دبئی ( ہمگام نیوز ) مانیٹرنگ نیوز ڈیسک کی رپورٹ کے مطابق ایرانی سیکیورٹی فورسز نے سیستان بلوچستان میں نماز جمعہ کے بعد مظاہرین پر فائرنگ کر دی۔ کارکنوں کے مطابق ایرانی فورسز کی حالیہ جارحیت میں درجنوں افراد جاں بحق اور زخمی ہوگئے ہیں۔ جمعہ کی رات دوبارہ کچھ علاقوں میں احتجاجی مظاہرے کئے گئے۔
مظاہرین کے ایک گروپ نے رات کے وقت دارالحکومت کے مغرب میں کاراج میں مظاہرے کئے اور مظاہرین نے نعرے لگائے “یہ سال خون کا سال ہے، خامنہ ای اس میں گریں گے” تہران کے “جٹکار” محلے میں بھی مظاہرین نے یہی نعرہ لگایا۔
اس سے قبل کچھ کرد علاقوں میں سکیورٹی الرٹ کے بعد سامنے آیا تھا جس کے بعد دوبارہ مظاہرے شروع کر دئیے گئے۔
ایرانی حکومت نے 16 ستمبر کو نوجوان خاتون مہسا امینی کی موت کے بعد شروع ہونے والے مظاہروں کے خلاف کریک ڈاؤن تیز کر دیا ہے۔ مظاہرین نے اس ہفتے کردستان صوبے کے ساتھ اظہار یکجہتی کے لیے ملک بھر میں مظاہروں کی کال دی تھی۔ سیستان، بلوچستان کے ساتھ کردستان بھی سکیورٹی کریک ڈاؤن میں سب سے زیادہ متاثر ہوا ہے۔
ایران میں سنی اکثریت والے چند شہروں میں سے ایک سیستان بلوچستان کا دارالحکومت زاہدان ہے جہاں پر مظاہرین نے نعرے لگائے “کردستان کردستان، ہم تمہاری حمایت کرتے ہیں”۔
سوشل میڈیا پر پوسٹ مظاہرین کی ایک اور ویڈیو، جس کے درست ہونے کی تصدیق نہیں ہوسکی، میں ایرانی سپریم لیڈر علی خامنہ ای کا حوالہ دیتے ہوئے کہا جا رہا ہے “کرد اور بلوچ بھائی بھائی ہیں اور لیڈر کے خون کے پیاسے ہیں”۔
لندن میں قائم بلوچ ایکٹوسٹ کمپین نے ٹیلی گرام چینل پر کہا کہ “درجنوں افراد ہلاک یا زخمی ہوئے ہیں۔ تاہم اے ایف پی نے اطلاعات کی تصدیق نہیں کی۔ بلوچ کارکنوں اور 1500 فوٹوگرافی آبزرویٹری کے مطابق، مظاہرین سیستان ۔ بلوچستان کے شہروں ایرانشہر، خاش اور سراوان کی سڑکوں پر بھی نکل آئے۔ اوسلو میں قائم ایران میں انسانی حقوق کی تنظیم “ہیومن رائٹس ایران” نے کہا ہے کہ ایرانی پاسداران انقلاب نے بھاری مشین گنوں سمیت فوجی ساز و سامان کا استعمال کیا۔
منگل کو انسانی حقوق کی تنظیم نے بتایا تھا کہ ایرانی سکیورٹی فورسز نے مظاہرے شروع ہونے کے بعد سے کم از کم 416 افراد کو قتل کردیاہے جن میں 51 بچے اور 27 خواتین شامل ہیں۔
اس تعداد میں سیستان بلوچستان میں ہلاک ہونے والے 126 افراد اور کردستان میں ہلاک ہونے والے 48 افراد شامل ہیں۔ 30 ستمبر کو زاہدان میں فائرنگ کے نتیجے میں 90 سے زائد افراد مارے گئے تھے جسے مظاہرین نے “بلڈی فرائیڈے” کا نام دیا تھا۔
انقلابی گارڈ کی توسیع
جمعہ 25 نومبر کو سرکاری ایرانی میڈیا نے اطلاع دی ہے کہ پاسداران انقلاب نے مظاہروں پر قابو پانے کی مہم کے ایک حصے کے طور پر کرد علاقوں میں اپنی موجودگی بڑھا دی ہے۔
سرکاری خبر رساں ایجنسیوں نے اطلاع دی ہے کہ اتوار کو پہلے سے کمک کا اعلان کرنے کے بعد، مزید بکتر بند یونٹس اور پاسداران انقلاب کے خصوصی دستے مغرب اور شمال مغرب میں سرحدی علاقوں کی طرف جا رہے ہیں۔ ان علاقوں میں کرد اقلیت مقیم ہے۔
بلوچ اقلیت سے تعلق رکھنے والے ایک ممتاز سنی عالم مولانا عبدالحمید نے نماز جمعہ کے بیان میں مطالبہ کیا کہ مظاہرین کو کچلنے کا سلسلہ ختم کیا جائے۔
انہوں نے کہا کہ عوام کا احتجاج ظاہر کرتا ہے کہ گزشتہ 43 سالوں کی سیاست ختم ہو چکی ہے۔ اپنے نماز جمعہ کے خطاب میں مولانا عبد الحمید نے خواتین قیدیوں کے ساتھ ناروا سلوک اور بدسلوکی کی خبروں کی بھی مذمت کی، انہوں نے کہا خواتین کے ساتھ بدسلوکی کے بارے میں میڈیا میں خوفناک چیزیں ہیں جسے میں دہرا بھی نہیں سکتا۔ وہ بظاہر خواتین قیدیوں کی عصمت دری کی خبروں کا حوالہ دے رہے تھے۔