سری لنکا(ہمگام نیوز ڈسک) سری لنکا کے آرمی چیف نے پہلی مرتبہ انکشاف کیا ہے کہ گذشتہ ماہ ایسٹر پر بم دھماکے کرنے والوں نے بھارت کا سفر کیا تھا۔انھوں نے وہاں تربیت حاصل کی تھی یا پھر ملک سے باہر دوسری تنظیموں سے روابط استوار کرنے کی کوشش کی تھی۔
آرمی چیف لیفٹیننٹ جنرل مہیش سینا نائیکے نے ہفتے کے روز بی بی سی سے ایک انٹرویو میں کہا ہے کہ ’’ بم دھماکوں میں ملوث افراد بھارت گئے تھے۔اب تک دستیاب معلومات کے مطابق انھوں نے ( بھارت کے مقبوضہ ریاست) کشمیر کا سفر کیا تھا۔ وہ بنگلور گئے تھے اور انھوں نے ریاست کیرالا کا بھی سفر کیا تھا‘‘۔
گذشتہ ہفتے خودکش بمباروں کے سرغنہ محمد ہاشم زہران کے بارے میں یہ اطلاع سامنے آئی تھی کہ وہ پڑوسی ملک بھارت میں ایک عرصہ مقیم رہا تھا اور اس نے ممکنہ طور پر عسکری تربیت وہیں سے حاصل کی تھی۔سری لنکن فوج کے ایک ذریعے نے اپنی شناخت ظاہر نہ کرنے کی شرط کہا تھا کہ ’’ ہم داعش کے زاویے سے بھی تحقیقات کررہے ہیں۔ہمیں یہ شُبہ ہے کہ مشتبہ خودکش بمباروں میں سے بعض سخت گیر نوجوانوں کی بھارت اور ممکنہ طور پر تامل ناڈو میں نظریاتی اور عسکری تربیت کی گئی تھی‘‘۔
ہاشم کے بھارتی نژاد نوجوانوں سے ورچوئل ( انٹرنیٹ کے ذریعے) روابط ضرور استوار تھے۔سری لنکا کی مسلم کونسل کے نائب صدر حلمی احمد نے بھی ہاشم کے جنوبی بھارت میں روابط ومراسم کی تصدیق کی ہے۔انھوں نے فرانسیسی خبررساں ایجنسی اے ایف پی سے گفتگو کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’’ ہاشم نے اپنا اڈا جنوبی بھارت میں منتقل کردیا تھا ۔اس کی تمام ویڈیوز بھارت سے ہی اپ لوڈ کی گئی تھیں ۔وہ اسمگلروں کی کشتیوں کو بھارت جانے اور وہاں سے واپس آنے کے لیے استعمال کیا کرتا تھا‘‘۔
قبل ازیں ایک بے نامی سکیورٹی عہدے دار نے بھارتی اخبار انڈین ایکسپریس کو بتایا تھا کہ ریاست تامل ناڈو اور کیرالا میں سراغرساں ایجنسیاں دس پندرہ مشتبہ افراد کی تلاش میں ہیں۔ ان کے فون نمبروں کا زہران ہاشم کے کال ریکارڈ سے پتا چلا ہے اور وہ ممکنہ طور پر آپس میں رابطے میں رہے تھے۔
جنرل سینا نائیکے سے جب سوال کیا گیا کہ کیا ان حملوں کی سازش سری لنکا ہی میں تیار کی گئی تھی یا ایسے بھی کوئی شواہد دستیاب ہوئے ہیں جن سے یہ پتا چلتا ہو کہ حملہ آوروں نے شام میں سخت گیر جنگجو گروپ داعش کی شخصیات سے بھی روابط استوار کیے تھے اور ان سے بھی کوئی ہدایات لی تھیں؟ اس کے جواب میں انھوں نے کہا کہ اس کارروائی کے طریق کار اور جگہوں کے انتخاب سے تو پتا چلتا ہے کہ ان کی قیادت نے ان مقامات کے سفر کیے تھے ۔اس لیے قیادت کا بھی حملوں میں ہاتھ کارفرما ہوسکتا ہے یا حملہ آوروں نے ان سے ہدایات لی تھیں۔
