قابض ایران کے حالیہ میزائل حملے کے بعد اسرائیل اور مشرقِ وسطیٰ میں کشیدگی مزید بڑھنے کے خدشات ظاہر کیے جا رہے ہیں۔ اسرائیل کے دفاعی نظام آئرن ڈوم نے کئی ایرانی میزائلوں کو تباہ کر دیا، تاہم بعض میزائل زمین پر گرنے کی بھی اطلاعات ہیں۔ یہ حملہ ایران کی طرف سے اسرائیل پر براہِ راست دوسری مرتبہ کیا گیا ہے، اور مبصرین کا کہنا ہے کہ اس سے خطے میں ایک بڑے تصادم کے امکانات بڑھ گئے ہیں۔

ایرانی پاسدارانِ انقلاب نے ان حملوں کو حزب اللہ، حماس، اور ایک ایرانی کمانڈر کی اسرائیلی حملوں میں ہلاکت کا جواب قرار دیا ہے۔ ایران کی جانب سے اسرائیل پر اپریل 2024 میں بھی 300 میزائل اور ڈرون حملے کیے گئے تھے، جو شام میں ایرانی سفارت خانے پر اسرائیلی حملے کے ردعمل میں تھے۔

اسرائیل کی جانب سے حالیہ حملے پر سخت ردعمل کی توقع کی جا رہی ہے۔ اسرائیلی وزیرِ اعظم بن یامین نیتن یاہو نے ایک ویڈیو پیغام میں کہا ہے کہ ایران نے ‘بڑی غلطی’ کی ہے اور اسے اس کا خمیازہ بھگتنا پڑے گا۔ یہ بیان اس بات کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ اسرائیل اس بار زیادہ شدت سے ایران کو جواب دے سکتا ہے۔

مبصرین کے مطابق یہ صورتحال انتہائی پیچیدہ ہے اور یہ کسی بھی سمت جا سکتی ہے۔ واشنگٹن ڈی سی میں قائم تھنک ٹینک سینٹر فار اسٹرٹیجک اینڈ انٹرنیشنل اسٹڈیز کے تجزیہ کار شان شیخ کے مطابق ایران اور اسرائیل دونوں کے پاس کشیدگی کو بڑھانے یا کم کرنے کا موقع موجود ہے، لیکن کوئی بھی واضح حکمت عملی طے نہیں کی گئی۔

ترکیہ اور عراق میں سابق امریکی سفیر جیمز جیفری کے مطابق ایران کی فوجی استعداد اسرائیل کے مقابلے میں محدود ہے، اور یہ فرق فیصلہ کن کردار ادا کر سکتا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ خطے میں جاری کشیدگی کے اثرات دور رس ہو سکتے ہیں، اور اگر دونوں ممالک کے درمیان حملے جاری رہے تو اس کے نتیجے میں پورا مشرقِ وسطیٰ متاثر ہو سکتا ہے۔

یہ واضح نہیں کہ اسرائیل کا جواب کیا ہوگا، لیکن موجودہ حالات میں دونوں ممالک کے درمیان ایک بڑے فوجی تصادم کا امکان مسترد نہیں کیا جا سکتا،

حالات کشیدگی کی جانب گامزن ۔