Homeآرٹیکلزایران میں تمام پروازیں منسوخ، ممکنہ جنگ کے خدشات بڑھ گئے۔ تحریر:...

ایران میں تمام پروازیں منسوخ، ممکنہ جنگ کے خدشات بڑھ گئے۔ تحریر: آرچن بلوچ

چابھار: مشرق وسطیٰ میں بحران شدت اختیار کر چکا ہے۔ ایک جانب لبنان میں شدید جنگ جاری ہے، تو دوسری جانب اسرائیل کے وزیر دفاع نے خبردار کیا ہے کہ ایران کو بھی غزہ اور بیروت کے حالات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔

اس دوران ایران کے وزیر تیل نے جزیرہ خرک پر تیل برآمد کرنے والے ٹرمینل کا دورہ کیا اور آئی آر جی سی (سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی) کے بحری کمانڈر سے ملاقات کی۔ ایران کی سول ایوی ایشن آرگنائزیشن نے اتوار کی شام اعلان کیا کہ تمام ایرانی ہوائی اڈوں سے تمام پروازیں رات 9 بجے سے پیر کی صبح 6 بجے تک معطل رہیں گی۔

دوسری جانب اطلاعات موصول ہو رہی ہیں کہ امریکی بحری بیڑے خطے میں بڑی تعداد میں پہنچ رہے ہیں، جس سے اس بات کا خدشہ بڑھ گیا ہے کہ اسرائیل ایران پر حملہ کر سکتا ہے۔ کل یعنی 7 اکتوبر کو فلسطین کی تنظیم حماس کے اسرائیل پر بڑے حملے کی سالگرہ ہے، جس کے نتیجے میں یہ قیاس کیا جا رہا ہے کہ اسرائیل پچھلے ہفتے ایران کی جانب سے کیے گئے میزائل حملوں کا بدلہ لینے کے لیے کل حملہ کر سکتا ہے۔

خطے میں جنگ جاری ہے، اور اسرائیل اس وقت پانچ محاذوں پر جنگ لڑ رہا ہے۔ ان محاذوں میں حماس، حزب اللہ، یمن کے حوثی، اور ایران شامل ہیں۔ اس کے علاوہ، عراق میں ایران کی حمایت یافتہ شیعہ ملیشیائیں بھی ایرانی کامکاز ڈرونز کے ذریعے اسرائیل پر حملے کر رہی ہیں۔

برطانیہ میں اسرائیل کی سفیر زیپی ہوتوولی نے اعلان کیا ہے کہ اسرائیل ایران کی جوہری تنصیبات پر حملے پر غور کر رہا ہے۔ ان کا کہنا ہے، “اسرائیل اس خطرے کو ہمیشہ کے لیے ختم کر دے گا۔”

ایران کے ممکنہ ردعمل:
اگر اسرائیل ایران پر حملہ کرتا ہے، خاص طور پر اس کی جوہری تنصیبات کو نشانہ بناتا ہے، تو ایران کا ردعمل شدید اور پیچیدہ ہو سکتا ہے۔ ایران کا ردعمل کئی عوامل پر منحصر ہوگا جیسے حملے کی نوعیت، بین الاقوامی ردعمل اور ایران کی دفاعی حکمت عملی۔ یہاں ایران کے ممکنہ ردعمل کی چند اہم صورتیں دی جا رہی ہیں: ایران فوری طور پر اپنی فوجی طاقت کا مظاہرہ کرتے ہوئے جوابی حملہ کر سکتا ہے۔ اس میں ممکنہ طور پر درج ذیل اقدامات شامل ہو سکتے ہیں:

ایران کے پاس بیلسٹک میزائلوں کا بڑا ذخیرہ موجود ہے، جیسے شاہاب اور فاتح میزائل، جنہیں اسرائیل کے فوجی اڈوں، شہروں اور بنیادی ڈھانچے کو نشانہ بنانے کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے فضائی اور بحری حملے اگرچہ اسرائیل کی فضائی طاقت برتر ہے، ایران خلیج فارس میں اسرائیلی بحری مفادات پر حملے کی کوشش کر سکتا ہے۔

ایران خطے میں اپنے پراکسی گروہوں کے ذریعے حملے کروا سکتا ہے، جیسے حزب اللہ یہ ایران کا اہم حمایتی گروہ ہے جس کے پاس ہزاروں راکٹ اور میزائل ہیں جو اسرائیل تک پہنچ سکتے ہیں حماس اور اسلامی جہاد یہ گروہ بھی اسرائیل پر حملے کر سکتے ہیں تاکہ اسرائیل کو زیادہ سے زیادہ نقصان پہنچایا جا سکے۔عراق اور شام کی ملیشیائیں ایران کے زیر اثر ملیشیائیں امریکی اڈوں یا اسرائیلی مفادات کو نشانہ بنا سکتی ہیں۔ حوثی جنگجو بھی اسرائیل یا امریکی مفادات پر ڈرون یا میزائل حملے کر سکتے ہیں۔

سمندری اور اقتصادی بدامنی ایران خلیج فارس میں اپنے اسٹریٹجک مقام کا استعمال کرتے ہوئے عالمی تجارت میں خلل ڈال سکتا ہے، جیسے خطے میں کشیدگی کا پھیلاؤ کے خدشاب بہت بڑھ گئے ہیں اسرائیل کے ایران پر حملے کے نتیجے میں پورے مشرق وسطیٰ میں عدم استحکام پیدا ہو سکتا ہے۔ ایران سعودی عرب اور دیگر خلیجی ممالک کو بھی اپنے حملوں کا نشانہ بنا سکتا ہے۔

