تہران(ہمگام نیوز) امریکا اور ایران کے درمیان قطر کی ثالثی میں طے پانے والے قیدیوں کے تبادلے کے نادرمعاہدے پر سوموار کے روز عمل درآمد ہوگیا ہے۔اس کے تحت تحت امریکا میں قید پانچ ایرانیوں کو رہا کیا گیا ہے اور ان کے تبادلے میں ایران سے پانچ امریکی قیدی دوحہ روانہ ہو گئے ہیں۔
قطر کے ایک طیارے نے تہران سے ان پانچوں افراد کو ان کے دو رشتہ داروں کے ساتھ لے کر اڑان بھری ہے۔اس کے فوراً بعد ہی امریکا اور ایران دونوں کو اس بات کی تصدیق کی گئی تھی کہ ایران کی جنوبی کوریا میں منجمد چھے ارب ڈالر کی رقم غیرمنجمد کرکے دوحہ کے اکاؤنٹس میں منتقل کر دی گئی ہے۔
ایران کے پریس ٹی وی کا کہنا ہے کہ امریکا نے جن پانچ ایرانیوں کو رہا کرنا تھا، ان میں سے دو دوحہ پہنچ چکے ہیں۔اس بات کی آزادانہ طور پر تصدیق نہیں کی گئی۔تاہم ایرانی حکام کا کہنا تھا کہ امریکا میں رہائی پانے والے تین افراد ایران واپس نہیں آ رہے ہیں۔
ایران کی وزارتِ خارجہ کے ترجمان ناصر کنعانی نے کہا ہے کہ امریکا رہا کیے جانے والے دو ایرانی وطن واپس آئیں گے جبکہ دو نے امریکا ہی میں رہنے کی درخواست کی ہے اور وہ وہیں رہیں گے۔ انھوں نے مزید کہا کہ ایک قیدی اپنے خاندان کے ساتھ کسی تیسرے ملک میں جائے گا۔
قبل ازیں کنعانی نے کہا تھا کہ 2018ء میں ایران پر امریکی پابندیوں میں سختی کے بعد جنوبی کوریا میں منجمد کی گئی رقم آج تہران کو دستیاب ہوگی۔ معاہدے کے تحت قطر اس بات کو یقینی بنائے گا کہ یہ نقد رقم انسانی بنیادوں پر استعمال کی جائے نہ کہ امریکی پابندیوں کے تحت آنے والی اشیاء پر۔
اس معاہدے کے تحت ایران کے فنڈز کی منتقلی پر امریکی ری پبلکنز کی جانب سے تنقید کی جا رہی ہے اور ان کا کہنا ہے کہ ڈیموکریٹک پارٹی سے تعلق رکھنے والے صدر جو بائیڈن درحقیقت امریکی شہریوں کے لیے تاوان ادا کر رہے ہیں جبکہ وائٹ ہاؤس نے اس معاہدے کا دفاع کیا ہے۔
ایران میں رہائی پانے والوں میں 51 سالہ سیماک نمازی ،59 سالہ عماد شرقی اور 67 سالہ ماہر ماحولیات مراد تہ باز شامل ہیں۔مؤخرالذکر کے پاس برطانوی شہریت بھی ہے۔انھیں گذشتہ ماہ جیل سے رہا کرکے گھر میں نظربند کردیا گیا تھا۔چوتھے امریکی شہری کو بھی گھر میں نظر بند کر دیا گیا جبکہ پانچواں پہلے ہی گھر میں نظربند تھا لیکن ان دونوں کی شناخت ظاہر نہیں کی گئی ہے۔ امریکی حکام کے مطابق قطری طیارے میں تہران سے روانہ ہونے والے مسافروں میں سیماک کی والدہ ایفی اور مراد تہ باز کی اہلیہ ویدا بھی شامل ہیں۔
ایرانی حکام نے امریکا میں رہا کیے جانے والے پانچ ایرانیوں کے نام مہرداد معین انصاری، کمبیز عطار کاشانی، رضا سرہنگ پور کافرانی، امین حسن زادہ اور کاوے افراسیابی بتائے ہیں۔ اس سے قبل دو ایرانی عہدے داروں نے کہا تھا کہ افراسیابی امریکا میں ہی رہیں گے لیکن انھوں نے دیگر کا ذکر نہیں کیا۔
بائیڈن انتظامیہ کا دفاع
بائیڈن انتظامیہ کے ایک سینیر عہدہ دار نے کہا کہ اس معاہدے سے ایران کے ساتھ امریکا کے تعلقات میں کوئی تبدیلی نہیں آئے گی۔ ایران ایک دشمن اور دہشت گردی کی سرپرستی کرنے والا ملک ہے۔
بائیڈن انتظامیہ کے ایک سینیر عہدہ دار نے قیدیوں کے تبادلے سے قبل صحافیوں کو بتایا کہ غلط طریقے سے حراست میں لیے گئے امریکیوں میں سیماک نمازی، عماد شرقی، مراد تہ باز اور دو دیگر امریکی شامل ہیں جو اپنی نجی زندگی گزارنا چاہتے ہیں۔
عہدہ دار کے مطابق ان سبھی پر غیر متشدد جرائم کا الزام عاید کیا گیا سزا سنائی گئی تھی۔ان پانچوں میں سے دو جیل میں تھے اور ان کی سزا “ختم ہونے والی تھی”۔ دیگر تین مقدمے کی سماعت کا انتظار کر رہے تھے اورانھیں ابھی تک کسی ایرانی عدالت نے مجرم قرار نہیں دیا تھا۔