سری لنکا کی مسلح افواج کے کمانڈر نے تسلیم کیا کہ بعض اطلاعات اور خفیہ معلومات کے تبادلے میں بھی کچھ ایشو درپیش ہوئے تھے۔ملٹری انٹیلی جنس ایک مختلف سمت میں جانا چاہتی تھی اور دوسرے ایک مختلف سمت میں جانا چاہتے تھے ۔ان میں ایک فاصلہ اور فرق تھا اور اس کو آج ہر کوئی دیکھ سکتا ہے‘‘۔
پھر ان سے سوال کیا گیا کہ انٹیلی جنس کے تبادلے میں ناکامی کا کس کو مورد الزام ٹھہرایا جاسکتا ہے؟ تو انھوں نے کہا:’’ میں اس بات میں یقین رکھتا ہوں، خفیہ معلومات کو جمع کرنے کا کوئی بھی ذمے دار ، ان منصوبوں کی تیاری کا ذمے دار اور قومی سلامتی کے ذمے داروں کو اس کا مورد الزام ٹھہرایا جانا چاہیے‘‘۔
انھوں نے یہ بھی تسلیم کیا کہ سلامتی کے امور میں غفلت ہی سری لنکا میں حملے کا موجب تھی ۔گذشتہ دس سال کے دوران میں بہت زیادہ آزادی اور امن سے لوگ یہ بھول ہی گئے تھے کہ تیس سال تک ان کے ملک میں کیا ہوتا رہا تھا۔لوگ امن سے لطف اندوز ہورہے تھے اور انھوں نے سکیورٹی کو نظر انداز کردیا تھا۔
جنرل سینا نائیکے نے ایک سوال کے جواب میں اس اعتماد کا اظہار کیا کہ ’’سری لنکا اب بھی بین الاقوامی سیاحوں کے لیے ایک محفوظ جگہ ہے ۔سری لنکا 26 سال تک لڑتا رہا ہے ۔تب ہمیں جس صورت حال کا سامنا تھا ، وہ آج سے کہیں زیادہ مشکل تھی ۔ ہم نے عوام کا اعتماد بحال کرنے کے لیے پولیس اور فوج کی بھاری نفری تعینات کی ہے اور انھیں یہ یقین دلانا چاہتے ہیں کہ ملک میں اب کوئی تشدد نہیں ہوگا ، فرقہ وارانہ فسادات نہیں ہوں گے ۔ مجھے مسلح افواج اور پولیس پر پورا پورا اعتماد ہے ۔وہ جلد سے جلد ملک میں حالات معمول پر لے آئیں گے‘‘۔
قبل ازیں بھی یہ اطلاعات سامنے آچکی ہیں کہ سری لنکا کے سکیورٹی اداروں نے بیرون ملک سے ایسٹر کے موقع پر دہشت گردی کے حملوں کے بارے میں ملنے والی انٹیلی جنس اطلاعات اور انتباہوں کو نظرانداز کیا تھا اور وہ پیشگی حفاظتی اقدامات کرنے میں ناکام رہے تھے اور 21 اپریل کو دارالحکومت کولمبو اور دوسرے مقامات پر واقع تین گرجا گھروں اور چار ہوٹلوں میں خودکش بم دھماکے ہوئے تھے جن کے نتیجے میں 253 افراد ہلاک اور قریباً 500 زخمی ہوگئے تھے۔داعش نے ان بم حملوں کی ذمے داری قبول کی تھی۔
سری لنکا کے صدر میتھری پالا سری سینا نے ایسٹر پر بم حملوں کو روکنے میں ناکامی اور فرائض سے غفلت برتنے پر سکیورٹی اداروں میں اکھاڑ پچھاڑ کی ہے۔ انھوں نے پولیس سربراہ پوجیتھ جیا سندرا کو عہدے سے ہٹا دیا تھا اور سیکریٹری دفاع ہیما سری فرنینڈو بم دھماکے روکنے میں اپنے ماتحت اداروں کی ناکامی پر عہدے سے مستعفی ہوگئے تھے