نیویارک ( ہمگام نیوز) مانیٹرنگ نیوز ڈیسک کی رپورٹ کے مطابق اقوام متحدہ کے جوہری نگران ادارے کے معائنہ کاروں نے ایران کی فردو میں واقع زیرزمین جوہری تنصیب میں یورینیم کے ذرّات کو 83.7 فی صد تک افزودہ پایا ہے۔

ویانا میں قائم بین الاقوامی جوہری توانائی ایجنسی (آئی اے ای اے)کی جانب سے رکن ممالک کو فراہم کردہ خفیہ سہ ماہی رپورٹ میں اس اعلیٰ سطح کے افزودہ یورینیم کا انکشاف کیا گیا ہے اور یہ انکشاف ممکنہ طور پر ایران اور مغرب کے درمیان جوہری پروگرام پر تناؤ میں اوراضافہ کرے گا۔

آئی اے ای اے کی اس رپورٹ میں صرف “ذرّات” کے بارے میں بات کی گئی ہے،اس سے پتا چلتا ہے کہ ایران 60 فی صد سے زیادہ افزودہ یورینیم کا ذخیرہ نہیں بنا رہا ہے۔

رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ 21 جنوری کوانسپکٹروں کو پتاچلا تھاکہ فردومیں آئی آر-6 سینٹری فیوجز کے دوکیس کیڈزکو اس سے مختلف انداز میں ترتیب دیا گیا تھا جس کا پہلے سے اعلان کیا گیا تھا۔معائنہ کاروں نے اس سے اگلے دن نمونے لیے،ان میں افزودہ یورینیم کے 83.7 فی صد تک خالص ذرّات دیکھے گئے تھے۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ایران نے ایجنسی کو آگاہ کیا ہے کہ منتقلی کے دور میں افزودگی کی سطح میں ‘غیرمتوقع اتارچڑھاؤ’ ہوسکتا ہے۔تاہم ایجنسی اور ایران کے درمیان اس معاملے کی وضاحت کے لیے بات چیت جاری ہے۔

ایرانی حکام سے فوری طور پر اس رپورٹ کے بارے میں تبصرہ کے لیے رابطہ نہیں کیا جا سکا۔اس کی تفصیل گذشتہ ایک ہفتے سے گردش کررہی تھی۔

ایران کے سویلین جوہری پروگرام کے ترجمان بہروز کمال آفندی نے گذشتہ ہفتے یہ کوشش کی تھی کہ اس سطح تک افزودہ یورینیم کے ذرّات کی نشان دہی کی کسی طرح پردہ پوشی کی جاسکے اور اس کو 60 فی صد خالص پیداوار تک پہنچنے کی کوشش کے عارضی ضمنی اثرات کے طور پر پیش کیا جائے۔ تاہم، ماہرین کا کہنا ہے کہ جوہری سطح پر بھی مصفا یورینیم میں اتنا بڑا فرق معائنہ کاروں کے نزدیک مشکوک نظر آئے گا۔

واضح رہے کہ ایران 2015 کے جوہری معاہدے کے تحت یورینیم کو صرف3.67 فی صد تک افزودہ کرسکتا تھا اور یہ حد کسی جوہری پاور پلانٹ کو ایندھن مہیاکرنے کے لیے کافی ہے۔سنہ 2018 میں سابق امریکی صدر ڈولنڈ ٹرمپ کی اس معاہدے سے یک طرفہ دستبرداری کے بعد ایران نے زیادہ اعلیٰ سطح پرافزودہ یورینیم کی تیاری شروع کردی تھی۔

اس وقت ایران 60 فی صد خالص افزودہ یورینیم تیار کررہا ہے۔اس کے بارے میں جوہری عدم پھیلاؤ کے ماہرین پہلے ہی کَہ چکے ہیں کہ تہران کا کوئی سویلین استعمال نہیں ہے۔84فی صد یورینیم 90 فی صد کی سطح کے قریب ہے۔اس کا مطلب ہے کہ اگر ایران چاہے تو اس مواد کے کسی بھی ذخیرے کو ایٹم بم بنانے کے لیے فوری طور پراستعمال کرسکتا ہے۔