ایران آبنائے ہرمز کو بند کرنے کی دھمکی دے سکتا ہے تیل کی ترسیل میں خلل ڈال سکتا ہے جس سے دنیا کا 20 فیصد تیل گزرتا ہے۔ اس سے عالمی معیشت اور تیل کی قیمتوں میں بڑا بحران پیدا ہو سکتا ہے۔ ایران سائبر جنگ کے ذریعے اسرائیل کے بنیادی ڈھانچے کو نشانہ بنا سکتا ہے، جس میں بجلی اور پانی کا نظام: ایران اسرائیل کے بجلی، پانی اور دیگر اہم نظاموں پر سائبر حملے کر سکتا ہے تاکہ ملک میں افراتفری پیدا ہو۔

ایران عالمی فورمز پرسفارتی اور سیاسی اقدامات اسرائیل کے خلاف سفارتی مہم شروع کر سکتا ہے، جیسے اقوام متحدہ میں شکایت کرے گی ایران اسرائیل کے حملے کے بعد عالمی حمایت حاصل کرنے کی کوشش کرے گا اور اسے بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی قرار دے کر دیگر مسلم ممالک سے مدد لینے کی کوشش کرے گا۔

ایران کی جوہری پروگرام کے حوالے یہ کہا جا رہا ہے کہ اگر اسرائیل ایران کی جوہری تنصیبات کو نشانہ بناتا ہے تو ایران اپنے جوہری پروگرام میں تیزی لا سکتا ہے، جیسے یورینیم کی افزودگی میں اضافہ، ایران ممکنہ طور پر یورینیم کی افزودگی کو ہتھیاروں کے درجے تک بڑھا سکتا ہے۔

عالمی اقتصادی اثرات کے حوالے ایران اور اسرائیل کے درمیان جنگ کے عالمی سطح پر اقتصادی اثرات ہوں گے۔ خاص طور پر اگر ایران تیل کی ترسیل میں خلل ڈالتا ہے تو عالمی منڈی میں تیل کی قیمتیں آسمان کو چھو سکتی ہیں۔ ایران امریکی فوجی اڈوں کو نشانہ بنا کر امریکہ کو بھی اس جنگ میں شامل کرنے کی کوشش کر سکتا ہے۔ اس سے عالمی سطح پر مزید کشیدگی بڑھ سکتی ہے۔ اسرائیل اور ایران کے درمیان ممکنہ جنگ نہ صرف مشرق وسطیٰ بلکہ پوری دنیا کے لیے خطرناک ثابت ہو سکتی ہے۔ اس تنازعے میں ایران کے جوابی اقدامات خطے میں ایک وسیع پیمانے پر جنگ کی شکل اختیار کر سکتے ہیں، جس کے عالمی سلامتی اور معیشت پر دور رس اثرات مرتب ہوں گے۔

اسرائیل حملے کی صورت میں ایران کے اندر حکومت کو عوامی حمایت حاصل ہو سکتی ہے، اور یہ حملہ حکومت کو ملکی اتحاد کو فروغ دینے کا موقع فراہم کر سکتا ہے۔ جبکہ دوسری طرف ایرانی اپوزیشن اس وقت ایسی پوزیشن میں نہیں ہے کہ وہ ایران میں حکومت کی تبدیلی کی صورت میں ملک کا کنٹرول سنبھال سکے، خاص طور پر اگر مغربی ممالک اس تبدیلی کی کوشش کریں۔ ایران کے اندر مختلف نسلی اور قومی گروہوں جیسے بلوچ، کرد، اہوازی عرب اور دیگر کا اثر و رسوخ مختلف علاقوں تک محدود ہے، اور ان گروہوں میں یکجہتی کا فقدان ہے۔
یہ گروہ تاریخی طور پر اپنی قوم پرستی اور علاقائی خود مختاری کی جدوجہد میں مصروف رہے ہیں، اور اکثر مرکزی حکومت سے ناراض رہے ہیں۔ لیکن ان گروہوں کے درمیان بھی اختلافات اور تنازعات ہیں، جو ایک متحدہ اپوزیشن کی تشکیل میں رکاوٹ بنتے ہیں۔ بلوچ، کرد اور اہوازی عرب گروہوں کی اپنی علاقائی شناختیں اور مقاصد ہیں، جو ملک گیر سطح پر حکومت کرنے یا ایران کے سیاسی ڈھانچے کو سنبھالنے کے لیے ایک مشترکہ منصوبہ پیش کرنے سے قاصر ہیں۔ مزید برآں، ایرانی حکومت نے ان علاقوں میں سخت گیر پالیسیوں اور کریک ڈاؤن کے ذریعے ان گروہوں کی تنظیمی صلاحیت کو محدود کر دیا ہے، جس سے ان کی حکومت کے خاتمے کے بعد اقتدار میں آنے کی صلاحیت مزید کمزور ہو گئی ہے۔

اسی لیے اگر مغربی ممالک ایران میں حکومت کی تبدیلی کی کوشش کرتے ہیں تو اپوزیشن گروپوں کی داخلی تقسیم اور ان کے محدود وسائل کی بنا پر یہ امکان کم ہے کہ وہ ملک میں استحکام پیدا کر سکیں یا ایک موثر حکومت قائم کر سکیں۔

Exit mobile version