امریکی حکام نے اس معاہدے پر ہونے والی تنقید کو فوری طور پر مسترد کر دیا۔انھوں نے بالخصوص ری پبلکن اورسابق ٹرمپ انتظامیہ کے عہدے داروں کے تنقیدی بیانات کو مسترد کردیا ہے۔ناقدین کا کہنا ہے کہ چھے ارب ڈالر کے اجراء سے ایران اور دیگر امریکی مخالفین کو تاوان کے لیے یرغمال بنانے کا سلسلہ جاری رکھنے کی ترغیب ملے گی۔
لیکن امریکی عہدہ دار کا کہنا تھا کہ ایران کو جنوبی کوریا سے تیل کی خریداری پر منجمد کی گئی رقم جاری کی جارہی ہے۔ اس نے کئی سال قبل ایران سے یہ تیل خریدکیا تھا اورکچھ ٹرمپ انتظامیہ کے دور میں خرید کیا تھا لیکن اس کی واجب الادا قیمت کی رقم تھی۔
واضح رہے کہ جنوبی کوریا ایران کے تیل کے بڑے صارفین میں سے ایک ہے، جب واشنگٹن نے تہران پر وسیع پیمانے پر مالی پابندیاں عاید کی تھیں اور تو جنوبی کوریا سے ایران کو نقد رقوم کی منتقلی روک دی گئی تھی اور انھیں منجمد کر لیا گیا تھا۔
جنوبی کوریا سے ایک محدود اکاؤنٹ میں منتقل ہونے کے بعد، رقم اب قطر میں ایک اور محدود اکاؤنٹ میں ہوگی جہاں وہ انسانی اشیاء کے ایک بہت محدود زمرے کے لیے دستیاب ہوگی۔امریکی حکام کا کہنا ہے کہ ان میں خوراک، ادویہ، طبی آلات اور زرعی مصنوعات شامل ہیں۔
انھوں نے یہ بھی کہا کہ اس بات کو یقینی بنانے کے لیے سخت نگرانی کا عمل ہوگا کہ فنڈز کو کسی بھی ممنوعہ شے کی خریداری کے لیے استعمال نہیں کیا گیا تھا۔
دوسری جانب ایرانی حکام بارہا یہ دعویٰ کر چکے ہیں کہ وہ اس رقم کو جو چاہیں استعمال کر سکیں گے۔تاہم امریکی حکام کا کہنا ہے کہ اگر ایران نے ان فنڈز کو انسانی مقاصد کے علاوہ کسی اور مقصد کے لیے استعمال کرنے کی کوشش کی تو وہ ان فنڈز کو ‘منجمد’ کرنے کے لیے کارروائی کریں گے۔
ایک عہدہ دار کا کہنا تھا کہ یہ رقم ایران ہی کی ہے اور یہ امریکی ٹیکس دہندگان کے ڈالر نہیں ہیں۔ انھوں نے کہا کہ ایران کو امریکا سے کبھی کوئی فنڈز نہیں جاتے اور نہ ہی ایرانی کمپنیوں یا اداروں کو کوئی رقم ادا کی جاتی ہے۔
دونوں عہدے داروں نے اس معاہدے کا دفاع کیا جب ان سے پوچھا گیا کہ اس سے روس کو کیا پیغام جائے گا جو متعدد امریکیوں یا دیگر ممالک کے شہریوں کو حراست میں لے رہا ہے۔
واضح رہے کہ اگلے ماہ ایران پر اقوام متحدہ کی عاید اسلحہ کی پابندی ختم ہو رہی ہے۔اس سے قبل یورپی ممالک نے 2015 کے جوہری معاہدے کو بحال کرنے کی کوششوں کے حصے کے طور پر اسے ختم کرنے پر غور کیا تھا۔
العربیہ کے اس پابندی کی مدت کے خاتمے سے متعلق سوال پر بائیڈن انتظامیہ کے عہدہ دار نے کہا کہ امریکی حکومت قیدیوں کے تبادلے کے حصے کے طور پر ایران کے خلاف کوئی پابندی نہیں اٹھا رہی ہے۔
انھوں نے وضاحت کی کہ امریکا نے اس معاہدے کے تحت پابندیوں سے استثناجاری کیا تھا تاکہ جنوبی کوریا میں موجود رقوم کو امریکی مالیاتی نظام سے باہر قطر منتقل کیا جا سکے مگر یہ اقدام اس محدود مقصد کے لیے تھا کہ کچھ یورپی بینکوں کے ذریعے رقم کی دوحہ میں منتقلی کی اجازت دی جائے۔
اکتوبر میں اسلحہ پرعاید پابندیوں کی میعاد ختم ہونے کے بارے میں بات کرتے ہوئے عہدہ دار نے کہا کہ واشنگٹن ایران کو کوئی رعایت نہیں دے رہا ہے اور وہ یورپی شراکت داروں کے ساتھ اس بات کو یقینی بنانے کے لیے سرگرم بات چیت کر رہا ہے کہ پابندیوں کا نفاذ جاری رہے، خاص طور پر ایران کے میزائل اور ڈرون پروگرام پر پابندیاں برقرار رہنی چاہییں۔
اس عہدہ دار نے واضح کیا کہ قیدیوں کے تبادلے کے معاہدے سے ایران کے ساتھ امریکا کے تعلقات میں کوئی تبدیلی نہیں آئے گی کیونکہ ایران ایک دشمن اور دہشت گردی کی سرپرستی کرنے والا ملک ہے۔جہاں بھی ممکن ہو، ہم ان کا احتساب کریں گے۔