اگرچہ آئی اے ای اے کے ڈائریکٹرجنرل نے خبردار کیا ہے کہ ایران کے پاس اب اتنا یورینیم موجود ہے کہ اگر وہ چاہے تو’’کئی‘‘جوہری بم بناسکتا ہے، لیکن امکان ہے کہ اسے ہتھیاربنانے اورممکنہ طور پر اسے میزائل پر نصب کرنے میں مزید کئی مہینے لگ سکتے ہیں۔حال ہی میں امریکاکی انٹیلی جنس کمیونٹی نے اپنے اندازے کو برقرار رکھا ہے کہ ایران ایٹم بم بنانے کی کوشش نہیں کر رہا ہے۔

سی آئی اے کے ڈائریکٹر ولیمزبرنز نے سی بی ایس کے پروگرام ‘فیس دا نیشن’ میں بات کرتے ہوئے کہا کہ ‘جہاں تک ہمارے علم میں ہے، ہم نہیں سمجھتے کہ ایران کے سپریم لیڈر نے ابھی تک اسلحہ کے اس پروگرام کو دوبارہ شروع کرنے کا فیصلہ کیا ہے جسے ہم سمجھتے ہیں کہ انھوں نے 2003 کے آخر میں معطل یا روک دیا تھا لیکن اسٹول کی دیگردو ٹانگوں، یعنی افزودگی کے پروگرام سے ظاہرہوتا ہے کہ وہ بہت آگے بڑھ چکی ہیں۔

لیکن تہران کے جنوب مغرب میں قریباً 90 کلومیٹر (55 میل) کے فاصلے پرواقع شہرقم کے قریب ایک پہاڑ کے نیچے واقع فردوبین الاقوامی برادری کے لیے ایک خاص تشویش کا باعث بنا ہوا ہے۔ یہ فٹ بال کے میدان کے برابر ہے اوراتنا بڑا ہے کہ اس میں 3000 سینٹری فیوجزنصب کیے جا سکتے ہیں، لیکن یہ اتنا چھوٹا اور سخت ہے کہ امریکی حکام کے مطابق 2009 میں جب انھوں نے اس جگہ کو عوامی سطح پرپہلی مرتبہ بے نقاب کیا توانھیں شبہ ہوا تھاکہ اس کا کوئی فوجی مقصد تھا۔

تاہم، ایران کی طرف سے کوئی بھی وضاحت،اس کے علاقائی حریف اسرائیل کو مطمئن کرنے کے لیے کافی نہیں ہوگی۔اسرائیل کے حال ہی میں دوبارہ اقتدار سنبھالنے والے وزیراعظم بنیامین نیتن یاہو پہلے ہی تہران کے خلاف فوجی کارروائی کی دھمکی دے چکے ہیں۔

دریں اثناء منگل کے روز جرمن وزیر خارجہ نے کہا ہے کہ ان کا ملک اوراسرائیل دونوں ایران پر84 فی صد افزودہ یورینیم کے الزامات پر فکرمند ہیں۔انالینا بیئربوک نے کہا کہ ’’ہم ایران کی جانب سے جوہری ہتھیاروں میں اضافے اور یورینیم کی افزودگی کے حوالے سے حالیہ رپورٹس پرتشویش میں متحد ہیں۔ “اتنی اعلیٰ سطح کی افزودگی کا کوئی قابل قبول سویلین جواز نہیں ہے‘‘۔

برلن میں نیوزکانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے اسرائیلی وزیرخارجہ ایلی کوہن نے ایران سے نمٹنے کے لیے دوآپشنز کی طرف اشارہ کیا، ایک سلامتی کونسل کی قرارداد کے ذریعے نام نہاد ‘اسنیپ بیک’ میکانزم کا استعمال جس میں اقوام متحدہ کی پابندیوں کو دوبارہ نافذ کرنے کے لیے 2015 کے جوہری معاہدے کو شامل کیا گیا تھا اوردوسرا’مذاکرات کی میز پرایک قابل اعتماد فوجی آپشن‘۔انھوں نے کہا:’’ہماری ذہانت اور ہمارے علم کے مطابق، ان دو مخصوص اقدامات پر کام کرنے کا یہ صحیح وقت ہے‘‘۔