واشنگٹن(ہمگام نیوز ) جارج ٹاؤن یونیورسٹی میں میڈیا، مشرق وسطیٰ اور ایرانی مطالعات کی پروفیسر ایملی پلاٹ نے کہا ہے کہ مشرق وسطیٰ میں تنازعات کی شدت نے ایرانی انتخابات کی اہمیت بڑھا دی ہے۔ خاص طور پر ایرانی حکومت سے وابستہ گروہوں کے درمیان بڑھتی ہوئی محاذ آرائی اور ایک طرف امریکہ اور دوسری طرف اسرائیل کے ساتھ محاذ آرائی نے الیکشن کی اہمیت بڑھا دی ہے۔   ایملی پلاٹ نے ’’ العربیہ ڈاٹ نیٹ‘‘کے ساتھ ایک انٹرویو میں مزید کہا کہ ملک کے اندر بدعنوانی کے ساتھ ساتھ بڑھتی ہوئی مہنگائی، پابندیوں کے اثرات اور معاشی بدانتظامی جیسے بحران بھی ہیں۔ متوسط طبقہ حکومت سے دور ہو گیا ہے۔ اس طبقے نے گزشتہ انتخابات میں بھی زیادہ حصہ نہیں لیا تھا۔   امریکی خاتون پروفیسر نے کہا کہ ایران میں صدارتی انتخابات کی خبروں اور مباحثوں میں سوشل میڈیا پر لوگوں کی عدم دلچسپی حکومت کی قیادت کے لیے ایک بڑے چیلنج کو ظاہر کر رہی ہے۔ لوگوں کی اکثریت حکومت سے دوری اختیار کر رہی ہے۔   ایرانی سپریم لیڈر کی حکمت عملی ان حالات کی روشنی میں امیدواروں کے درمیان انتخابی مہمات کے بارے میں پروفیسر ایملی پلاٹ نے کہا کہ ایرانی رہنما کی حکمت عملی کا مقصد اصلاح پسند امیدوار کو الیکشن لڑنے کی اجازت دے کر زیادہ سے زیادہ ووٹ حاصل کرنا ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ ایک کے سوا باقی امیدوار انتہا پسند بنیاد پرست ہیں۔ لہٰذا اگر اصلاح پسند امیدوار انتخابات جیتتا ہے تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ موجودہ حکومت عوام کے لیے قابل قبول نہیں ہے۔   اصلاح پسندوں کے لیے موقع تہران میں مستقبل کی حکومت کی شکل کے بارے میں ایرانی امور میں ماہر امریکی پروفیسر نے کہا کہ اگرچہ خارجہ پالیسی کے حوالے سے جلیلی اور قالیباف جیسے بنیاد پرست امیدواروں کے درمیان اختلافات ہیں، لیکن قابل ذکر بات یہ ہے کہ اصلاح پسند تحریک کے امیدوار مسعود پیزشکیان نے تصدیق کی ہے کہ وہ خاص طور پر جوہری معاہدے کے حوالے سے حسن روحانی کے راستے پر چلیں گے۔   انتخابات کے انعقاد کی شرائط کے بارے میں ایملی پلاٹ نے کہا کہ یہ انتخابات بہت اہم ہیں۔ یہ الیکشن 2022 کے احتجاج کے بعد ہو رہا ہے۔ اگر عوام کی شرکت زیادہ ہوگئی تو اصلاح پسند کامیاب ہوسکتے ہیں۔   جارج ٹاؤن یونیورسٹی میں ایرانی امور کی خاتون محقق نے مزید کہا اگر اصلاح پسند اقتدار میں آتے ہیں تو یہ حکومت کے لیے لچکدار خارجہ پالیسی اپنانے میں کردار ادا کریں گے لیکن اس کا مطلب نہیں ہے کہ حکومت کی عمومی پالیسیاں تبدیل ہو جائیں گی۔   سوشل میڈیا کا کردار پروفیسر ایملی پلاٹ نے واضح کیا کہ گزشتہ چند ہفتوں کے دوران جو کچھ ہم نے دیکھا ہے وہ ایران میں سوشل میڈیا پر انتخابی خبروں میں لوگوں کی عدم دلچسپی ہے۔ چونکہ انتخابات جمہوریت کے اصولوں میں سے ایک ہیں، اس لیے ان میں لوگوں کی کم شرکت اور سوشل میڈیا تک پر ان کی بے حسی نظام کے لیے ایک بڑا مخمصہ ہے۔   ایران میں سماجی حالات کے مستقبل کے بارے میں ایملی پلاٹ نے کہا کہ گزشتہ سالوں میں ہونے والے مظاہروں کی بنیاد پر مجھے یقین ہے کہ ہم مستقبل میں بھی مظاہروں کا مشاہدہ کریں گے۔ لیکن ایسا لگتا ہے کہ اس مرتبہ حکومت کو اس پر قابو پانے میں زیادہ مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا۔