوم پرست حکمراں جماعت نے 2014 میں اقتدار میں آنے کے بعد سے مذہبی منافرت کو بڑھایا ہے۔

مودی حکومت کے ناقدین 2019 کے پڑوسی ممالک کے مسلمان تارکین وطن کو نکالنے والے شہریت کے قانون کا حوالہ دیتے ہیں جسے اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے دفتر نے ’بنیادی طور پر امتیازی‘ قرار دیا ہے۔

اس کے علاوہ تبدیلی مذہب مخالف قانون سازی اور 2019 میں مسلم اکثریتی ریاست کشمیر کی خصوصی حیثیت کو ختم کرنے کا حوالہ بھی دیا جاتا ہے۔

دوسری جانب انڈین حکومت ان الزامات کو مسترد کرتی ہے۔ حکومت کا موقف ہے کہ اس کی پالیسیوں کا مقصد تمام کمیونٹیز کی ترقی ہے۔

سنہ 2022 میں حکومت نے انڈیا کے کچھ حصوں میں غیر قانونی دکانوں اور جائیدادوں کو بھی منہدم کر دیا تھا جن میں سے اکثر مسلمانوں کی ملکیت تھیں۔

ناقدین کا کہنا ہے کہ انہدام کی مہم انڈیا کے 200 ملین مسلمانوں کو ڈرانے کی کوشش تھی جبکہ حکومت کا موقف تھا کہ وہ قانون نافذ کر رہے ہیں۔

پیر کو جاری کی گئی امریکی رپورٹ میں مزید کہا گیا کہ ’انسانی حقوق کے کارکنوں نے بتایا ہے کہ حکومت مبینہ طور پر مسلم کمیونٹی کی تنقیدی آوازوں کو نشانہ بنا رہی ہے اور ان کے گھروں اور کاروبار کو تباہ کرنے کے لیے بلڈوزر کا استعمال کر رہی ہے۔‘

سنہ 2014 میں نریندر مودی کے اقتدار سنبھالنے کے بعد سے انڈیا ورلڈ پریس فریڈم انڈیکس میں 140 ویں سے نیچے آ چکا ہے۔ گزشتہ برس اس کا 150 واں نمبر پر تھا جو اب تک سب سے کم ہے۔