{"remix_data":[],"remix_entry_point":"challenges","source_tags":["local"],"origin":"unknown","total_draw_time":0,"total_draw_actions":0,"layers_used":0,"brushes_used":0,"photos_added":0,"total_editor_actions":{},"tools_used":{},"is_sticker":false,"edited_since_last_sticker_save":false,"containsFTESticker":false}

دزاپ (ہمگام نیوز) اطلاع کے مطابق گزشتہ روز اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے ہائی کمشنر نے بتایا کہ ایران نے 2024 میں 900 سے زائد افراد کو پھانسی دی اور ان میں سے تقریباً 40 افراد کی سزائے موت پر صرف گزشتہ ہفتے دسمبر ہی عمل درآمد کیا گیا۔

 انسانی حقوق کے ہائی کمشنر وولکر ترک نے کہا: “گزشتہ ایک سال کے دوران ایران میں سزائے موت پانے والوں کی تعداد میں اضافہ انتہائی تشویشناک ہے، اور اب وقت آگیا ہے کہ ایران پھانسیوں میں اضافے کو روکے۔”

 اقوام متحدہ کے اعدادوشمار کے مطابق گزشتہ سال (2023) میں پھانسیوں کی تعداد کم از کم 853 تھی۔ ایران کا عدالتی نظام قتل، منشیات کی اسمگلنگ، عصمت دری اور جنسی حملوں جیسے جرائم کے لیے موت کی سزا دیتا ہے۔ ایران میں پھانسیوں کی سزاؤں میں اضافے کو انسانی حقوق کے گروپوں کی جانب سے سخت ردعمل کا سامنا کرنا پڑا ہے اور ان کی ایک بڑی تشویش بین الاقوامی انسانی حقوق کے معیارات کی خلاف ورزی ہے۔

 ایران میں پھانسیوں کی تعداد میں چین کے بعد دنیا میں دوسرے نمبر پر ہے۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل سمیت انسانی حقوق کی تنظیموں کے مطابق چین میں پھانسیوں کی تعداد کے درست اعداد و شمار موجود نہیں ہیں۔ انسانی حقوق کے گروپوں نے ایران پر الزام لگایا ہے کہ وہ سزائے موت کو معاشرے میں خوف اور گھٹن پیدا کرنے کے لیے استعمال کر رہا ہے، خاص طور پر بڑے پیمانے پر “عورت، زندگی، آزادی” کے تحریک کے بعد یہ عمل تیزی سے جاری ہے ۔

 اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے ہائی کمشنر کے دفتر نے کہا: سزائے موت پانے والوں میں سے زیادہ تر منشیات کی اسمگلنگ سے متعلق مجرم تھے، “لیکن ان میں سے ایک بڑی تعداد حکومت کے مخالفین اور 2022 کے احتجاجی مظاہروں کے قیدی تھے، اور پچھلے سال جن کو پھانسی دی گئی ان میں سے زیادہ تر خواتین تھیں۔